فصل
مجاہد لوگوں میں سب سے بہترین اوراللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز ہے۔
٭ حضرت عبدا ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کے لوگوں میں سے سب سے بہتر مقام والا شخص کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں میں سب سے بہتر مقام والا شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے رکھے یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے۔ اورکیا میں تم کوہ شخص نہ بتاؤں جو اس کے بعد[کے نمبرپر]ہے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کسی گھاٹی میں مقیم ہو اور نماز قائم رکھتا ہو، زکوۃٰ ادا کرتا ہو اورلوگوں کے شر سے بچتا ہو۔[پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ] کیا میں تم کونہ بتاؤں کہ لوگوں میں سب سے بڑا شخص کون ہے؟ہم نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔یہ وہ شخص ہے جو دوسروں سے تو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر مانگتا ہے۔ لیکن جب خود اس سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کچھ مانگا جاتا ہے تووہ نہیں دیتا۔ [یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑا شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر مانگتا ہے لیکن اسے دیا نہیں جاتا یعنی اس نے اللہ تعالیٰ کا نام بھی استعمال کیا اور کچھ پایا بھی نہیں ](کتاب الجہادلابن مبارک ۔ترمذی۔نسائی۔ابن حبان)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک والے سال لوگوں کو خطبہ دیا اس وقت آپ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [دوران خطبہ]ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ لوگوں میں اچھا شخص کون ہے اور برا شخص کون؟ بلاشبہ لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر یا پیدل جہاد میں مرتے دم تک لگا رہے اورلوگوں میں برا اورفاسق شخص وہ ہے جو قرآن مجید پڑھتا ہے مگر گناہوں میں سے کسی گناہ سے باز نہیں آتا۔ (نسائی۔ بیہقی)
٭ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ مجاہیدین کو تکلیف پہنچانے سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ مجاہد کو تکلیف پہنچانے پراسی طرح غصے ہوتاہے جس طرح رسولوں اورنبیوں کو تکلیف پہنچانے پر اور اللہ تعالیٰ مجاہدین کی دعاؤں کو ایسے قبول فرماتا ہے۔ جس طرح رسولوں اورنبیوں کی دعاؤں کو اور سورج نہ طلوع ہوا ہے اورنہ غروب ہوا ہے کسی ایسے شخص پر جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجاہد سے زیادہ معزز ہو[یعنی روئے زمین پر مجاہد سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی شخص معزز نہیں ہے]۔(شفاء الصدور۔ابن عساکر)
فصل
مجاہد کے سونے اورکھانے پینے کی فضیلت
٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مال دار شخص تھا اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے ذریعے میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقام کو پہنچ سکوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ! تیرے پاس کتنا مال ہے؟اس نے کہا چھ ہزار دینار۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو یہ سارا مال بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کاموں میں خرچ کردے تب بھی تو مجاہد کے جوتے کے تسمے کے غبار تک نہیں پہنچ سکتا۔ (کتاب السنن لسعید بن منصور)
٭ [اسی طرح ]ایک اور شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے ذریعے میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے عمل [کے مقام ] تک پہنچ سکوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! اگر تو رات کو قیام کرے اور دن کو روزے رکھے تب بھی تو مجاہد کی نیند کے مقام کو نہیں پاسکتا۔ (کتاب السنن لسعید بن منصور)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے مگر ابن عساکر نے اسی روایت کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی نقل کیا ہے۔
٭ ایک اورروایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگ جہاد کررہے ہیں جب کہ مجھے کسی چیز [یعنی عذر]نے روک رکھا ہے آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جسے ادا ء کر کے میں بھی ان جہاد کرنے والوں کے مقام کو پالوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!کیا تم رات بھر قیام کی طاقت رکھتے ہو اس نے کہا میں مشقت کے ساتھ یہ کرلوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دن کو روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہو۔ اس نے کہا جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہار ا پوری رات نماز پڑھنا اوردن کو روزہ رکھنا ان [مجاہدین]میں سے ایک کے سونے جیساہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ عن مکحول مرسلا)
