جہاد میں تیراندازی کے فضائل اور ان کا بیان

جہاد میں تیراندازی کے فضائل اور تیر اندازی سیکھ کر
چھوڑنے والے گناہ گار ہونے کا بیان

یہ بات اچھی طرح جان لیجئے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے تیر اندازی سیکھنا اور سکھنا اور آپس میں تیر اندازی کا مقابلہ کرنا ایسا عمل ہے جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندیدہ قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تر غیب بھی دی ہے آیئے اب ترتیب سے تیراندازی کے کچھ فضائل پڑھتے ہیں۔
( ا) تیر اندازی اللہ تعالی کا حکم
اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
( ۱ ) و ا عدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ۔ ( سورۃ انفال آیات نمبر ۶۰ )
اور ان کافروں سے لرائی کے لئے تم تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے قوت سے ( یعنی ہتھیار وغیرہ )۔
بعض علماء کرام نے اسی آیت کی بناء پر تیر اندازی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں قوۃ کے معنی تیر اندازی بیان کئے گئے ہیں۔

٭ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرما رہے تھے : ا عدوا لھم ما استطعتم من قوۃ اور ان کافروں سے لڑائی کے لئے تم تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے قوت سے، خبردار قوت تیر اندازی ہے ۔ خبردار قوت تیر اندازی ہے ۔ ( مسلم شریف )
[ حضور کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں الرمی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے تیر اندازی سے کیا ہے ویسے عربی زبان میں رمی پھینکنے کو کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان جامع الفاظ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ اصل قوت ان ہتھیاروں سے حاصل ہوتی ہے جو دور سے پھینگ کر مارے جاتے ہیں۔ چنانچہ ماضی میں بھی مسلمانوں نے اسی فرمان پر عمل کرتے ہوئے جہاں ایک طرف تیر اندازی میں خوب مہارت حاصل کی تھی اور بھاگتے ہرن کے جس آنکھ کو چاہتے تھے نشانہ بناتے تھے تو دوسری طرف انہوں نے پھینک کر مارنے والے دوسرے ہتھیار بھی تیار فرمائے اور ان میں بھی خوب ترقی حاصل کی۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مسلمانوں نے منجنیق استعمال کی جس کے ذریعے سے بڑے بڑے پتھر دور فاصلے تک مارے جاتے تھے پھر یہ منجنیق مسلمانوں کے ہاں ترقی کرتی چلی گئی اور مسلمانوں نے آتشی تیر اور بڑی بڑی چٹانیں اور بارود تک دشمن پر پھینکنے میں مہارت حاصل کی۔ مگر پھر مسلمانوں نے جہاد کو چھوڑ دیا اور ان کے دشمنوں نےقوت کے اس راز کو جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا تھا سمجھ لیا چنانچہ انہوں نے میزائلوں میں وہ ترقی حاصل کی جو مسلمان حاصل نہ کرسکے۔ آج جب دنیا میزائلوں کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے اور جس کے پاس جتنی دور تک مارنے والے جتنے زیادہ طاقتور میزائل ہیں وہی دنیا میں زیادہ طاقت والا ہے ان حالات میں ایک طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صداقت چمکتے سورج کی طرح نظر آرہی ہے کہ واقعی اصل قوت پھینگ کر مارنے کی قوت ہے جبکہ دوسری طرف یہ حدیث مسلمانوں کے لئے ایک سولیہ نشان بھی ہے کہ انہوں نے اس فرمان کو بھلا کر اور اس سے غفلت کرکے اپنا کتنا بڑا نقصان کیا ہے ۔ ]

