جہاد اورمجاہدین فی سبیل اللہ کے فضائل کے بیان میں


دوسرا باب
جہاد اورمجاہدین فی سبیل اللہ کے فضائل کے بیان میں

اس باب میں کئی فصلیں ہیں [ابتداء میں اس باب کی مناسبت سے کچھ قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیے]
اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۱) [ARABIC]لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۔[/ARABIC] (النساء۔۹۵۔۹۶)

جو مسلمان (گھروں میں ) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اورجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ مال اورجان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہیں اور رحمت میں اور اللہ تعالیٰ بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۲) [ARABIC]وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ۔[/ARABIC] (النساء۔ ۷۴)
اورجو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہوجائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۳) [ARABIC]الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ [/ARABIC]۔ (التوبہ ۔ ۲۰۔۲۱۔۲۲)
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑگئے اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں ان کا پروردگا ران کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے نعمت ہائے جاویدانی ہیں (اور وہ )ان میں ابد الآباد رہیں گے ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا صلہ(تیار)ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
(۴) [ARABIC] إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [/ARABIC]۔ (التوبہ۔ ۱۱۱)
بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اوران کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اورقتل کئے جاتے ہیں(یہ )اللہتعالیٰ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اورقرآن میں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے (خرید وفروخت) پر جو تم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۵) [ARABIC] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ [/ARABIC]۔ (محمد۔۷)
اے اہل ایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مددکرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(۶) [ARABIC]إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ [/ARABIC]۔ الحجرات۔۱۵)
ایمان والے تو وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اسکے رسول پر ]ھر وہ شبہے میں نہیں پڑے اور وہ لڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال اوراپنی جان سے یہی لوگ سچے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(۷) [ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ [/ARABIC]۔(الصّف۔۱۰۔۱۴)
اے ایمان والو! میں تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کوایک درد ناک عذاب سے بچالے ۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر اوراس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (جب ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اورتم کو جنت کے ایسے باغات میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اورعمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے کے باغو ں میں (بنے )ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اورایک اورچیز (تمہیں دے گا) جس کو تم پسند کرتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی اورآپ ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے۔ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے (دین کے ) مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام ) نے اپنے حواریوں سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہومیرا (تم میں سے ) کون مدد گار ہے! وہ حواری بولے ہم اللہ تعالیٰ (کے دین )کے مددگار ہیں بنی اسرئیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگ منکر رہے پس ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں قوت دی پس وہ غالب ہوگئے۔

اس بارے میں آیات بہت زیادہ ہیں اورجہاد کے فضائل بے شمار ہیں اب میں [مصنفؒ]مختلف فصلوں میں جس قدر آسان ہو اان فضائل کو بیان کرتاہوں۔

فصل
ایمان،فرض نماز اورماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے بعد جہاد سب سے
افضل ہے:
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون ساہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ۔ میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا [عمل افضل ہے ] ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ (بخاری۔مسلم)

٭ اسی طرح حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ کی روایت میں بھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور آپ نے اس میں جہاد کا تذکرہ فرمایا اورفرض نماز کے علاوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں دیا۔ (ابوداؤد)

٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے فرض نماز کے بعد جہاد فی سبیل اللہ میں چہرہ تھکانے اورپاؤں خاک آلود کرنے جیسا کوئی عمل نہیں ہے جس سے جنت کے درجات کو حاصل کیا جاسکے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ نماز کے بعد جہاد ہی کو سب سے افضل عمل سمجھتے تھے۔ (السنن الکبریٰ)

فصل
جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے بعد سب سے افضل ترین عمل ہے

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ سوال کیا گیا کہ اسکے بعد کونسا عمل [سب سے افضل ہے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا پھر پوچھا گیا کہ اسکے بعد کون سا عمل [سب سے افضل ہے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حج مبرور۔ (بخاری ۔مسلم)
فائدہ: اس حدیث شریف میں جہاد کو دیگر تمام اعمال [مثلا ً فرض نماز اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک وغیرہ ] سے بھی افضل قراردیا گیا ہے۔ یہ دراصل اس وقت ہے جب جہاد فرض عین ہوجائے جبکہ جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں حدیث شریف کا معنیٰ یہ ہوگا کہ اس شخص کے لئے جہاد سب سے افضل عمل ہے جس کے والدین نہ ہوں یا انہوں نے اسے جہاد میں جانے کی اجازت دے دی ہو۔

٭ حضرت ماعزرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ وحدہ پر ایمان لانا پھر جہاد کرنا پھر حج مبرور،مشرق ومغرب کے درمیان کے تمام اعمال سے افضل ہے۔ (مسند احمد)
یعنی ایمان اورجہاد کے علاوہ باقی تمام اعمال سے حج افضل ہے۔
٭ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اوراس کے راستے میں جہاد کرنا ۔ میں نے پھر پوچھا کون ساغلام آزاد کرنا افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے مالک کو پسند ہو اور اس کی قیمت زیادہ ہو۔ (بخاری ۔ مسلم)

٭ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک جہاد فی سبیل اللہ اوراللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اعمال میں سے سب سے افضل عمل ہے۔ [یہ سن کر ] ایک شخص کھڑے ہوئے اورانہوں نے عرض کی اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ بتائیے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے [جہاد] میں مارا گیا تو کیا میرے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں [تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں گے] ۔ (مسلم)

فصل
ایمان، جہاد اور حج تمام اعمال سے افضل ہیں

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایسا ایمان جس میں شک نہ ہو ایسا جہاد جس میں مال غنیمت کی چوری نہ ہواورحج مبرور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعمال میں سب سے افضل عمل ہیں۔ (موارد الظمآن)

٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص حاضر خدمت ہوئے اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعمال میں سے سب سے افضل عمل کون ساہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اس کے راستے میں جہاد کرنا اورحج مبرور، جب وہ شخص واپس لوٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے زیادہ آسان اعمال یہ ہیں کہ کھانا کھلانا، نرم گفتگو کرنا، نرم برتاؤ کرنا، اور اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ پھر جب وہ شخص واپس لوٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے بھی زیادہ آسان بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جس چیز کا فیصلہ فرمادے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرو[بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر تقدیر پر خوش رہو]۔ (مسند احمد)

فصل
جہاد اذان دینے سے افضل ہے
حضرت سعد سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اذان دیتے تھے پھر آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بھی اذان دی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے بلال کیا وجہ ہے کہ آپ نے اب اذان چھوڑدی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک اذان دی پھر میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وصال تک اذان دی کیونکہ انہوں نے مجھے آزاد کرایا تھا اورمیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے اعمال میں جہاد سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ (ابو یعلی۔ ابن ابی شیبہ)
ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے ہی میں اذان ترک فرمادی اورجہاد کے لئے روانہ ہوگئے اورانہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو بطور دلیل کے پیش فرمایا۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان ترک فرما کر مدینہ منورہ سے ملک شام جہاد کے لئے تشریف لے گئے اوروہیں آپ کا ۲۶ ہجری میں انتقال ہوا دمشق میں باب کیسان نامی جگہ پر مدفون ہوئے یہ واقدی کی روایت ہے جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی آخری آرام گاہ حلب میں ہے۔ واللہ اعلم۔