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :کیا تم اس بات کی قوت رکھتے ہو کہ پوری زندگی نماز پڑھتے رہو اورنہ تھکو،روزے رکھتے رہو اور ناغہ نہ کرو۔لوگوں نے جواب دیاکہ اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کی طاقت کو ن رکھ سکتا ہے؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مجاہد کا نیند کرنا اس سے بھی افضل ہے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)
یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن قرینے اور اگلی حدیث سے اس کے مرفوع ہونے کی طرف واضح اشارہ ملتاہے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
[غور کیجئے] جب مجاہدین میں سے سونے والوں کا یہ مقام ہے تو ان کے راتوں کو قیام کرنے والے کا مقام کیا ہوگا جب ان کے غافل کا یہ رتبہ ہے توان کے عامل کا رتبہ کیا ہو گا جب ان کے جوتے کے تسمے کی یہ قدروقیمت ہے تو ان کے بڑے اعمال کا اجر کتنا ہوگا بے شک یہ سب اللہ تعالیٰ کا کھلم کھلا فضل ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے محنتی لوگوں کو کمر کس لینی چاہئے اورسست اورعاجز لوگوں کو اس سے محرومی پر رونا چاہئے اور جہاد کے سوا دوسرے کاموں میں اپنی عمر ضائع کرنے والوں کو غمگین ہونا چاہئے۔
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون جہاد کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات کو قیام،دن کو روزے اورخشوع سے رکوع ،سجدے کرنے والے جیسی ہے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)
٭ ابن حبان نے ایک روایت اپنے استاذ عمر بن سعید بن سنان سے نقل کی ہے یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے اسی (۸۰ ) سال تک جہاد اور میدان جہاد کی پہرے داری اس حال میں فرمائی کہ رات کو قیام فرماتے تھے اوردن کو روزے رکھتے تھے۔
٭ یہ روایت اس طرح ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اورروزے دار جیسی ہے جو نماز اورروزے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مجاہد کو اجر یا غنیمت دیکر واپس لوٹا دے یا اسے موت دیکر جنت میں داخل فرمادے۔ (موارد الظمآن)
٭سیعد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک بار سونا ایسے ستر حج کرنے سے افضل ہے جن کے پیچھے ستر عمرے ہوں۔ (شفا الصدور)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں کھانے والاغیر جہاد میں پوری زندگی روزے رکھنے والے جیسا ہے۔ (شفاء الصدور)
فصل
روزے ،نوافل اورذکر میں لگے رہنے والا مجاہد کے مقام کے دسویں حصے کوبھی نہیں پاسکتا
٭حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک عور ت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر جہاد میں چلا گیا ہے میں نماز اوردوسری عبادات میں اس کی پیروی کرتی تھی آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جو میں ان کے آنے تک کرتی رہوں اوراس عمل کے ذریعے میں ان کے مقام کو پالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم ایسی استطاعت رکھتی ہو کہ مستقل نوافل پڑھتی رہو اورروزے رکھتی رہو اور بغیر تھکے [اور وقفہ کئے ] اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی رہو وہ خاتون کہنے لگی۔
اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تومیں طاقت نہیں رکھتی ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہیں اس کی طاقت دے بھی دی جائے تب بھی تم اس کے عمل [ جہاد ] کے دسویں حصے تک نہیں پہنچ سکتیں۔ (مسند احمد)
فصل
مجاہد کے لئے جنت کے سودرجات:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(۱)
[arabic]وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۔[/arabic](النساء ۹۵۔۹۶)
اور اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں یعنی بہت سے درجے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملیں گے اور مغفرت اوررحمت اوراللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں۔