( ۲ ) ایک تیر کی بدولت تین آدمی جنت میں

٭ حضرت خالد بن زید فرماتے ہیں کہ میں تیر انداز آدمی تھا، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ جب بھی میرے پاس تشریف لاتے تو ارشاد فرماتے اے خالد چلو تیر اندازی کرتے ہیں ایک بار میں نے کچھ سستی کی تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے خالد کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالی ایک تیر کی بدولت تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے ( ۱ ) اس تیر کے بنانے والے کو جو بناتے وقت نیکی [ یعنی جہاد ] کی نیت کرے ( ۲ ) اس تیر کو [دشمن کی طرف ] چلانے والے کو ( ۳ ) تیر انداز کے ہاتھ میں پکڑنے والے کو ۔ [ اے مسلمانو ] تم تیر اندازی کرو اور گھڑ سواری کرو اور تمھارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمھارے سوار ہونے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور تین کھیلوں کے سوا کوئی کھیل درست نہیں۔ ( ۱ ) آدمی کا اپنے گھوڑے کو تربیت دینا ( ۲ ) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا ( ۳ ) تیر اندازی کرنا۔ اور جس شخص نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دی تو اس نے ایک نعمت کو چھوڑ دیا یا نعمت کی ناشکری کی ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۔ ابو داؤد۔ نسائی۔ المستدرک )
 
٭ ابن المنذر نے اس روایت کے آخر میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوا تو انہوں نے ستر ( ۷۰ ) کمانیں چھوڑیں اور ہر کمان کے ساتھ ترکش اور تیر بھی تھے آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ یہ سب ہتھیار میرے بعد جہاد میں دے دیئے جائیں ۔ ( الاوسط )
حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ تیر اندازی کی معاونت کرنے والے کے لئے بھی جنت کی بشارت ہے اور یہ معاونت تین طرح سے ہو سکتی ہے ( ۱ ) جب تیر انداز دشمن پر تیر چلا رہا ہو تو کوئی شخص اس کے پہلو میں یا اس کے پیچھے کھڑے ہوکر اس کو تیر دیتا رہے [ جس طرح اس زمانے میں راکٹ لانچر والے کے ساتھ راکٹ دینے والا ایک معاون ہوتا ہے یا مجاہدین کے ساتھ ان کی بندوقوں کے میگزین بھر کر دینے والے ہوتے ہیں یا توپچی کو گولے لالا کر دینے والے ہوتے ہیں یہ بشارت ان سب کے لئے بھی ہے]
( ۲ ) جب تیر انداز تیر چلائے تو اس کے چلائے ہوئے تیروں کو واپس لاکر اسے دینا یہ بھی معاونت ہے۔ (۳) تیر انداز کو تیر یا کمان خرید کر دینا یہ بھی معاونت ہے اور کئی احادیث سے ثابت ہے [ اس زمانے میں کسی کو بندوق، راکٹ لانچر ، توپ وغیرہ خرید کر دینا اور ان تمام ہتھیاروں کی گولیاں یاگولے خرید کر دینا اس میں شامل ہے ]۔

٭ غزوہ احد کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے سعد رضی اللہ عنہ کو تیر دو۔ اے سعد رضی اللہ عنہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں تیر مارو [ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے صحابہ کو حکم دے رہے تھے کہ اپنے اپنے تیر حضرت سعد کو دو تاکہ وہ ان کا حق اداء کر سکیں ۔ ( لمستدرک )

( ۳ )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود تیر انداز تھے​

٭ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا جو تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے اسماعیل کی اولاد تیر اندازی کیا کرو کیونکہ تمھارے والد [ حضرت اسماعیل علیہ السلام ] تیر انداز تھے تم تیر اندازی کرو او ر میں بنوں فلاں کے ساتھ ہوں [ یعنی میں بھی ایک گروپ کی طرف سے مقابلے میں حصہ لیتا ہوں ] روای فرماتے ہیں [ یہ سن ] دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ روک لئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگوں نے تیر اندازی کیوں بند کردی ۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ جب دوسرے فریق کے ساتھ ہو گئے ہیں تو ہم [ آپ کے مقابلے میں] کس طرح سے تیر اندازی کریں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [اچھا ] تم تیر اندازی کرو میں تم سب کےساتھ ہوں ۔ ( بخاری )