فصل
حجاج کو پانی پلانے اورمسجد حرام کو آباد رکھنے سے بھی جہاد افضل ہے
٭ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ ایک شخص کہنے لگے میں تو اسلام لانے کے بعد سب اعمال کی بنسبت حجاج کرام کو پانی پلانازیادہ بہتر سمجھتا ہوں ایک دوسرے صاحب کہنے لگے میں تو اسلام کے بعد دوسرے اعمال کی بنسبت مسجد حرام کو آباد رکھنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ ایک اور صاحب نے کہا تم دونوں کی بات درست نہیں ہے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ان سب اعمال سے زیادہ افضل ہے جن کا تذکرہ تم نے کیا ہے [یہ گفتگو جاری تھی کہ ] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان حضرات کو تنبیہہ فرمائی کہ آج جمعہ کادن ہے آپ لو گ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آوازوں کو بلند نہ کریں البتہ جمعہ کی نماز کے بعد میں تمہارے اس مسئلے کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کروں گا اس پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
(۱)[ARABIC]
أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[/ARABIC]
۔ (التوبہ۔ ۱۹)

کیا تم نے حجاج کے پانی پلانے کو اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص (کے عمل) کے برابر قرار دے دیا جو اللہ تعالیٰ پراور آخرت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا ہو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ راستہ نہیں دیتے ظالموں کو۔
 

فصل
جہاد تمام اعمال سے افضل ہے
٭حضرت حنظلہ الکاتب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے اعمال میں سے سب سے بہتر عمل جہاد ہے۔ (ابن عساکر)

٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ [حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد] حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورفرمانے لگے اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مومن کے اعمال میں سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے چنانچہ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں اب مرتے دم تک جہاد میں لگا رہوں گا یہ سن کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بلال میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ تم میری حرمت اورحق کا خیال رکھو میں اب بوڑھا اورکمزور ہوچکا ہوں اورمیری موت کا وقت قریب ہے [یعنی مجھے اس وقت آپ جیسے رفقاء کی ضرورت ہے ] یہ سن کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں قیام کرنا قبول فرمالیا پھر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت بلال سے وہی گفتگو فرمائی جو حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے انکار فرمادیا اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے بلال پھر میں کسے آپ کی جگہ مقرر کروں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت سعد کو۔ کیونکہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد قبا کے مؤذن رہ چکے ہیں چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اذان کا کام حضرت سعد اوران کی اولاد کے سپرد فرمادیا۔ (طبرانی)

٭ حضرت عمر وبن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول اسلام کیا ہے؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام یہ ہے کہ تیرا دل اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جائے اورمسلمان تیری زبان اورتیرے ہاتھ سے محفوظ ہوجائیں انہوں نے دریافت کیا کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان لانا [یعنی یقین رکھنا] انہوں نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اس کے ملائکہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر یقین رکھو انہوں نے پوچھا کہ کون سا ایمان افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہجرت ۔ انہوں نے پوچھا کہ ہجرت کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہجرت یہ ہے کہ تم برائیوں کو چھوڑ دو انہوں نے پوچھا کہ کونسی ہجرت افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاد۔ انہوں نے پوچھا کہ جہاد کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہادیہ ہے کہ جب تمہارا کفار سے سامنا ہوتو تم ان سے لڑو انہوں نے پوچھا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ تمہارے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اورتمہار اخون بہا دیا جائے۔ [یعنی تم بھی شہید ہوجاؤ اورتمہاری سواری بھی کام آجائے۔ ( مسند احمد)

٭ ایسی ہی ایک اورروایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں کہ جہاد کیا ہے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑو اورنہ ہی بزدلی دکھاؤ اورنہ مال غنیمت میں چوری کرو۔ (بیہقی۔ فی شعب الایمان)

ان احادیث پر غور کیجئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو کس طرح سے اسلام کے نچوڑ کے نچوڑ کا نچوڑ بتایا اور پھر جہاد کا نچوڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کو قرار دیا اوراسے جہاد کی بہترین قسم قرار دیا۔

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشادفرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم [عورتیں] جہاد کو تمام اعمال سے افضل سمجھتی ہیں تو کیا ہم جہاد میں نہ نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے افضل ترین جہاد حج مبرور ہے۔ (بخاری)

٭ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو قرآن مجید میں جہاد سے زیادہ افضل عمل اورکوئی نہیں پاتی تو ہم آپ کے ساتھ نکل کر جہاد نہ کیاکریں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تمہارے لئے افضل ترین جہاد حج مبرور ہے۔ (ابن عساکر)

٭ حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بوڑھوں،کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج اورعمرہ ہے۔ (نسائی)

٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل فرماتی ہیں کہ حج ہر کمزورکا جہادہے۔ (ابن ماجہ)

[ان چند روایات سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین اسلام عموماً اورازواج مطہرات امہات المومنین خصوصاً یہ سمجھتی تھیں کہ جہاد تمام اعمال سے زیادہ افضل ہے چنانچہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں نکلنے کی اجازت بھی مانگتی تھی۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ تمہارے لئے حج افضل ترین جہاد ہے مگر خاص مواقع پر خاص کاموں کے لئے خواتین کو جہاد میں شریک کیا گیا جس کے واقعات آگے آئیں گے اللہ تعالیٰ کرے اس زمانے کی مسلمان خواتین بھی اپنے اند رایساہی جذبہ جہاد پیدا کریں اوراپنے خاوندوں ،بھائیوں اوربیٹیوں کو ترغیب دیکر میدان میں نکالیں اوراجر عظیم کی مستحق بنیں]۔

٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں نے امیر المومنین عبدالملک بن مروان سے اس وقت حاضری کی اجازت مانگی جب وہ سخت بیمار تھے جب یہ لوگ حاضر ہوئے تو امیر المومنین نے کہا تم لوگ میرے پاس اس وقت آئے ہوجب میں دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جارہا ہوں میں نے اپنے اعمال پر غور کیا تو مجھے[بخشش کے لئے] سب سے زیادہ امید والا اپنا عمل وہ جنگ نظر آتی ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑی اس وقت جب میرے پا س یہ چیزیں [حکومت وغیرہ] نہیں تھیں[ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ]تم لوگ ہم حکمرانوں کے دروازوں کے چکر کاٹنے سے خود کو بچاؤ۔ (ابن عساکر)
مصنف فرماتے ہیں کہ عبدالملک بن مرون رحمہ اللہ علما ء تابعین میں سے تھے جب ان کی عمر سولہ سال تھی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ منورہ کا گورنر بنایا تھا اس وقت انہوں نے ایک سمندری جہاد کی قیادت کی تھی۔
محمد بن فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ آپ نے [مرنے کے بعد] کس عمل کو سب سے زیادہ افضل پایا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہی عمل جس میں مصروف رہا۔ میں نے پوچھا کیا جہاد اوررباط کو۔؟ فرمانے لگے ہاں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا۔ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ نے مجھے بخشش عطاء فرمائی۔
فضل بن زیادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک بار امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل کے سامنے جہاد کا تذکرہ آیا تو آپ روتے ہوئے فرماتے تھے کہ نیکیوں میں جہاد سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ کسی اور نے امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں آپ نے فرمایا دشمن کے ساتھ لڑنے کے برابر کوئی عمل نہیں ہے جہاد میں نکلنا ہی سب سے افضل عمل ہے وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑتے ہیں وہی اسلام اور اس کی عزت کے محافظ ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے زیادہ افضل عمل کس کا ہوسکتا ہے جو دوسروں کے امن کی خاطر خود خوف کا سامنا کرتے ہیں اوراپنی زندگی کی رونقوں [اورلذتوں] کو قربان کرتے ہیں۔ (المغنی لابن قدامہ)

فصل
جہاد اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب اعمال سے زیادہ محبوب ہے
٭ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابی بیٹھے ہوئے تھے تو ہم آپس میں کہنے لگے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے تو ہم اسی میں لگ جائیں اس پر قرآن مجید کی آیات آخر سورہ تک نازل ہوئیں۔
(۱) [ARABIC]سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ [/ARABIC]۔ (الصّف۔۱۔۲۔۳۔۴)