٭ حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا اوراس نے نماز کو قائم رکھا زکوٰۃ ادا ء کی اوررمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر لازم ہے [یعنی اس نے خود اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ] وہ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کی ہو یا وہ اپنے پیدائشی وطن میں ٹھہرارہا ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم لوگوں کو یہ بات بتا نہ دیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لئے سودرجے تیار فرمائے ہیں ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنافاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین میں ۔ اورجب تم نے اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہوتو فردوس مانگا کرو۔ کیونکہ وہ جنت کادرمیانی اوراعلیٰ حصہ ہے اوراسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اوراس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ (بخاری)
٭ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو اللہ تعالیٰ کو رب،اسلام کو سچادین اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے پر راضی رہا تو جنت اس کے لئے واجب ہوگئی،یہ بات ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو بھلی لگی تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ بات دوبارہ ارشاد فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وہی بات دہرائی اورپھر ارشاد فرمایا: ایک اور عمل ایسا ہے جس کے کرنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سو درجے عطا فرماتے ہیں ان میں سے ہر دودرجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین کے درمیان ۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون ساعمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد۔
فصل
اس امت کی رہبانیت اوراس کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے:
وہ ایمان والے جن کی جان ومال کو اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے خرید لیا ہے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
(۱)
[arabic]اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ ۔[/arabic] (التوبہ۔۱۱۲)
توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے،روزہ رکھنے والے۔
٭ حضرت ابو ذرضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی وصیت [ونصیحت]فرمائیے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا، میں تمہیں اللہ سے ڈرنے [یعنی تقوی اختیار کرنے]کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ پورے دین کا سر [یعنی اصل] ہے۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم قر آن مجید کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کو لازم پکڑو بے شک یہ تمہارے لئے زمین میں نور اور آسمانوں میں ذخیرہ بنے گا۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : زیادہ ہنسنے سے پرہیز کروکیونکہ یہ دل کو مردہ اور چہرےکو بے نور کر دیتا ہے ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم جہاد کو لازم پکڑو کیونکہ یہ میری امت کی رہبانیت ہے ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسکینوں سے محبت کرو اور ان کہ ساتھ بیٹھا کرو میں عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتم اپنے سے [مال و صحت میں]نیچے والے کو دیکھو اور اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھو۔ (احمد۔طبرانی۔ابن حبان۔حاکم۔مواردالظمآن)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے کوئی وصیت[ونصیحت]فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تقوی کو مضبوط پکڑو کیونکہ یہ تمام بھلائیو کا مجموعہ ہے اور جہاد کو لازم پکڑو کیونکہ وہ مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر اللہ کی پابندی کرو۔ بے شک وہ تمہارے لئے زمیں میں نور اور آسمان پر تذکرے کا سبب ہے اور اپنی زبان کو خیر کی بات کے علاوہ خاموش رکھو کیونکہ اس کے ذریعے سے تم شیطان پر غالب رہو گے (المعجم الصغیر للطبرانی)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فر ماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نیکی کا بتالانے والا نیکی کرنے والے جیسا ہے اور ہر امت کے لئے ایک رہبانیت ہے اور میری امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔اے میرے پرودگار ۔میری امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت عطاء فرما ۔(ابن عساکر)