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اچھی نیت سے تیر اندازوں کو مقابلے کے لئے غیرت دلانا تاکہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں اور ان میں اس عمل کی خوب رغبت پیدا ہو جائے ایک اچھا کام ہے اور تیر اندازوں کی دل جوئی کےلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اسے سر انجام دینا چاہئے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ بغض و عداوت کے اظہار اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کےلئے جوش دلانا جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے ایک حرام فعل ہے۔ یہی حکم تلوار بازی نیزا بازی اور بنوٹ وغیرہ کا بھی ہے [ اور اس زمانے میں بندوق سے نشانہ بازی کرنا اور دیگر جنگی آلات کے استعمال میں مقابلہ بازی کا بھی یہی حکم ہے کہ اچھی نیت سے کرنے پر اجر اور بری نیت سے کرنے پر گناہ ہوگا]۔


٭ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عنقریب علاقے تمھارے ہاتھوں فتح ہوں گے اور دشمنوں کے مقابلے میں اللہ تعالی تمھارے طرف سے کافی ہو جائیں گے۔ تب بھی تم میں سے کوئی تیر اندازی نہ چھوڑے۔ ( مسلم شریف )
( ۴ ) تیر اندازی علاج غم​
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ تم میں سے جو شخص تفکرات [ اور غم ] میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہئے کہ تیر کمان اپنے گلے سے لٹکائے اس سے اس کا غم دور ہو جائے گا۔۔ ( المعجم الصغیر)

( ۵ ) تیر اندازی بہترین کھیل
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم تیر اندازی کو لازم پکڑو کیونکہ یہ تمھارے کھیلوں میں بہترین کھیل ہے ۔ ( کشف الاستار ۔ البزار ۔ الطبرانی باسنادہ و رجالہ ثقات )

( ۶ ) تیر اندازی میں فرشتوں کی حاضری
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فرشتے تمھارے کھیلوں میں صرف گھڑ دوڑ اور تیر اندازی میں حاضر رہتے ہیں ( سنن سعید ھو مرسل جید )
[رہان ] سے مراد گھوڑوں کی وہ دوڑ ہے جو شریعت کے مطابق ہو۔


٭ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فرشتے صرف تین طرح کے کھیل میں حاضر رہتے ہیں ( ۱ ) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا ( ۲) گھوڑوں کی دوڑ ( ۳ ) تیر اندازی ۔

( ۷ ) تیر اندازی کھیل مگر حق
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دنیا کے سارے کھیل باطل ہیں سوائے تین کھیلوں کے ( ا ) تیر اندازی ( ۲ ) گھوڑے کو تربیت دینا ( ۳ ) بیوی کے ساتھ دل لگی کرنا کیونکہ یہ تینوں حق ہیں ۔ ( المستدرک )


٭ عطاء ابن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر ابن عمیر انصاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ دونوں تیر اندازی فرما رہے تھے۔ ان دونوں میں ایک اکتا کر بیٹھ گئے تو دوسرے نے فرمایا کیا آپ سست ہوگئے ؟ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ہر وہ چیز جو ذکر اللہ میں سے نہ ہو وہ بے کار ہے سوائے چار کاموں کے ( ۱ ) آدمی کا تیر دو ہدفوں کے درمیان چلنا ( ۲ ) اپنے گھوڑے کو تربیت دینا ( ۳ ) بیوی سے دل لگی کرنا ( ۴ ) تیراکی سیکھنا۔ ( نسائی ۔ لطبرانی فی الکبیر باسناد جید )


خوب اچھی طرح جان لیجئے کہ علماء کرام نے اس بات کو نہایت صراحت سے بیان کیا ہے کہ تیر اندازی کی مشق میں مستحب ہے کہ آمنے سامنے دو ہدف بنائے جائے۔ پہلے دونوں تیر انداز ایک طرف سے کھڑے ہوکر سامنے والے ہدف کو نشانہ بنائیں پھر دوسری طرف آکر اپنے تیر اٹھائیں اور وہاں سے سامنے والے ہدف کو نشانہ بنائیں۔


علامہ ابن قدامہ نے تو اسے سنت قرار دیا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی طرح کیا کرتے تھے

ایک روایت میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دو ہدفوں کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے ۔ ( المغنی لابن قدامہ )