سب چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی پاکی بیان کرتی ہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اوروہی ز بردست حکمت والا ہے۔ اے ایمان والوں ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ناراضگی کی چیز ہے کہ ایسی بات کہوجو کرو نہیں، اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات ہمیں پڑھ کر سنائیں ۔ (ترمذی۔بیہقی۔حاکم)

٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں بات کی کہ اگر ہمیں سب سے افضل اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل معلوم ہوجاتا (تو ہم اس میں لگ جاتے ) اس پر قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
(۲) [ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۔[/ARABIC] (الصّف۔ ۱۰۔۱۱)

اے ایمان والو! کیا میں تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچالے۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر او راس کے رسول پر ایمان لاؤ اوراللہ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔
[یعنی ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جہاد سب سے افضل عمل اوربہترین تجارت ہے مگر جہاد کا یہ حکم]بعض لوگوں پر گراں گزرا تو اسی سورۃ کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔
(۳) [ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ٌ۔ [/ARABIC](الصّف۔ ۲۔۳۔۴)
اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جوکرتے نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ناراضگی کی چیز ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جواس کے راستے میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
[یعنی یہ بات سمجھادی گئی کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس محبوب عمل کی تلاش میں تھے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہی ہیا ]۔
فصل
مجاہد لوگوں میں سب سے افضل انسان ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔
(۱) [ARABIC]وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۔[/ARABIC] (النساء۔ ۹۵۔۹۶)
اور اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں ۔ یعنی بہت سے درجے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے (انہیں ) ملیں گے اور مغفرت اور رحمت اوراللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں۔
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے [اے اللہ تعالیٰ کے رسول ] لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ مؤمن جو اپنی جان ومال سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہو، انہوں نے پوچھا [ان کے بعد] پھر کون سب سے افضل ہے۔ آپ صلی اللہعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ آدمی جو کسی گھاٹی میں الگ تھلگ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شرسے بچائے۔ (بخاری ۔مسلم)
اس حدیث شریف سے بھی معلوم ہوگیا کہ جہاد خلوت اورانتہائی میں عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے۔
(۲) [ARABIC]لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [/ARABIC](نساء ۔ ۹۵)

برابر نہیں وہ مسلمان جو بلا عذر کے گھر میں بیٹھے رہیں اور وہ مسلمان جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں اورمالوں سے جہاد کریں۔
اس بارے میں مزید تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔
٭حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام کی چوٹی کی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے یہ بلندی وہی شخص پائے گا جو مسلمانوں میں سب سے افضل ہوگا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)

فصل
جہاد خلوت اختیار کرنے اورعبادت میں لگے رہنے سے افضل ہے

پیچھے بخاری شریف کے حوالے سے حدیث شریف گزرچکی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہد کو سب سے افضل قرار دیا اور عبادت کے لئے خلوت اختیار کرنے والے کا تذکرہ اس کے بعد فرمایا۔
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکیا میں تمہیں لوگوں میں سب سے بہتر مقام والا شخص نہ بتاؤں ؟ یہ وہ شخص ہے جواللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگا م پکڑے ہوئے ہو۔ کیا میں تمہیں اس کے بعد بہترین شخص نہ بتاؤں؟ یہ وہ شخص جو اپنی بکریاں لے کر لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہو نماز قائم رکھتا ہو زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور بغیر شر ک کئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاہو۔ (مسلم)
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ ایک ایسی گھاٹی پر سے گزرے جس میں میٹھے پانی کا یک چشمہ تھا وہ فرمانے لگے کہ اگر میں لوگوں سے کنارہ کش ہو کر اس گھاٹی میں مقیم ہو جاؤں [تو کتنا اچھا رہے گا] پھر فرمانے لگے کہ میں ہرگز یہ کام نہیں کروں گا۔ جب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لو ں چنانچہ انہوں نے اس بات کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اس لئے کہ تم میں سے ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کے راستے [جہاد] میں کھڑا ہونا اپنے گھر میں ستر سال نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمادے اورتمہیں جنت میں داخل فرمادے؟اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہا د کرو جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں اتنی دیر قتال کرے جتنی دیر میں اونٹنی کے تھنوں میں دوبارہ دودھ آجاتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ (ترمذی)

فائدہ : اس حدیث شریف میں فواق ناقتہ کے الفاظ آئے ہیں۔ فواق کے معنی یہ ہیں کہ اونٹنی کا تھوڑا سا دودھ نکال کر کچھ وقفہ کیا جاتا ہے اور اس کے بچے کو اسپر چھوڑا جاتا ہے تاکہ دودھ تھنوں میں آجائے یہ بہت معمولی ساوقفہ ہوتاہے۔ [پس جو شخص اتنی دیر بھی کافر سے لڑے گا حدیث شریف کی بشارت کے مطابق اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی] بعض علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ فواق سے مراد وہ وقفہ ہے جو دودھ نکالتے وقت ہاتھ کے کھولنے اورد بانے کے درمیان ہوتاہے ۔ بہر حال اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ جہاد میں نکلنا اورجہاد میں لگے رہنا عبادت کے لئے خلوت اختیار کرنے سے بہتر ہے۔ غور کرنے اور سوچنے کا مقام ہے کہ ایک صحابی جو حقیقت میں اپنی خلوت اور عبادت کا حق اداء کرسکتے تھے اور ان کی روزی بھی باکل حلال تھی جب انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد چھوڑ کر عبادت کے لئے خلوت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی تو ہم جیسے لوگوں کے لئے جہاد چھوڑنا کس طرح سے جائز ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ہمارے اعمال بھی کمزور اورناقابل اعتبار ہیں اورہمارے گناہ بے شمار ہیں اور ہمارے اعضاء نافرمان اورنفس ہم پر غالب ہے۔ ہماری روزی مشکوک اورہماری نیتیں اخلاص سے عاری ہیں۔
یاد رکھئے وہ شخص خوش نصیب ہے جسے اللہ تعالیٰ جہاد کی توفیق عطاء فرمائے اور جہاد کو اس کے لئے آسان فرمادے اوروہ شخص بدنصیب ہے جو دنیا کی محبت اورموت کے ڈر سے جہاد چھوڑ کر گھاٹے اورنقصان میں پڑ جائے۔

٭ حضرت عسعس بن سلامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے کہ آپ نے اپنے رفقاء میں سے ایک شخص کو نہ پایا[جب انہیں ڈھونڈکر لایا گیاتو] وہ کہنے لگے کہ میں ارادہ کیا ہے کہ کسی پہاڑی پر خلوت اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم ایسا نہ کرواورنہ کوئی اور تم میں سے ایسا کرے۔ اسلام کے معرکوں میں سے کسی معرکے میں تمہار ا ایک گھڑی ڈٹ کر لڑنا تنہائی میں چالیس سال کی عبادت سے افضل ہے۔ (بیہقی)
محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ ۱۷۷ھ میں حضرت عبدا ﷲ بن مبارک رحمہ اللہ نے مجھے طرسوس [کے محاذ پر] کچھ اشعار لکھوائے اورمجھے حکم دیا کہ میں یہ اشعار مکہ پہنچ کر حضر ت فضیل بن غیاض رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کروں۔ وہ اشعار یہ ہیں۔
یا عابد الحرمین لو ابصرتنا
اے حرمین شریفین کے عابد اگر آپ ہم مجاہدین کو دیکھ لیں
لعلمت انک فی العبادۃ تلعب
تو آپ جا ن لیں گے کہ آپ تو عبادت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
من کان یخضب خدہ بدموعہ
اگر آپ کے آنسو آپ کے رخساروں کو تر کرتے ہیں
فنحورنا بدمائنا تتخضب
تو ہماری گردنیں ہمارے خون سے رنگین ہوتی ہیں
او کان یتعب خیلہ فی باطل
اور لوگوں کے گھوڑے فضول کاموں میں تھکتے ہیں
فخیولنا یوم الصبیحۃ تتعب
مگر ہمارے گھوڑے تو حملے کے دن تھکتے ہیں