جہاد اس امت کی رہبانیت کس طرح سے ہے؟
[اس بارے میں مصنف کئی نفیس اقوال نقل فرماے ہیں ذیل میں ان کا خلاصہ ملا حظہ فرمایئے]
(۱) امام عبدل الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عیسائیو کی رہبانیت یہ تھی کہ وہ دنیا کے تمام مشاغل چھوڑ کر خلوت اختیار کرتے تھے یعنی اپنے نفس کو دینوی مشاغل سے فارغ کرنے کو رہبانیت سمجھتے تھے جبکہ مجاہد تو اپنے نفس کو اللہ کے راستے میں قربان کر دیتا ہے اس طرح سے دینوی مشاغل تو کیا وہ اللہ کی رضا کے لئے شہید ہو کر دنیا تک کو چھوڑ دیتا ہے تو اس سے بڑھ کر رہبانیت کیا ہو سکتی ہے۔
اسی طرح عیسائیوں کے راہب یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی دور دراز کی خانقاہوں میں اس لئے خلوت اختیار کرتے ہیں تاکہ ان سے کسی کو ایذاء نہ پہنچے جبکہ اہل باطل کو ان کے باطل نظریات پر چھوڑ دینا انہیں بڑی ایذاء پہنچانا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے وہ دوزخ کی آگ میں جلیں گے تو اگر رہبانیت کا معنی لوگوں سے ایذاء دور کرنا ہے توپھر جہاد ہی اصل رہبانیت ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے کافروں کو کفر سے ، مسلمانوں کو کافروں کے ظلم سے اور مجاہدین کو آخرت کے عذاب سے نجات ملتی ہے۔
مصنف فرماتے ہیں کہ راہب کو راہب اس لئے کہتے ہیں وہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے ڈرتا ہے [راہب عربی لفظ ہے جس کا معنی ہے ڈرنے والا ] اور ان راہبوں میں سے یہ نیت [کہ میں کسی کو ادنی تکلیف بھی نہ پہنچاوں]بہت تھوڑے سے افراد کی ہوتی ہے اس لئے اپنے نفس سر کش کی حقیت کو سمجھناان میں سے انہیں کاملین کے لئے ممکن ہوتا ہے جو تنہائی اور مجاہدات کی بدولت اپنے باطن کی اصلاح کر لیتے ہیں تب انہیں یہ سوجھتا ہے کہ لوگوں کے درمیان رہنے کی صورت میں ان کے نفس کے شر سے لوگ نہیں بچ سکیں گے چانچہ وہ اپنے آپ کو خانقاہوں اور گرجوں میں اسی طرح قید کر لیتے ہیں جس طرح پاگل کتے کو باندھا جاتا ہے ۔ چونکہ اصل راہب یہی لوگ ہوتے ہیں اس لئے آج ہزارراہبوں میں کوئی ایک آدھ اصلی راہب ملتا ہے۔
[لیکن مجاہد اصل راہب ہے کیونکہ اس کے جہاد کی برکت سے لوگ طرح طرح کے ظلم اور ایذء سے نجات پاتے ہیں اور ہر طرح کے ظالمانہ قوانین سے انہیں چھٹکارا ملتا ہے اور کفر و شرک کی غلاظتوںسے وہ محفوظ رہتے ہیں]۔
(۲)راہب کا استعمال اکثر اس شخص کے لئے ہوتا ہے جو کسی اور سے ڈرتا ہو چنانچہ راہب کو راہب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی عبادت میں خوب محنت کرتا ہے اور مخلوق سے ڈرتا ہے کہ وہ اسے کہیں اللہ سے غافل نہ کر دے اور کہیں مخلوق سے تعلق اللہ کی نارضگی اور اس کے در سے دھتکارے جانے کا سبب نہ بن جائے چنانچہ وہ مخلوق سے الگ تھلگ ہو جاتا ہے اور اس کا یہ کام رہبانیت کہلاتا ہے اس معنی کے اعتبار سے بھی مجاہد اصلی راہب ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کراس کو راضی کرنے کے لئے جان ومال ہتھیلی پر رکھ کر نکلتا ہے ۔ اور اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اللہ کی ذمین پر کافر غالب نہ آجا ئیں۔ چنانچہ وہ ان کے خلاف ڈٹ کر لڑتا ہے اسی لئے اس کے اس کے عمل یعنی جہاد کو حدیث شریف میں رہبانیت قرار دیا گیا ہے ۔
(۳)رہبانیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ کے ڈر سے مخلوق سے سارے تعلقات توڑ کر آدمی پہاڑو ں اور جنگلوں میں نکل جائے اور اپنے نفس کو ہر طرح کی شہوتوں ، لذتوں اور مرغوب چیزوں سے دور رکھے اور اسے طرح طرح کی مشقتوں میں ڈال کر مجاہدے کرائے اس اعتبار سے بھی جہاد اصل رہبانیت ہے کیونکہ اس میں بھی نفس کو طرح طرح کی سخت تکلیفوں میں ڈالا جاتا ہے اور اسے قربان کیا جاتا ہے اپنی جان بغیر کسی ٹال مٹول کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس پکڑ سے بچنے کے لئے کیا جاتا ہے جو رہبانیت کا اصل مقصود ہے ۔اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ رہبانیت میں تو صرف نفس پر ان چیزوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے جو اس پر شاق گزرتی ہیں لیکن جہاد میں تو خود نفس کو بھی قربان کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مال کو بھی قربان کیا جاتا ہے اور ان دونوں کی قربانی بہت ہی مشکل اور شاق عمل ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ راہب اور مجاہد میں کتنا بڑا فرق ہے کہ ایک طرف ایک شخص زندہ رہتے ہوئے کچھ چیزیں چھوڑ دیتا ہے اور کچھ چیزوں سے نفع حاصل کرتا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو فنا کرنے کے لئے سخت محنت کررہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اللہ کے راستے میں فنا ہونے والا ہمیشہ کی زندگی پا لیتا ہے ۔ یااللہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی یہ نصیب فرما۔
٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیاحت ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے جہاد فی سبیل اللہ اور ہر بلند جگہ پرتکبیر کا عمل عطاء فرما دیا ہے ۔یہ حدیث مرسل ہے (کتاب الجہاد لابن مبارک)
٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیاحت کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا میری امت کی سیاحت ہے ۔(ابوداود ۔السنن الکبری۔المستدرک)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیاحت زمین میں گھومنے پھرنے ، عبرت کی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرنے اور ناپسندیدہ لوگوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا نام ہے جبکہ جہاد کو سیاحت اس لئے کہا گیاہے کہ اس میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے دینا سے فرار اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اورمحبت کی طرف چلتا ہے ۔اورچونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی جان کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے اس لئے وہ اپنی جان پر انصاف کی نظر ڈالتا ہے اور اس کے خریدنے والے [یعنی اللہ تعالیٰ ]کو سپرد کرنے کے لئے دینا کو چھوڑنے کاعزم کرتا ہے ۔
ذرا غور کیجئے کتنا بڑا فرق ہے ان دو شخصوں کے درمیان جن میں سے ایک تو اپنے نفس کی تفریح کے لئے گھوم پھر رہا ہے جبکہ دوسرا اس نفس کو قربان کرنے کے لئے محنت کررہا ہے ۔ یقینا یہی شخص حقیقی سیاح ہے اوریہی وہ کامیاب تاجر ہے جو بہت بڑا نفع کماتا ہے۔
[کیو نکہ اپنی حقیر سی جان اللہ تعالیٰ کو دیکر اس کی رضا ،جنت کی لازوال نعمت اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لیتا ہے ]۔
فصل
جہاد فی سبیل اللہ اسلام کی چوٹی کی بلندی ہے
٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
اگر تم چاہو تو میں تمہیں کسی کام کی اصل [یعنی اس کا سر ]اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی نہ بتاوں میں نے عرض کیاضرور ارشاد فرمایئے اے اللہ کے رسول ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پورے کام [یعنی دین ]کا سر [یعنی اصل]اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اسکے کوہان کی بلندی جہاد ہے ۔(المستدرک ۔ مسنداحمد ۔ ترمذی )
٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اسلام کی چوٹی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس بلندی کو وہی پائے گا جو ان میں سب سے افضل ہوگا۔ (الطرانی)
مصنف فرماتے ہیں کہ اسلام کو دین کا سر قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ اسلام کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا جس طرح کہ کوئی جسم بغیر سر کے زندہ نہیں رہتا ۔ نماز کو دین کے خیمے کے ستون سے تشبیہ دی گی ہے ۔ کیونکہ جس طرح پورے خیمے میں پہلے ستون گاڑا جاتا ہے اسی طرح قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں حساب لیا جاے گا۔اسی طرح اگر ستون قائم رہے تو خیمہ قائم رہتا ہے ورنہ گرجاتا ہے یہی حال نماز کا ہے اگر نماز کو قائم رکھا جائے تو دین قائم رہتا ہے ورنہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔اسی طرح خیمہ سردی گرمی سے اسی وقت بچاتا ہے جب اس کا ستون قائم ہو یہی حال نماز کا بھی ہے کہ کسی کے اسلام کے سچا ہونے اور اسلام کی وجہ سے خون کے محفوظ ہونے کی نشانی نمازہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادکو اونٹ کے کوہان کی بلندی سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اونٹ میں کوہان ہی اعضاء میں سب سے اونچا ہوتا ہے یہی حا ل جہاد کابھی ہے کہ اسلام کے اعمال میں سے کوئی عمل بھی جہاد کے برابر نہیں ہے ۔بلکہ جہاد سب سے بلند اور افضل عمل ہے [جیسا کہ مضبوط دلائل سے بیان کیا جا چکا ہے ]یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جہاد کے برابر کون سا عمل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا جو جہاد کے برابر ہے۔(انتہی)