٭ ابو عثمان نھدی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ خط آیا۔

حمد و صلوۃ کے بعد یہ کہ تم لوگ ازار باندھا کرو اور جوتے پہنا کرو اور چادریں اوڑھا کرو [ یا تلواریں گلے میں لٹکایا کرو ] موزے اور شلواریں استعمال نہ کرو تم لوگ اپنے والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لباس کو ضرور پکڑو۔ تم لوگ عیش و عشرت اور عجمیوں کے فیشن اختیار کرنے سے بچو۔ سورج عربوں کا حمام ہے اسے اپنے اوپر لیا کرو تم سادگی اختیار کرو اور موٹا لباس پہنا کرو اور مستعد رہا کرو اور ننگے پاؤں چلا کرو اور اونٹوں کی سواری کیا کرو اور گھوڑوں پر اچھل کر چڑھا کرو اور ہدف پر تیر مارنے کا مشق کیا کرو اور دو ہدفوں کے درمیا ن چلا کرو ۔ ( السنن الکبریٰ )


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 
( ۸ ) ہر قدم پر نیکی

٭ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص [ تیر اندازی ] دو ہدفوں کے درمیان چلے گا اسے ہر قدم پر ایک نیکی ملے گی ۔ ( الطبرانی مجمع الزوائد )

( ۹ ) دشمن تک پہنچنے والے تیر کا اجر​
٭ حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طائف کا محاصرہ کیا پس میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر پھینگا تو اس کا یہ تیر پھینکنا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور جس نے اپنا تیر دشمن تک پہنچایا تو اسے جنت میں ایک درجہ ملے گا۔ ( نسائی ۔ ابن حبان ۔ حاکم ۔ ابتدائی حصہ ترمذی میں بھی ہے )


٭ حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : جس نے دشمن تک ایک تیر پہنچایا تو اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن النحام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم درجہ کیا ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ درجہ تمھارے گھر کی سیڑھی کے درجے جیسا نہیں بلکہ ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہو گی ۔ ( نسائی ۔ ابن حبان)


٭ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے بوڑھا ہوگیا تو قیامت کے دن وہ بوڑھاپا اس کے لئے نور کی شکل کا ہوگا اور جو شخص اللہ تعالی کے راستے میں تیر پھینگے گا تو اسے اس کی بدولت ایک درجہ ملے گا ۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی )
[ اس روایت میں صرف دشمن کی طرف تیر پھینکنے کا تذکرہ ہے دشمن تک پہنچانے کا نہیں ] ۔


( ۱۰ ) تیر پہنچے یا نہ پہنچے صرف اسے پھینکنا ہی باعث اجر ہے​
٭ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو گیا تو قیامت کے دن وہ بوڑھاپا اس کے لئے نور کی شکل میں ہوگا جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر مارا وہ تیر دشمن تک پہنچا یا نہ پہنچا تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا اور اس غلام کا ہر عضو اس کے ہر عضو کو دوزخ سے بچانے کا ذریعہ ہوگا۔ ( نسائی باسناد صحیح )


( ۱۱ ) تیر دشمن کو لگا یا خطا ہو ا ہر حال میں باعث اجر ہے​

٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اسلام میں بوڑھا ہوا تو یہ بوڑھاپا قیامت کے دن اس کے لئے نور کی شکل میں ہوگا اور جس نے جہاد میں ایک تیر مارا اور تیر درست جگہ لگا یا خطا ہوا تیر مارنے والے کے لئے وہ اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے ایک غلام آزاد کرنے جیسا ہوگا ۔ ( المعجم الکبر باسنادین رجال احد ھما ثقات )


٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں نکل کر ایک تیر مارا اور وہ تیر [ دشمن تک ] پہنچا یا نہ پہنچا تیر مارنے والے کو اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے جیسا اجر ملے گا۔ ( الطبرانی۔ کشف الاستار )

( ۱۲ ) تیر مارنے سے جنت واجب​
٭ حضرت عتبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنو قریظہ و بنی نضیر میں ارشاد فرمایا : جس نے [ یہودیوں کے ] اس قلعے کے اندر تیر مارا تو جنت اس کے لئے واجب ہو گئی۔ حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دن تین تیر اس قلعے کے اندر پہنچائے ۔ ( الطبرانی فی المعجم الکبیر )


٭ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : دشمن سے لڑو [ یہ سن کر ] ایک شخص نے دشمن پر تیر پھینکا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ ( مسند احمد باسند حسن )