ریح العبیر لکم ونحن عبیرنا
عنبر وزعفران کی خوشبو آپ کو مبارک ہو جبکہ ہماری خوشبو تو
رھج السنابک والغبار الاطیب
گھوڑے کے کھروں سے اڑنے والی مٹی اوراللہ تعالیٰ کے راستے کاپاک غبار ہے
ولقد اتانا من مقال نبینا
ہم آپکو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان سناتے ہیں
قول صحیح صادق لایکذب
ایسا فرمان جو بلاشبہ درست اور سچا ہے
لا یستوی وغبار خیل اللہ فی
جمع نہیں ہوسکتی اللہ کے راستے کی مٹی
انف امری ودخان نارتلھب
اور دوزخ کی بھڑکتی آگ کسی شخص کی ناک میں
ھذا کتاب اللہ ینطق بنینا
یہ اللہ کی کتاب ہمارے درمیان اعلان فرمارہی ہے کہ
لیس الشھید بمیت لایکذب
شہید مردہ نہیں ہوتا یہ فرمان بلاشہ سچا ہے
محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ خط حضرت فضیل کو پہنچا دیا انہوں نے جب پڑھا تو رونے لگے اورفرمایا ابو عبدالرحمٰن [عبد اللہ بن مبارک ] نے بالکل سچ بات فرمائی اورمجھے نصیحت کی۔
اس بارے میں کچھ احادیث انشاء اللہ اگلی فصل میں بھی آئیں گی۔
[حضرت عبداللہ بن مبارک نے ان اشعار میں مجاہد کی فضیلت کو قرآن وسنت کے دلائل سے بیان فرمایا کہ مجاہد کی زندگی اورمجاہد کی موت دونوں ایک عابد کی زندگی اور موت سے افضل ہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض جو بہت بڑے محدث اورعابد وزاہد تھے اور دن رات کعبۃ اللہ اورمسجد نبوی میں عبادت کرتے تھے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مبارک کے دلائل اورموقف کو تسلیم فرمایا اورغصے میں آنے کی بجائے ان کا شکریہ ادا کیا اور خط لانے والے کو بطور انعام ایک ایسی حدیث لکھوائی جس میں مجاہد کی فضیلت کا بیان ہے]۔
 
فصل
مجاہد لوگوں میں سب سے بہترین اوراللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز ہے۔
٭ حضرت عبدا ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کے لوگوں میں سے سب سے بہتر مقام والا شخص کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں میں سب سے بہتر مقام والا شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے رکھے یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے۔ اورکیا میں تم کوہ شخص نہ بتاؤں جو اس کے بعد[کے نمبرپر]ہے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کسی گھاٹی میں مقیم ہو اور نماز قائم رکھتا ہو، زکوۃٰ ادا کرتا ہو اورلوگوں کے شر سے بچتا ہو۔[پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ] کیا میں تم کونہ بتاؤں کہ لوگوں میں سب سے بڑا شخص کون ہے؟ہم نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔یہ وہ شخص ہے جو دوسروں سے تو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر مانگتا ہے۔ لیکن جب خود اس سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کچھ مانگا جاتا ہے تووہ نہیں دیتا۔ [یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑا شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر مانگتا ہے لیکن اسے دیا نہیں جاتا یعنی اس نے اللہ تعالیٰ کا نام بھی استعمال کیا اور کچھ پایا بھی نہیں ](کتاب الجہادلابن مبارک ۔ترمذی۔نسائی۔ابن حبان)

٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک والے سال لوگوں کو خطبہ دیا اس وقت آپ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [دوران خطبہ]ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ لوگوں میں اچھا شخص کون ہے اور برا شخص کون؟ بلاشبہ لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر یا پیدل جہاد میں مرتے دم تک لگا رہے اورلوگوں میں برا اورفاسق شخص وہ ہے جو قرآن مجید پڑھتا ہے مگر گناہوں میں سے کسی گناہ سے باز نہیں آتا۔ (نسائی۔ بیہقی)

٭ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ مجاہیدین کو تکلیف پہنچانے سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ مجاہد کو تکلیف پہنچانے پراسی طرح غصے ہوتاہے جس طرح رسولوں اورنبیوں کو تکلیف پہنچانے پر اور اللہ تعالیٰ مجاہدین کی دعاؤں کو ایسے قبول فرماتا ہے۔ جس طرح رسولوں اورنبیوں کی دعاؤں کو اور سورج نہ طلوع ہوا ہے اورنہ غروب ہوا ہے کسی ایسے شخص پر جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجاہد سے زیادہ معزز ہو[یعنی روئے زمین پر مجاہد سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی شخص معزز نہیں ہے]۔(شفاء الصدور۔ابن عساکر)

فصل
مجاہد کے سونے اورکھانے پینے کی فضیلت
٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مال دار شخص تھا اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے ذریعے میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقام کو پہنچ سکوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ! تیرے پاس کتنا مال ہے؟اس نے کہا چھ ہزار دینار۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو یہ سارا مال بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کاموں میں خرچ کردے تب بھی تو مجاہد کے جوتے کے تسمے کے غبار تک نہیں پہنچ سکتا۔ (کتاب السنن لسعید بن منصور)

٭ [اسی طرح ]ایک اور شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے ذریعے میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے عمل [کے مقام ] تک پہنچ سکوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! اگر تو رات کو قیام کرے اور دن کو روزے رکھے تب بھی تو مجاہد کی نیند کے مقام کو نہیں پاسکتا۔ (کتاب السنن لسعید بن منصور)

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے مگر ابن عساکر نے اسی روایت کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی نقل کیا ہے۔

٭ ایک اورروایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگ جہاد کررہے ہیں جب کہ مجھے کسی چیز [یعنی عذر]نے روک رکھا ہے آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جسے ادا ء کر کے میں بھی ان جہاد کرنے والوں کے مقام کو پالوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!کیا تم رات بھر قیام کی طاقت رکھتے ہو اس نے کہا میں مشقت کے ساتھ یہ کرلوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دن کو روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہو۔ اس نے کہا جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہار ا پوری رات نماز پڑھنا اوردن کو روزہ رکھنا ان [مجاہدین]میں سے ایک کے سونے جیساہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ عن مکحول مرسلا)

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :کیا تم اس بات کی قوت رکھتے ہو کہ پوری زندگی نماز پڑھتے رہو اورنہ تھکو،روزے رکھتے رہو اور ناغہ نہ کرو۔لوگوں نے جواب دیاکہ اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کی طاقت کو ن رکھ سکتا ہے؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مجاہد کا نیند کرنا اس سے بھی افضل ہے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن قرینے اور اگلی حدیث سے اس کے مرفوع ہونے کی طرف واضح اشارہ ملتاہے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
[غور کیجئے] جب مجاہدین میں سے سونے والوں کا یہ مقام ہے تو ان کے راتوں کو قیام کرنے والے کا مقام کیا ہوگا جب ان کے غافل کا یہ رتبہ ہے توان کے عامل کا رتبہ کیا ہو گا جب ان کے جوتے کے تسمے کی یہ قدروقیمت ہے تو ان کے بڑے اعمال کا اجر کتنا ہوگا بے شک یہ سب اللہ تعالیٰ کا کھلم کھلا فضل ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے محنتی لوگوں کو کمر کس لینی چاہئے اورسست اورعاجز لوگوں کو اس سے محرومی پر رونا چاہئے اور جہاد کے سوا دوسرے کاموں میں اپنی عمر ضائع کرنے والوں کو غمگین ہونا چاہئے۔

