واجدحسین
معطل
تیسرا باب
اسی طرح پہلے باب میں حضرت ماعزرضی اللہ عنہ والی روایت بھی بیان ہو چکی ہے ان دونوں روایات میں اس بات کی واضح تصریح ہے کہ جہاد کا رتبہ حج سے بڑھ کر ہے ۔ (و اللہ اعلم)
٭ آدم بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے فرمایا اللہ کے راستے [جہاد ] کا ایک سفر پچاس حج کرنے سے افضل ہے ۔(کتاب الجہاد لابن مبارک)
اس موقوف روایت کی سند [امام بخاری کی شرائط کے مطابق] صحیح ہے او ر اس طرح کی فضیلت کوئی صحابی اپنی طرف سے بیان نہیں فرماسکتے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں تم لوگ حج کیا کرو کیونکہ وہ نیک عمل ہے [اور ] اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور جہاداس سے بھی افضل ہے ۔ یہ روایت بھی موقوف ہے ۔ (مصنف ا بن ابی شیبہ ۔ کتاب الجہاد لابن مبارک )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو گھر بیٹھے شخص سے ستر گنازیادہ اجر ملتا ہے ۔ جبکہ حاجی کو مجاہد سے آدھا اور عمرہ کرنے والے کو حاجی سے آدھا اجر ملتا ہے ۔ (شفاالصدور )
ان تما م روایت سے معلوم ہوا کہ عام طور پر جہاد حج سے افضل عمل ہے لیکن اگر جہاد فرض کفایہ ہو تو اس صورت میں فرض حج جہاد سے افضل ہو گا لیکن اگر جہاد فرض عین ہو چکا ہو تو وہ فرض حج سے افضل ہے [یاد رہے کہ اگر کسی شخص کو حج کرنے کی استطاعت نصیب ہو تو زندگی میں ایک بار حج کرنا اس پر فرض ہوتا ہے یہی فرض حج کہلاتا ہے جن احادیث میں حج کو جہاد سے افضل بتایا گیا ہے ان میں فرض حج مراد ہے اور جہاد سے مراد فرض کفایہ جہاد ہے ]
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے حج[ فرض ] اداء نہ کیا ہو اس کا ایک حج کرنا [جہاد کی ] دس جنگوں میں حصہ لینے سے افضل ہے اور جس نے حج [فرض] اداء کر لیا ہو اس کا ایک لڑائی میں حصہ لینا دس حج کر نے سے افضل ہے ۔(اطبرانی ۔المستدرک صحیح علی شرط البخاری)
٭ حضرت مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے لئے اجازت مانگنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص حج کر چکا ہو اس کا ایک بار جہاد میں حصہ لینا چالیس حج کرنے سے افضل ہے ۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فرض حج اداء کرنے کے بعد اللہ کے راستے کی ایک جنگ میں حصہ لینا ہزار حج کرنے سے افضل ہے ۔ (ابن عساکر )
مصنف فرماتے ہیں کہ احادیث میں اجر کے بارے میں جو اختلاف نظر آرہا ہے تو دو طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا یہ کہ جو حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہو اسی کا اعتبار کیا جائے ۔
اور دوسرا یہ کہ مجاہدین کو ان کی نیت اور حسن عمل کے اعتبار سے اجر ملتا ہے ۔ چنانچہ کسی کا ایک بار جہاد کرنا دس حج کرنے سے افضل ہے تو کسی کا جہاد چالیس حج کرنے سے افضل ہے ۔
[علی ہذالقیاس ]
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات کے اعتبار سے اجر میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے یعنی جن حالات میں جہاد کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ان میں اس کا اجر بھی بڑھ جاتا ہے
جہاد کی حج پرافضلیت کا بیان
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔ پوچھا گیا اس کے بعد کونسا [عمل افضل ہے ] آپ نے فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ [پھر ] پوچھا گیا کہ اس کے بعد کونسا [عمل افضل ہے ؟]آپ نے ارشاد فرمایا :حج مبرور۔ (بخاری ۔مسلم )اسی طرح پہلے باب میں حضرت ماعزرضی اللہ عنہ والی روایت بھی بیان ہو چکی ہے ان دونوں روایات میں اس بات کی واضح تصریح ہے کہ جہاد کا رتبہ حج سے بڑھ کر ہے ۔ (و اللہ اعلم)
٭ آدم بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے فرمایا اللہ کے راستے [جہاد ] کا ایک سفر پچاس حج کرنے سے افضل ہے ۔(کتاب الجہاد لابن مبارک)
اس موقوف روایت کی سند [امام بخاری کی شرائط کے مطابق] صحیح ہے او ر اس طرح کی فضیلت کوئی صحابی اپنی طرف سے بیان نہیں فرماسکتے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں تم لوگ حج کیا کرو کیونکہ وہ نیک عمل ہے [اور ] اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور جہاداس سے بھی افضل ہے ۔ یہ روایت بھی موقوف ہے ۔ (مصنف ا بن ابی شیبہ ۔ کتاب الجہاد لابن مبارک )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو گھر بیٹھے شخص سے ستر گنازیادہ اجر ملتا ہے ۔ جبکہ حاجی کو مجاہد سے آدھا اور عمرہ کرنے والے کو حاجی سے آدھا اجر ملتا ہے ۔ (شفاالصدور )
ان تما م روایت سے معلوم ہوا کہ عام طور پر جہاد حج سے افضل عمل ہے لیکن اگر جہاد فرض کفایہ ہو تو اس صورت میں فرض حج جہاد سے افضل ہو گا لیکن اگر جہاد فرض عین ہو چکا ہو تو وہ فرض حج سے افضل ہے [یاد رہے کہ اگر کسی شخص کو حج کرنے کی استطاعت نصیب ہو تو زندگی میں ایک بار حج کرنا اس پر فرض ہوتا ہے یہی فرض حج کہلاتا ہے جن احادیث میں حج کو جہاد سے افضل بتایا گیا ہے ان میں فرض حج مراد ہے اور جہاد سے مراد فرض کفایہ جہاد ہے ]
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے حج[ فرض ] اداء نہ کیا ہو اس کا ایک حج کرنا [جہاد کی ] دس جنگوں میں حصہ لینے سے افضل ہے اور جس نے حج [فرض] اداء کر لیا ہو اس کا ایک لڑائی میں حصہ لینا دس حج کر نے سے افضل ہے ۔(اطبرانی ۔المستدرک صحیح علی شرط البخاری)
٭ حضرت مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے لئے اجازت مانگنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص حج کر چکا ہو اس کا ایک بار جہاد میں حصہ لینا چالیس حج کرنے سے افضل ہے ۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فرض حج اداء کرنے کے بعد اللہ کے راستے کی ایک جنگ میں حصہ لینا ہزار حج کرنے سے افضل ہے ۔ (ابن عساکر )
مصنف فرماتے ہیں کہ احادیث میں اجر کے بارے میں جو اختلاف نظر آرہا ہے تو دو طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا یہ کہ جو حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہو اسی کا اعتبار کیا جائے ۔
اور دوسرا یہ کہ مجاہدین کو ان کی نیت اور حسن عمل کے اعتبار سے اجر ملتا ہے ۔ چنانچہ کسی کا ایک بار جہاد کرنا دس حج کرنے سے افضل ہے تو کسی کا جہاد چالیس حج کرنے سے افضل ہے ۔
[علی ہذالقیاس ]
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات کے اعتبار سے اجر میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے یعنی جن حالات میں جہاد کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ان میں اس کا اجر بھی بڑھ جاتا ہے