( ۱۳ ) قیامت کے دن کا نور​
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی للہ عنہ بیان فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ تعالی کے راستے میں [ نکل کر ] ایک تیر مارا تو اس کےلئے قیامت کے دن نور ہوگا ۔ ( بزارباسناد حسن )

(۱۴ ) فقر و فاقے سے نجات​

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے عربی کمان اور اس کا ترکش بنایا [اور اپنے پاس رکھا ] تو اللہ تعالی فقر کو چالیس سال تک اس سے دور فرما دیتے ہیں۔ ( ابن عساکرباسنادہ )
اس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی کمانوں کی تعریف فرمائی کیونکہ وہ عمدہ ہوتی ہیں لیکن جس طرح عربی کمانوں کا استعمال جہاد میں درست ہے اسی طرح اہل علم کا اجماع ہے کہ دوسری اقوام مثلا اہل فارس کی کمانون کو استعمال کرنا بھی جائز ہے۔بعض ضعیف روایات میں اہل فارس کی کمانوں کو ملعون کہا گیا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں فارس کے بادشاہ اور نمرود وغیرہ انہیں کمانوں کو استعمال کیا کرتے تھے اور ملعون تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں ان کمانوں کو استعمال کرنا کافروں کے ساتھ تشبہ میں آتا ہو چنانچہ اس لئے اس سے روکا گیاہو۔

علامہ شبیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ کمان جسے کسی ریڑھی یا گاڑی پر سوار کرکے لایا جاتا ہے اور استعمال کیا جاتا ہے روایات میں اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اسے بزدل اور کمزور لوگ استعمال کرتے ہیں یا وہ صلیب کی مشابہ ہوتی ہے۔

( ۱۵ ) تیر اندازی سیکھنے کا تذکرہ قرآن مجید کے ساتھ​
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تیر اندازی اور قرآن مجید سیکھو اور مؤمن کی گھڑیوں میں بہترین گھڑی ہو ہے جس میں وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ ( ابن عساکر منقطعا )

٭ قیس ابن ابی حازم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ یرموک کے ایام میں حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ دو ہدفوں کے درمیان تیر اندازی فرما رہے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں راوی فرماتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تیر اندازی اور قرآن مجید سکھائیں ۔ ( الطبرانی ۔ مجمع الزوائد )

٭ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا بیٹے کے بھی ہمارے ذمے کچھ حقوق ہے جس طرح اس کے ذمے ہمارے حقوق ہیں ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں بیٹے کا حق اس کے والد کے ذمے یہ ہے کہ اسے لکھنا، تیراکی کرنا اور تیر اندازی کرنا سکھائے اور اسے اچھے مال کا وارث بنائے ۔ ( بہیقی باسناد ضعیف )

[ تیر اندازی کے سارے احکام اور فضائل اس زمانے میں فائرنگ اور نشانہ بازی پر صادق آتے ہیں چنانچہ مسلمانوں کو اس کا خوب اہتمام کرنا چاہئے اور پھینک کر مارنے کی اپنی قوت اور طاقت خوب خوب بڑھانی چاہئے ]


جاری ہے ۔۔۔۔
 
٭ یزیدبن شریک رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بغیر چادر کے تیروں کے ہدفوں کے درمیان بھاگ رہے ہیں ۔ ( کتاب السنن )
ہدف : زمین کی اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز گاڑی جاتی ہے اور اسے نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات کسی چیز کو لٹکا کر اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ دو ہدفوں کے درمیان دوڑ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں مجھے شہادت کیسے ملے گی مجھے شہادت کیسے ملے گی ۔ ( کتاب السنن )