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون جہاد کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات کو قیام،دن کو روزے اورخشوع سے رکوع ،سجدے کرنے والے جیسی ہے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭ ابن حبان نے ایک روایت اپنے استاذ عمر بن سعید بن سنان سے نقل کی ہے یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے اسی (۸۰ ) سال تک جہاد اور میدان جہاد کی پہرے داری اس حال میں فرمائی کہ رات کو قیام فرماتے تھے اوردن کو روزے رکھتے تھے۔
٭ یہ روایت اس طرح ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اورروزے دار جیسی ہے جو نماز اورروزے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مجاہد کو اجر یا غنیمت دیکر واپس لوٹا دے یا اسے موت دیکر جنت میں داخل فرمادے۔ (موارد الظمآن)
٭سیعد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک بار سونا ایسے ستر حج کرنے سے افضل ہے جن کے پیچھے ستر عمرے ہوں۔ (شفا الصدور)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں کھانے والاغیر جہاد میں پوری زندگی روزے رکھنے والے جیسا ہے۔ (شفاء الصدور)

فصل
روزے ،نوافل اورذکر میں لگے رہنے والا مجاہد کے مقام کے دسویں حصے کوبھی نہیں پاسکتا
٭حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک عور ت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر جہاد میں چلا گیا ہے میں نماز اوردوسری عبادات میں اس کی پیروی کرتی تھی آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جو میں ان کے آنے تک کرتی رہوں اوراس عمل کے ذریعے میں ان کے مقام کو پالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم ایسی استطاعت رکھتی ہو کہ مستقل نوافل پڑھتی رہو اورروزے رکھتی رہو اور بغیر تھکے [اور وقفہ کئے ] اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی رہو وہ خاتون کہنے لگی۔
اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تومیں طاقت نہیں رکھتی ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہیں اس کی طاقت دے بھی دی جائے تب بھی تم اس کے عمل [ جہاد ] کے دسویں حصے تک نہیں پہنچ سکتیں۔ (مسند احمد)

فصل
مجاہد کے لئے جنت کے سودرجات:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(۱) [arabic]وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۔[/arabic](النساء ۹۵۔۹۶)
اور اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں یعنی بہت سے درجے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملیں گے اور مغفرت اوررحمت اوراللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں۔

٭ حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا اوراس نے نماز کو قائم رکھا زکوٰۃ ادا ء کی اوررمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر لازم ہے [یعنی اس نے خود اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ] وہ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کی ہو یا وہ اپنے پیدائشی وطن میں ٹھہرارہا ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم لوگوں کو یہ بات بتا نہ دیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لئے سودرجے تیار فرمائے ہیں ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنافاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین میں ۔ اورجب تم نے اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہوتو فردوس مانگا کرو۔ کیونکہ وہ جنت کادرمیانی اوراعلیٰ حصہ ہے اوراسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اوراس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ (بخاری)

٭ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو اللہ تعالیٰ کو رب،اسلام کو سچادین اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے پر راضی رہا تو جنت اس کے لئے واجب ہوگئی،یہ بات ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو بھلی لگی تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ بات دوبارہ ارشاد فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وہی بات دہرائی اورپھر ارشاد فرمایا: ایک اور عمل ایسا ہے جس کے کرنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سو درجے عطا فرماتے ہیں ان میں سے ہر دودرجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین کے درمیان ۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون ساعمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد۔

فصل
اس امت کی رہبانیت اوراس کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے:
وہ ایمان والے جن کی جان ومال کو اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے خرید لیا ہے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
(۱) [arabic]اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ ۔[/arabic] (التوبہ۔۱۱۲)
توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے،روزہ رکھنے والے۔

٭ حضرت ابو ذرضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی وصیت [ونصیحت]فرمائیے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا، میں تمہیں اللہ سے ڈرنے [یعنی تقوی اختیار کرنے]کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ پورے دین کا سر [یعنی اصل] ہے۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم قر آن مجید کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کو لازم پکڑو بے شک یہ تمہارے لئے زمین میں نور اور آسمانوں میں ذخیرہ بنے گا۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : زیادہ ہنسنے سے پرہیز کروکیونکہ یہ دل کو مردہ اور چہرےکو بے نور کر دیتا ہے ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم جہاد کو لازم پکڑو کیونکہ یہ میری امت کی رہبانیت ہے ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسکینوں سے محبت کرو اور ان کہ ساتھ بیٹھا کرو میں عرض کیا مجھے کچھ اور بتایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتم اپنے سے [مال و صحت میں]نیچے والے کو دیکھو اور اپنے سے اوپر والے کو نہ دیکھو۔ (احمد۔طبرانی۔ابن حبان۔حاکم۔مواردالظمآن)

٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے کوئی وصیت[ونصیحت]فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تقوی کو مضبوط پکڑو کیونکہ یہ تمام بھلائیو کا مجموعہ ہے اور جہاد کو لازم پکڑو کیونکہ وہ مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر اللہ کی پابندی کرو۔ بے شک وہ تمہارے لئے زمیں میں نور اور آسمان پر تذکرے کا سبب ہے اور اپنی زبان کو خیر کی بات کے علاوہ خاموش رکھو کیونکہ اس کے ذریعے سے تم شیطان پر غالب رہو گے (المعجم الصغیر للطبرانی)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فر ماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نیکی کا بتالانے والا نیکی کرنے والے جیسا ہے اور ہر امت کے لئے ایک رہبانیت ہے اور میری امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔اے میرے پرودگار ۔میری امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت عطاء فرما ۔(ابن عساکر)