اسی طرح یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو اونٹ کی کوہان سے اس لئے تشبیہ دی ہو کہ جو شخص کوہان پر چڑھ جائے تو پورا اونٹ اور اس کے تمام اعضاء اس کے نیچے آ جاتے ہیں ۔ اسی طرح جو شخص جہاد کرتا ہے وہ بھی اسلام کے تمام اعمال کی فضیلت کو پا لیتا ہے کیونکہ مجاہد کانیند کرنا ،سفر کرنا، مال خرچ کرنا ، تھکنا ، خوف محسوس کرنا ، پیاسا ہونا، بھوکا ہونا سب اجر ہی اجر ہے بلکہ اس کی ایک ایک حرکت اجر وثواب کا باعث ہے ۔ (واللہ اعلم)
فصل
مجاہد کے لئے اللہ تعالیٰ کی ضمانت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :۔
(۱)
[arabic]وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ( عنکبوت۔ [/arabic]۶۹ )
اور جو لوگ ہمارے لئے مشقتیں اٹھاتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے اور اللہ تعالیٰ تو نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کا آپس میں اختلاف ہو چکا ہے تو تم مجاہدین کے ساتھ محاذوں پر چلے جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ (لنھد ینھم) کہ ہم انہیں ضرور ہدایت دیں گے ۔
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجاہدکے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ اسے یا تو جنت میں داخل فرمائے گا یااسے اجر یا غنیمت دیکر واپس اس کے گھر لوٹائے گا بشرطیکہ وہ مجاہد اپنے گھر سے [خالص] اللہ کے راستے میں جہاد کرنے اور اسکے وعدوں کی تصدیق کے لئے نکلا ہو۔ (بخاری۔مسلم)
٭ حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اور اس کے وعدوں کو سچا جانتے ہوئے اور اسکے رسولوں پر ایمان لاتے ہوئے جہاد کے لئے نکلا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ضمانت دے دی ہے کہ یا تو اسے جنت میں داخل کرے گا اگر وہ کسی بھی طرح مر گیا یا پھر اسے اپنی ضمانت میں چلاتا رہے گا خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے یہاں تک کہ اسے غنیمت یا اجر کے ساتھ صحیح سالم اس کے گھر لوٹا دے گا۔ (ابن عساکر)
اسطرح کی احادیث میں اجر یا غنیمت کے لفظ سے یہ وہم نہیں ہونا چاہئے کہ جس آدمی کو مال غنیمت مل گیا اسے اجر نہیں ملے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یا تو خالص اجر کے ساتھ مجاہد کو واپس لوٹائے گا یا کچھ اجر اور کچھ غنیمت دیکر لوٹائے گا۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جسے مال غنیمت مل جاتا ہے وہ اپنے اجر کا دو تہائی حصہ دنیا میں لے لیتا ہے ۔
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین آدمیوں کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لازم فرما لی ہے پہلا وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلا ہو ۔دوسرا مکاتب [غلام ]جو مال ادا ء کر کے آزادی چاہتا ہو ۔تیسرا وہ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی چاہتا ہو۔(مصنف عبدالرزاق ۔ترمذی ابن حبان)
اس حدیث شریف میں مجاہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کا تذکرہ ہے ۔ یہ مدد ہر وقت رہتی ہے مجاہد زندہ ہو یا شہید ہو چکا ہو ۔ذیل میں اسی سلسے کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمایئے ۔ [یہ واقعہ بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ ہے جبکہ یہاں مصنف نے اسے مختصر طور پر نقل کیا ہے ]۔
مجاہد کے مال میں برکت کا عجیب وغریب واقعہ
٭حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب [میرے والد]حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل کے دن [میدان میں] کھڑے ہو گے تو انہوں نے مجھے بلایا تو میں ان کے پہلومیں کھڑا ہو گیا انہوں نے فرمایا اے میرے پیارے بیٹے آج [کی لڑائی ]کے دن یا تو ظالم قتل ہوگا یا مظلوم اور میرا خیال ہے کہ میں آج مظلوم قتل کیا جاوں گا اور مجھے زیادہ فکر اپنے قرضے کی ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ قرضہ ہمارے مال میں سے کچھ باقی چھوڑے گا ؟ اے بیٹے ہمارا مال بیچ کر میرا قرضہ اداء کر نا پھر اگرقرضہ اداء کرنے کے بعد مال میں سے کچھ بچ رہے تو اسکا تیسرا حصہ تمہار ے بیٹوں کے لئے ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد مجھے قرضے کی ادائیگی کی تاکید کر تے رہے اور فرمایا کہ اے بیٹے اگر تم قرضے کی ادائیگی میں کہیں عاجز آجاو[اور مشکل میں پڑ جاو] تو میرے مولا سے مدد طلب کرنا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نہیں جانتا تھا کہ مولا سے ان کی مراد کیا ہے [کیو نکہ عربی زبان میں کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے ]۔ یہاں تک کہ میں نے پوچھا اے ابا جان آپ کا مولا کون ہے ؟فرمایا اللہ تعالیٰ میرا مولا ہے ۔ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کی قسم ان کے قرضے کے بارے میں جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی تو میں پکار اٹھا کہ اے زبیر رضی اللہ عنہ کے مولازبیر رضی اللہ عنہ کا قرضہ اداء فرما دے تو اللہ تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا فرمادیتے۔پس حضرت زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگے انہوں نے نہ کوئی درہم چھوڑ ا نہ دینار۔ البتہ دو زمینیں چھوڑیں جن میں سے ایک غابہ کی زمین تھی اور گیارہ مکان مدینہ میں دو بصرہ میں ایک مکان کوفہ میں اور ایک مصر میں تھا۔
حضرت عبداللہ رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ قرضہ [کسی فضول خرچی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ]اس لئے تھا کہ جب کوئی آدمی ان کے پاس کوئی مال امانت رکھتا تھا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرمادیتے یہ امانت نہیں ہے بلکہ میرے ذمہ قرضہ ہے تاکہ ضائع ہونے کی صورت میں تمہیں اس کا ضمان اداء کر سکوں ۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کبھی حکومت کا کوئی عہدہ قبول کیا اور نہ کبھی خراجی زمین گروی رکھی اور نہ ہی کوئی اور ذریعہ آمدنی تھا مگر یہ کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیتے رہے [بس اسی کا مال غنیمت ان کے پاس تھا ] حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے قرضے کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ روپے بنتا تھا [اسی دوران]حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے حضرت حکیم بن حزام ملے اور فرمانے لگے اے بھتیجے ! میرے بھائی پر کتنا قرضہ ہے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قرضے کی صحیح رقم ان سے چھپا لی [کیو نکہ کچھ قرضہ اداء ہو چکا تھا ] میں نے کہا ایک لاکھ روپے قرضہ ہے ۔ حضرت حکیم بن حزام نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میرے خیال میں تو تمہاری ساری جائیدادبھی اتنے قرضہ کی ادائیگی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس پر حضرت عبداللہ نے کہا اگر وہ قرضہ بائیس لاکھ روپے ہو تو پھر کیا خیال ہے انہوں نے فرمایا میرے خیال میں تم لوگ اسکی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی زمین ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی ۔حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے سولہ لاکھ میں بیچ دیا اور اعلان فرمادیا کہ جس شخص کاحضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر قرضہ ہو وہ غابہ کی زمین پر آکر ہم سے وصول کرے۔
[اسی طرح سارا قرضہ اداء ہوتا گیا ]جب حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ قرضے کی ادائیگی سے فارغ ہو گئے تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹوں نے کہا کہ ہماری میراث ہمارے درمیان تقسیم کر دیجئے۔حضرت عبداللہ ا بن زبیر رضی اللہ عنہ کہا کہ اللہ کی قسم میں اس وقت تک میراث تقسیم نہیں کروں گا جب تک حج کے موقعہ پر چار سال تک اعلان نہ کر دوں کہ جس کا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر قرضہ ہو آ کر ہم سے وصول کر لے چنانچہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہر سال حج کے موقعہ پر اعلان کرتے رہے ۔ چار سال گزرنے کے بعد آپ نے میراث تقسیم کر دی ۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں قرضے سے باقی بچے ہوئے مال کا ایک تہائی وصیت پوری کرنے کے لئے نکال لیا گیا۔ [پھر باقی مال کا آٹھواں حصہ چار بیویوں کو دیا گیا تو ]ان کی ہر بیوی کو بارہ لاکھ روپے ملے ۔[یعنی ] ان کا کل متروکہ مال پانچ کروڑ دو لاکھ روپے تھا۔ واللہ اعلم۔ (بخاری مختصراً)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے حج یا عمرہ کیا پھر اسی سال مر گیا تو جنت میں داخل ہوگا اور جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اسی سال مر گیا تو جنت میں داخل ہوگا اور جس نے جہاد کیا پھر اسی سال مر گیا تو جنت میں داخل ہو گا۔(ابن عساکر)