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام تیر اندازی کا کتنا زیادہ اہتمام فرماتے تھے چنانچہ وہ ہدفوں کے درمیان چلنے کی بجائے دوڑتے تھے اور جسم سے زائد کپڑے اتار کر اپنے جسم کو مشقت کا عادی بناتے تھے ۔ یہ صحابہ کرام وہ عظیم لوگ ہیں جو ہدایت کے سورج ہیں اور ایسے ستارے ہیں جنہیں دیکھ کر ہدایت کا راستہ معلوم کیا جاتا ہے وہ دنیا اور آخرت کے بادشاہ ہیں درست راستہ وہی ہیں جس پر یہ حضرات تھے اورسیدھی راہ وہی ہیں جس پر وہ حضرات چلے۔ ان کی شان کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالی کا یہ فرمان کافی ہے۔
محمد رسول اللہ ولذین معہ اشداء علی الکفار رحماء
بینھم ترھم رکعا سجدا یبتعون فضلا من اللہ و رضوانا سیما
ھم فی وجوھم من اثر السجود ۔ ( الفتح ۔ ۲۹)[/CENTER

]محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کی صحبت یافتہ ہیں وہ سخت ہیں کافروں کے مقابلہ میں اور آپس میں مہربان ہیں تو دیکھے گا ان کو رکوع میں
اور سجدہ میں (وہ ) اللہ کا فضل اور اس کی رضا کو ڈھونڈتے ہیں ان کی پہچان
ان کے چہروں پر ہے سجدوں کے اثر سے ۔


تیر اندازی [ یا جہاد کی کوئی بھی مشق ] کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عزت و حشمت اور بڑائی کو ایک طرف پھینک کر اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تیر اندازی کریں اور اس میں کیسی طرح عار محسوس نہ کریں اور اپنے اس عمل پر اللہ کے قرب اور اس سے اجر کے امیدوار رہیں ۔ اور اس مشق [ اور جہاد کی تمام ٹریننگ اور ورزش وغیرہ ] کو بڑی عبادت اور اعلی ترین نیکیوں میں سے سمجھیں اور اسے محض کھیل کود یا فضول مقابلہ بازی نہ جانیں اور جب انہیں اس کی توفیق ملے تو اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے ان کے دل میں دوسرے کھیل کود کی بجائے اس کی محبت ڈالی ہے۔ اسی طرح تیر اندازی [ اور جہاد کی دوسری مشقوں ] کے دوران اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسنا اور خوش دلی کرنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستحب کام ہے کیونکہ اس سے مزید چستی اور ہمت پیدا ہوتی ہے البتہ یہ ہنسنا اور خوش دلی مکروہ حد تک نہیں پہنچنا چاہئے۔


بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں [ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ] کی زیارت کہ ہے جو ہدفوں کے درمیان دوڑتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے تھے اور جب رات چھا جاتی تھی تو وہ راہبوں کی طرح دنیا سے بے رغبت ہو کر عبادت اور آہ وزاری میں لگ جاتے تھے ( ابن عساکر )


مصنف فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رحمہ اللہ خود بھی ان صفات کے حامل تھے اور وہ حضرات تابعین کے علماء اور عابدوں میں سے تھے اور وہ ہر دن رات میں ایک ہزار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔


٭ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیر اندازی کر رہے تھے کہ کسی نے کہا اے اللہ کے رسول نماز کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ بھی تو نماز میں ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازی کو نماز کے مشابہ قرار دیا اور یہی بات اس عمل کی فضیلت کے لئے کافی ہے ۔ ( الفروسیتہ المحمد الابن قیم الجوزیہ )


علامہ ابو عبداللہ الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تیر اندازی کی بلند فضیلت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کو کسی کام پر نہیں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہو جائیں تم ایسا کرو ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا : اے سعد تیر پھینکو میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں


ابو عبد اللہ الجوز جانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ سمندر میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے جس رات آپ کا انتقال ہوا [ پیٹ میں ] تکلیف کی وجہ سے آپ کو پچیس بار قضائے حاجت کے لئے جانا پڑا اور ہر بار آپ آ کر نماز کے لئے نیا وضو فرماتے تھے جب انہیں موت قریب محسوس ہوئی تو فرمایا میری کمان تیار کرکے مجھے دے دو چنانچہ انہوں نے کمان اپنے ہاتھوں میں پکڑ لی اور اسی حال میں انتقال فرمایا ۔ ( تہذیب للذ ہبی )


مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ وہ قیامت کے دن اس حالت میں کھڑے کئے جائیں کہ جہاد کے لئے کمان ان کے ہاتھ میں ہو۔


فصل

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانچ کمانیں تھیں۔

( ۱ ) الروحاء ۔
( ۲ ) الصفراء ۔
( ۳ ) البیضاء ۔ یہ آ پ کو بنو قینقاع سے ملی تھی۔
( ۴ ) الزوراء ۔
( ۵ ) الکتوم
۔
اس کا یہ نام اس لئے پڑا کہ تیر مارتے وقت اس کی آواز بہت کم ہوتی تھی ۔بعض روایات میں ایک اور کمان کا بھی تذکرہ ہے اس کا نام السداد تھا اور اس کے ساتھ جو ترکش تھا اس کا نام الکافور تھا اور اس کے ساتھ پٹکا بھی تھا جس کا حلقہ چمڑے کا اور سرا چاندی کا تھا [ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمام کمانیں نبع اور شوحظ نامی درختوں کی لگڑی سے بنی ہوئی تھیں ]

[ اس فصل کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے نہایت تفصیل کے ساتھ تیر اندازی اور گھڑ سواری کے مقابلے کے احکام کو بیان فرمایا ہے چونکہ یہ مسائل خالص فقہی نوعیت کے ہیں اس لئے ہم انہیں یہاں بیان نہیں کر رہے اگر اللہ تبارک و تعالی نے توفیق اور موقع عطاء فرمایا تو ان شاء اللہ ان کو الگ رسالے میں بیان کریں گے ]
فصل

احادیث میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو تیر اندازی سیکھ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔


٭ فقیم اللخمی رحمہ اللہ نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا۔ آپ تیر اندازی کے دو ہدفوں کے درمیان چل پھر رہے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہیں اور آپ کو اس میں بہت مشقت اور تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے اس پر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہ سنا ہوتا تو میں اتنی مشقت نہ کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی ۔ ( مسلم )


٭ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا تو اس نے میری نافرمانی کی ۔ ( سنن ابن ماجہ )
حضرات علماء کرام میں سے ایک جماعت کے نزدیک تیر اندازی سیکھ کر اسے چھوڑ دینا کبیرہ گناہ ہے وہ حضرات فرماتے ہیں کہ جس عمل کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما دیں کہ ایسا کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے یا وہ نافرمان ہے تو وہ عمل کبیرہ گناہ ہوتا ہے امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے اپنی حدیث کی کتاب میں باقاعدہ باب باندھ کر تیر اندازی چھوڑے والوں کے لئے وعیدوں کا ذکر کیا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تیر اندازی چھوڑ دینا سخت مکروہ فعل ہے ( شرح نووی علی مسلم )


مصنف فرماتے ہیں کہ ان تمام اقوال کو سامنے رکھ کر اگر تیر اندازی کو کبیرہ گناہ نہ بھی قرار دیا جائے تو وہ ایسا صغیرہ گناہ ہے جس پر اگر اصرار کیا جائے تو وہ کبیرہ بن جاتا ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے بچے اور جو اس گناہ میں مبتلا ہو چکا ہو یعنی تیر اندازی چھوڑ چکا ہو تو اسے چاہئے کہ فورا توبہ کر کے اس عمل کو شروع کر دے اور زندگی بھر تیر اندازی کو لازم پکڑے۔

[ تیر اندازی سیکھنے ، دشمن کی طرف تیر پھینکنے اور تیر اندازی میں تعاون کے فضائل ہم نے پڑھ لئے اللہ تبارک و تعالی ہمیں ان تمام فضائل کو حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آج اللہ تبارک و تعالی نے ان فضائل کا حاصل کرنا ہم کمزور مسلمانوں کے لئے آاسان فرما دیا ہے پہلے ایک تیر کو پھینکنے کے لئے مشقت کرنی پڑتی تھی، زور لگانا پڑتا تھا اور تکلیف اٹھانی پڑتی تھی مگر آج کل تو جدید اسلحہ تیار ہو چکا ہے۔ جس میں ٹریگر پر ہلکی سے انگلی دبا کر منٹوں میں ہزاروں گولیاں دشمن کی طرف چلائی جاسکتی ہیں ۔ اب کون انسان ہے جو ان فضائل سے محروم رہنے کا تصور کرے۔ اگر آج ہم نے اللہ تعالی کے دشمنوں پر گولیاں اور راکٹ نہ برسائے تو پھر وہ ابابیل بھی ہم سے اچھے تھے جنہوں نے کعبۃ اللہ کی حفاظت کے لئے آسمان سے اللہ کے حکم پر کنکریاں برسائیں اور ہاتھیوں کے لشکر کو کھائے ہوئے بھس کر طرح بنا دیا ۔ آج بھی ٹینکوں ، بکتر بن گاڑیوں اور بحری بیڑوں کی شکل کے ہاتھی کعبۃ اللہ کی طرف اور مسلمانوں کی سرحدوں کی طرف دندناتے ہوئے بڑھ رہے ہیں اور اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان مجاہدین ابابیلوں کی طرح ان پر گولیاں اور راکٹ بر سائیں اور دشمن کی طرف تیر پھینکنے کے بے شمار فضائل حاصل کریں۔
یاد رکھیں دشمن کی طرف تیر پھینکا جائے یا خاک کی مٹھی ۔اللہ تعالی اسے دشمنوں کے لئے خطرناک بنا دیتا ہے۔ کیونکہ اگرچہ ظاہر طور پر پھینکنے والا مجاہد ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اصل میں پھینکنے والے ہم ہوتے ہیں یعنی اس میں تاثیر ہم ہی ڈالتے ہیں ۔

آج سے انیس سال پہلے [اس کتاب کا ترجمہ ۱۹۹۸ میں کیا گیا تھا] اپنے وقت کی سب سے بڑی جنگی اور ایٹمی طاقت سوویت یونین نے افعانستان پر حملہ کیا تو نہتے مجاہدین ان کے مقابلے میں نکلے مگر دنیا جہاں نے وہ مناظر دیکھے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا مجاہدین پتھر پھینکتے تھے اور روسی ٹینکوں میں آگ لگ جاتی تھی مجاہدین اپنی سادہ رائفل سے گولی چلاتے تھے اور روسی ہیلی کاپٹر زمین پر آگر تے تھے۔ اللہ تعالی کے ان ابابیلوں نے اپنی استطاعت کے مطابق دشمن پر اسلحہ پھینکا مگر اللہ تعالی نے اس میں اپنی قوت کو شامل فرما دیا آج بھی مسلمانوں کو چاہئے کہ گولہ باری اور میزائل باری کی مشق کریں اپنے گھروں کی عورتوں کو بھی اسلحہ سکھائیں ۔ کیونکہ آج کے اسلحے کا استعمال نہایت آسان ہے اور مسلمانوں پر خطرات بہت زیادہ ہیں چنانچہ ان خطرات سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو پھینک کر مارنے والے آلات زیادہ سے زیادہ بنانے چاہیں اور ان کے استعمال میں خوب مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔ اور جو مسلمان اسلحہ چلانا سیکھ چکے ہیں مگر اب گھروں میں جا بیٹھے ہیں انہیں اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے اور دوبارہ میدان جہاد کا رخ کرنا چاہیے اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے فوج میں یا کمانڈوز دستوں میں رہ کر ہتھیار چلانا سیکھے ہیں مگر اب اپنی نوکری سے پنش لے کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں کہ اپنی اس صلاحیت کو اللہ تعالی کے دین کی عظمت اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے بلا معاوضہ مرتے دم تک استعمال کرتے رہیں کیونکہ قیامت کے دن ہر انسان سے اس کی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق حساب لیا جائے گا ۔ آج جبکہ مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر کر ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ۔ ہر با صلاحیت فرد کو اپنی صلاحیت استعمال کرکے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے میدانوں میں نکلنا چاہئے ۔
یا اللہ تو ہم سب کو اس کی تو فیق عطاء فرما ۔ ( آمین ثم آمین )



الحمد للہ "فضائل جہاد کامل" کا بیسواں باب بھی مکمل ہو گیا
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو ہمیں ھدایت نصیب فرما اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو ادا کرنے کی تو فیق عطاء فرما​
 
Top