جہاد اس امت کی رہبانیت کس طرح سے ہے؟
[اس بارے میں مصنف کئی نفیس اقوال نقل فرماے ہیں ذیل میں ان کا خلاصہ ملا حظہ فرمایئے]
(۱) امام عبدل الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عیسائیو کی رہبانیت یہ تھی کہ وہ دنیا کے تمام مشاغل چھوڑ کر خلوت اختیار کرتے تھے یعنی اپنے نفس کو دینوی مشاغل سے فارغ کرنے کو رہبانیت سمجھتے تھے جبکہ مجاہد تو اپنے نفس کو اللہ کے راستے میں قربان کر دیتا ہے اس طرح سے دینوی مشاغل تو کیا وہ اللہ کی رضا کے لئے شہید ہو کر دنیا تک کو چھوڑ دیتا ہے تو اس سے بڑھ کر رہبانیت کیا ہو سکتی ہے۔
اسی طرح عیسائیوں کے راہب یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی دور دراز کی خانقاہوں میں اس لئے خلوت اختیار کرتے ہیں تاکہ ان سے کسی کو ایذاء نہ پہنچے جبکہ اہل باطل کو ان کے باطل نظریات پر چھوڑ دینا انہیں بڑی ایذاء پہنچانا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے وہ دوزخ کی آگ میں جلیں گے تو اگر رہبانیت کا معنی لوگوں سے ایذاء دور کرنا ہے توپھر جہاد ہی اصل رہبانیت ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے کافروں کو کفر سے ، مسلمانوں کو کافروں کے ظلم سے اور مجاہدین کو آخرت کے عذاب سے نجات ملتی ہے۔
مصنف فرماتے ہیں کہ راہب کو راہب اس لئے کہتے ہیں وہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے ڈرتا ہے [راہب عربی لفظ ہے جس کا معنی ہے ڈرنے والا ] اور ان راہبوں میں سے یہ نیت [کہ میں کسی کو ادنی تکلیف بھی نہ پہنچاوں]بہت تھوڑے سے افراد کی ہوتی ہے اس لئے اپنے نفس سر کش کی حقیت کو سمجھناان میں سے انہیں کاملین کے لئے ممکن ہوتا ہے جو تنہائی اور مجاہدات کی بدولت اپنے باطن کی اصلاح کر لیتے ہیں تب انہیں یہ سوجھتا ہے کہ لوگوں کے درمیان رہنے کی صورت میں ان کے نفس کے شر سے لوگ نہیں بچ سکیں گے چانچہ وہ اپنے آپ کو خانقاہوں اور گرجوں میں اسی طرح قید کر لیتے ہیں جس طرح پاگل کتے کو باندھا جاتا ہے ۔ چونکہ اصل راہب یہی لوگ ہوتے ہیں اس لئے آج ہزارراہبوں میں کوئی ایک آدھ اصلی راہب ملتا ہے۔
[لیکن مجاہد اصل راہب ہے کیونکہ اس کے جہاد کی برکت سے لوگ طرح طرح کے ظلم اور ایذء سے نجات پاتے ہیں اور ہر طرح کے ظالمانہ قوانین سے انہیں چھٹکارا ملتا ہے اور کفر و شرک کی غلاظتوںسے وہ محفوظ رہتے ہیں]۔
(۲)راہب کا استعمال اکثر اس شخص کے لئے ہوتا ہے جو کسی اور سے ڈرتا ہو چنانچہ راہب کو راہب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی عبادت میں خوب محنت کرتا ہے اور مخلوق سے ڈرتا ہے کہ وہ اسے کہیں اللہ سے غافل نہ کر دے اور کہیں مخلوق سے تعلق اللہ کی نارضگی اور اس کے در سے دھتکارے جانے کا سبب نہ بن جائے چنانچہ وہ مخلوق سے الگ تھلگ ہو جاتا ہے اور اس کا یہ کام رہبانیت کہلاتا ہے اس معنی کے اعتبار سے بھی مجاہد اصلی راہب ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کراس کو راضی کرنے کے لئے جان ومال ہتھیلی پر رکھ کر نکلتا ہے ۔ اور اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اللہ کی ذمین پر کافر غالب نہ آجا ئیں۔ چنانچہ وہ ان کے خلاف ڈٹ کر لڑتا ہے اسی لئے اس کے اس کے عمل یعنی جہاد کو حدیث شریف میں رہبانیت قرار دیا گیا ہے ۔
(۳)رہبانیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ کے ڈر سے مخلوق سے سارے تعلقات توڑ کر آدمی پہاڑو ں اور جنگلوں میں نکل جائے اور اپنے نفس کو ہر طرح کی شہوتوں ، لذتوں اور مرغوب چیزوں سے دور رکھے اور اسے طرح طرح کی مشقتوں میں ڈال کر مجاہدے کرائے اس اعتبار سے بھی جہاد اصل رہبانیت ہے کیونکہ اس میں بھی نفس کو طرح طرح کی سخت تکلیفوں میں ڈالا جاتا ہے اور اسے قربان کیا جاتا ہے اپنی جان بغیر کسی ٹال مٹول کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس پکڑ سے بچنے کے لئے کیا جاتا ہے جو رہبانیت کا اصل مقصود ہے ۔اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ رہبانیت میں تو صرف نفس پر ان چیزوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے جو اس پر شاق گزرتی ہیں لیکن جہاد میں تو خود نفس کو بھی قربان کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مال کو بھی قربان کیا جاتا ہے اور ان دونوں کی قربانی بہت ہی مشکل اور شاق عمل ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ راہب اور مجاہد میں کتنا بڑا فرق ہے کہ ایک طرف ایک شخص زندہ رہتے ہوئے کچھ چیزیں چھوڑ دیتا ہے اور کچھ چیزوں سے نفع حاصل کرتا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو فنا کرنے کے لئے سخت محنت کررہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اللہ کے راستے میں فنا ہونے والا ہمیشہ کی زندگی پا لیتا ہے ۔ یااللہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی یہ نصیب فرما۔

٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیاحت ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے جہاد فی سبیل اللہ اور ہر بلند جگہ پرتکبیر کا عمل عطاء فرما دیا ہے ۔یہ حدیث مرسل ہے (کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیاحت کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا میری امت کی سیاحت ہے ۔(ابوداود ۔السنن الکبری۔المستدرک)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیاحت زمین میں گھومنے پھرنے ، عبرت کی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرنے اور ناپسندیدہ لوگوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا نام ہے جبکہ جہاد کو سیاحت اس لئے کہا گیاہے کہ اس میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے دینا سے فرار اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اورمحبت کی طرف چلتا ہے ۔اورچونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی جان کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے اس لئے وہ اپنی جان پر انصاف کی نظر ڈالتا ہے اور اس کے خریدنے والے [یعنی اللہ تعالیٰ ]کو سپرد کرنے کے لئے دینا کو چھوڑنے کاعزم کرتا ہے ۔
ذرا غور کیجئے کتنا بڑا فرق ہے ان دو شخصوں کے درمیان جن میں سے ایک تو اپنے نفس کی تفریح کے لئے گھوم پھر رہا ہے جبکہ دوسرا اس نفس کو قربان کرنے کے لئے محنت کررہا ہے ۔ یقینا یہی شخص حقیقی سیاح ہے اوریہی وہ کامیاب تاجر ہے جو بہت بڑا نفع کماتا ہے۔
[کیو نکہ اپنی حقیر سی جان اللہ تعالیٰ کو دیکر اس کی رضا ،جنت کی لازوال نعمت اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لیتا ہے ]۔

فصل
جہاد فی سبیل اللہ اسلام کی چوٹی کی بلندی ہے
٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
اگر تم چاہو تو میں تمہیں کسی کام کی اصل [یعنی اس کا سر ]اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی نہ بتاوں میں نے عرض کیاضرور ارشاد فرمایئے اے اللہ کے رسول ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پورے کام [یعنی دین ]کا سر [یعنی اصل]اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اسکے کوہان کی بلندی جہاد ہے ۔(المستدرک ۔ مسنداحمد ۔ ترمذی )

٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اسلام کی چوٹی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس بلندی کو وہی پائے گا جو ان میں سب سے افضل ہوگا۔ (الطرانی)
مصنف فرماتے ہیں کہ اسلام کو دین کا سر قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ اسلام کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا جس طرح کہ کوئی جسم بغیر سر کے زندہ نہیں رہتا ۔ نماز کو دین کے خیمے کے ستون سے تشبیہ دی گی ہے ۔ کیونکہ جس طرح پورے خیمے میں پہلے ستون گاڑا جاتا ہے اسی طرح قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں حساب لیا جاے گا۔اسی طرح اگر ستون قائم رہے تو خیمہ قائم رہتا ہے ورنہ گرجاتا ہے یہی حال نماز کا ہے اگر نماز کو قائم رکھا جائے تو دین قائم رہتا ہے ورنہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔اسی طرح خیمہ سردی گرمی سے اسی وقت بچاتا ہے جب اس کا ستون قائم ہو یہی حال نماز کا بھی ہے کہ کسی کے اسلام کے سچا ہونے اور اسلام کی وجہ سے خون کے محفوظ ہونے کی نشانی نمازہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادکو اونٹ کے کوہان کی بلندی سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اونٹ میں کوہان ہی اعضاء میں سب سے اونچا ہوتا ہے یہی حا ل جہاد کابھی ہے کہ اسلام کے اعمال میں سے کوئی عمل بھی جہاد کے برابر نہیں ہے ۔بلکہ جہاد سب سے بلند اور افضل عمل ہے [جیسا کہ مضبوط دلائل سے بیان کیا جا چکا ہے ]یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جہاد کے برابر کون سا عمل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا جو جہاد کے برابر ہے۔(انتہی)
اسی طرح یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو اونٹ کی کوہان سے اس لئے تشبیہ دی ہو کہ جو شخص کوہان پر چڑھ جائے تو پورا اونٹ اور اس کے تمام اعضاء اس کے نیچے آ جاتے ہیں ۔ اسی طرح جو شخص جہاد کرتا ہے وہ بھی اسلام کے تمام اعمال کی فضیلت کو پا لیتا ہے کیونکہ مجاہد کانیند کرنا ،سفر کرنا، مال خرچ کرنا ، تھکنا ، خوف محسوس کرنا ، پیاسا ہونا، بھوکا ہونا سب اجر ہی اجر ہے بلکہ اس کی ایک ایک حرکت اجر وثواب کا باعث ہے ۔ (واللہ اعلم)

فصل
مجاہد کے لئے اللہ تعالیٰ کی ضمانت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :۔
(۱) [arabic]وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ( عنکبوت۔ [/arabic]۶۹ )
اور جو لوگ ہمارے لئے مشقتیں اٹھاتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے اور اللہ تعالیٰ تو نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔

حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کا آپس میں اختلاف ہو چکا ہے تو تم مجاہدین کے ساتھ محاذوں پر چلے جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ (لنھد ینھم) کہ ہم انہیں ضرور ہدایت دیں گے ۔

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجاہدکے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ اسے یا تو جنت میں داخل فرمائے گا یااسے اجر یا غنیمت دیکر واپس اس کے گھر لوٹائے گا بشرطیکہ وہ مجاہد اپنے گھر سے [خالص] اللہ کے راستے میں جہاد کرنے اور اسکے وعدوں کی تصدیق کے لئے نکلا ہو۔ (بخاری۔مسلم)

٭ حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اور اس کے وعدوں کو سچا جانتے ہوئے اور اسکے رسولوں پر ایمان لاتے ہوئے جہاد کے لئے نکلا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ضمانت دے دی ہے کہ یا تو اسے جنت میں داخل کرے گا اگر وہ کسی بھی طرح مر گیا یا پھر اسے اپنی ضمانت میں چلاتا رہے گا خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے یہاں تک کہ اسے غنیمت یا اجر کے ساتھ صحیح سالم اس کے گھر لوٹا دے گا۔ (ابن عساکر)
اسطرح کی احادیث میں اجر یا غنیمت کے لفظ سے یہ وہم نہیں ہونا چاہئے کہ جس آدمی کو مال غنیمت مل گیا اسے اجر نہیں ملے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یا تو خالص اجر کے ساتھ مجاہد کو واپس لوٹائے گا یا کچھ اجر اور کچھ غنیمت دیکر لوٹائے گا۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جسے مال غنیمت مل جاتا ہے وہ اپنے اجر کا دو تہائی حصہ دنیا میں لے لیتا ہے ۔

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین آدمیوں کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لازم فرما لی ہے پہلا وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلا ہو ۔دوسرا مکاتب [غلام ]جو مال ادا ء کر کے آزادی چاہتا ہو ۔تیسرا وہ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی چاہتا ہو۔(مصنف عبدالرزاق ۔ترمذی ابن حبان)
اس حدیث شریف میں مجاہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کا تذکرہ ہے ۔ یہ مدد ہر وقت رہتی ہے مجاہد زندہ ہو یا شہید ہو چکا ہو ۔ذیل میں اسی سلسے کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمایئے ۔ [یہ واقعہ بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ ہے جبکہ یہاں مصنف نے اسے مختصر طور پر نقل کیا ہے ]۔

مجاہد کے مال میں برکت کا عجیب وغریب واقعہ
٭حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب [میرے والد]حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل کے دن [میدان میں] کھڑے ہو گے تو انہوں نے مجھے بلایا تو میں ان کے پہلومیں کھڑا ہو گیا انہوں نے فرمایا اے میرے پیارے بیٹے آج [کی لڑائی ]کے دن یا تو ظالم قتل ہوگا یا مظلوم اور میرا خیال ہے کہ میں آج مظلوم قتل کیا جاوں گا اور مجھے زیادہ فکر اپنے قرضے کی ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ قرضہ ہمارے مال میں سے کچھ باقی چھوڑے گا ؟ اے بیٹے ہمارا مال بیچ کر میرا قرضہ اداء کر نا پھر اگرقرضہ اداء کرنے کے بعد مال میں سے کچھ بچ رہے تو اسکا تیسرا حصہ تمہار ے بیٹوں کے لئے ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد مجھے قرضے کی ادائیگی کی تاکید کر تے رہے اور فرمایا کہ اے بیٹے اگر تم قرضے کی ادائیگی میں کہیں عاجز آجاو[اور مشکل میں پڑ جاو] تو میرے مولا سے مدد طلب کرنا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نہیں جانتا تھا کہ مولا سے ان کی مراد کیا ہے [کیو نکہ عربی زبان میں کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے ]۔ یہاں تک کہ میں نے پوچھا اے ابا جان آپ کا مولا کون ہے ؟فرمایا اللہ تعالیٰ میرا مولا ہے ۔ابن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کی قسم ان کے قرضے کے بارے میں جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی تو میں پکار اٹھا کہ اے زبیر رضی اللہ عنہ کے مولازبیر رضی اللہ عنہ کا قرضہ اداء فرما دے تو اللہ تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا فرمادیتے۔پس حضرت زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگے انہوں نے نہ کوئی درہم چھوڑ ا نہ دینار۔ البتہ دو زمینیں چھوڑیں جن میں سے ایک غابہ کی زمین تھی اور گیارہ مکان مدینہ میں دو بصرہ میں ایک مکان کوفہ میں اور ایک مصر میں تھا۔
حضرت عبداللہ رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ قرضہ [کسی فضول خرچی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ]اس لئے تھا کہ جب کوئی آدمی ان کے پاس کوئی مال امانت رکھتا تھا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرمادیتے یہ امانت نہیں ہے بلکہ میرے ذمہ قرضہ ہے تاکہ ضائع ہونے کی صورت میں تمہیں اس کا ضمان اداء کر سکوں ۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کبھی حکومت کا کوئی عہدہ قبول کیا اور نہ کبھی خراجی زمین گروی رکھی اور نہ ہی کوئی اور ذریعہ آمدنی تھا مگر یہ کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیتے رہے [بس اسی کا مال غنیمت ان کے پاس تھا ] حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے قرضے کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ روپے بنتا تھا [اسی دوران]حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے حضرت حکیم بن حزام ملے اور فرمانے لگے اے بھتیجے ! میرے بھائی پر کتنا قرضہ ہے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قرضے کی صحیح رقم ان سے چھپا لی [کیو نکہ کچھ قرضہ اداء ہو چکا تھا ] میں نے کہا ایک لاکھ روپے قرضہ ہے ۔ حضرت حکیم بن حزام نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میرے خیال میں تو تمہاری ساری جائیدادبھی اتنے قرضہ کی ادائیگی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس پر حضرت عبداللہ نے کہا اگر وہ قرضہ بائیس لاکھ روپے ہو تو پھر کیا خیال ہے انہوں نے فرمایا میرے خیال میں تم لوگ اسکی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی زمین ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی ۔حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے سولہ لاکھ میں بیچ دیا اور اعلان فرمادیا کہ جس شخص کاحضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر قرضہ ہو وہ غابہ کی زمین پر آکر ہم سے وصول کرے۔
[اسی طرح سارا قرضہ اداء ہوتا گیا ]جب حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ قرضے کی ادائیگی سے فارغ ہو گئے تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹوں نے کہا کہ ہماری میراث ہمارے درمیان تقسیم کر دیجئے۔حضرت عبداللہ ا بن زبیر رضی اللہ عنہ کہا کہ اللہ کی قسم میں اس وقت تک میراث تقسیم نہیں کروں گا جب تک حج کے موقعہ پر چار سال تک اعلان نہ کر دوں کہ جس کا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر قرضہ ہو آ کر ہم سے وصول کر لے چنانچہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہر سال حج کے موقعہ پر اعلان کرتے رہے ۔ چار سال گزرنے کے بعد آپ نے میراث تقسیم کر دی ۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں قرضے سے باقی بچے ہوئے مال کا ایک تہائی وصیت پوری کرنے کے لئے نکال لیا گیا۔ [پھر باقی مال کا آٹھواں حصہ چار بیویوں کو دیا گیا تو ]ان کی ہر بیوی کو بارہ لاکھ روپے ملے ۔[یعنی ] ان کا کل متروکہ مال پانچ کروڑ دو لاکھ روپے تھا۔ واللہ اعلم۔ (بخاری مختصراً)

٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے حج یا عمرہ کیا پھر اسی سال مر گیا تو جنت میں داخل ہوگا اور جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اسی سال مر گیا تو جنت میں داخل ہوگا اور جس نے جہاد کیا پھر اسی سال مر گیا تو جنت میں داخل ہو گا۔(ابن عساکر)
 
فصل
اللہ تعالیٰ مجاہدکو مصیبت کی جگہ اکیلا نہیں چھوڑ تے

٭ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر بنا کر قریش کے ایک قافلے سے لڑنے کے لئے بھیجا اور ہمیں ایک تھیلا کھجور بطور توشے کے عنایت فرمائی کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہمیں دینے کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھاآپ لوگ ایک کھجور کا کیا کرتے تھے ۔تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم اسے چھوٹے بچوں کی طرح چوس لیتے تھے اور اوپر سے پانی پی لیتے تھے اور یہی ہماری سارے دن کی غذا ہوتی تھی اور ہم اپنی لاٹھیوں سے درختوں کے پتے جھاڑ لیتے تھے اور انہیں پانی میں بھگو کر کھالیتے تھے یہاں تک کہ ہم ساحل سمندر تک پہنچ گئے۔ اچانک سمندر نے [اللہ تعالیٰ کے حکم سے ]ایک بڑے ٹیلے جیسی عنبر نامی مچھلی ساحل پر ہمارے لئے پھینک دی ۔حضرت ابو عبیدہ نے [پہلے فرمایا ]یہ تو مردار ہے پھر فرمایا نہیں نہیں ہم تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اللہ کے راستے میں بھیجے ہوے لوگ ہیں ۔ اس وقت تم لوگ مجبور ی کی حالت میں ہو اس لئے اس مچھلی کو کھاؤ ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تین سو آدمی ایک مہنے تک اس میںسے کھاتے رہے [ہم نے اس میں سے اس قدر کھایا]کہ ہم موٹے [تازے] ہو گے ہم لوگ اسکی آنکھ کے اندر سے مٹکے بھر کر تیل نکالتے تھے اور اس کے گوشت میں سے بیل کے برابر ٹکڑا کاٹتے تھے ۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہم میں سے تیرہ آدمی لیکر اس کی آنکھ کے اندر بٹھا دیئے۔ اور اس کی ایک پسلی کو کھڑا کیا پھر سب سے اونچے اونٹ پر ایک آدمی بٹھا کر اس کے نیچے سے گزارا۔اور ہم نے اسکا گوشت ابال کر اپنے ساتھ بھی رکھ لیا پھر جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ وہ روزی تھی جو اللہ تعالیٰ نے خاص تمہارے لئے بھیجی تھی کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ نہیں ہے جسے ہم تناول کرلیں؟ ہم نے وہ گوشت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اس میں سے تناول فرما یا۔(صحیح مسلم)

٭ عبداللہ بن ابو جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاد قسطنطنیہ کے دوران ہماری کشتی ٹوٹ گئی اور موجوں نے ہمیں ایک جزیرے پر ڈال دیا ۔ ہم پانچ یا چھ آدمی تھے اللہ تعالیٰ نے وہاں ہمارے لئے ہماری تعداد کے برابرایسے پتے اگا دیئے جنہیں ہم چوستے تھے تو ہمارے پیٹ بھر جاتے تھے اور ہم سیراب ہو جاتے تھے جب شام ہو تی تو اللہ تعالیٰ ان کی جگہ نئے پتے پیدا فرما دیتا۔ یہاں تک کہ ہمیں سواری مل گئی اور ہم وہاں سے روانہ ہوگئے۔ (ابن عساکر )
چونکہ مجاہدین اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہوتے ہیں اس لئے مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نصرت یہ بھی ہے کہ اللہ ان کی خلاف عادت دعاؤں کو بھی قبول فرما لیتا ہے۔

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے کا مجاہد ،حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں وہ جو دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور وہ جو کچھ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ عطاء فرماتا ہے ۔(ابن ماجہ ۔صحیح ابن حبان)
[یہ حدیث اور بھی کئی کتابوں میں مختلف طریقوں سے آئی ہے مگر ان سب کا مفہوم ایک ہی ہے ]

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین دعاوں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ والد کی دعاء ، مظلوم کی دعاء اور مسافر کی دعاء ۔
(ابو داؤد۔ترمذی )
حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ عام مسافر کی دعاء بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے تو پھر مجاہد کے سفر اور اس کی دعاء کے کیاکہنے ؟اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین کی دعاؤں کو ایسے قبول فرماتے ہیں جس طرح اپنے پیغمبروں کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجاہدین کا اکرام اور مقام بہت بلند ہے۔

٭ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو تکلیف پہنچانے سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح سے پیغمبروں کو تکلیف پہنچانے والوں سے ناراض ہوتا اسی طرح مجاہدین کو تکلیف پہنچانے والوں سے بھی ناراض ہوتاہے اور مجاہدین کی دعائیں اسی طرح قبول فرماتا ہے جس طرح پیغمبروں کی دعائیں ۔(ابن عساکر)
ابو سبرہ نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے [جہاد میں شرکت کے لئے ]آرہے تھے کہ راستے میں ان کا گدھا مر گیا انہوں نے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی اور دعاء کی اے میرے پرودگار میں تو دثینہ[نامی مقام ] سے محض تیری رضا کی خاطر جہاد کرنے کے لئے نکلا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مردوں کو زندہ فرمائیں گے اور قبروں سے مردوں کو اٹھائیں گے آج کے دن آپ مجھے کسی اور کا احسان مند نہ بنائیے میں آپ سے دعاء کرتا ہوں کہ میرے گدھے کو زندہ فرما دیجئے ابھی وہ دعاء کر رہے تھے کہ ان کا گدھا کان ہلاتا ہوااٹھ کھڑا ہوا۔(الرسالتہ القشیریہ)
امام بہیقی نے بھی یہی قصہ سند کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اس میں اس شخص کا نام نباتہ بن یزید بتایا ہے اور وضاحت کی ہے کہ یہ قصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے۔
ابو عبید البسری کاایسا ہی واقعہ ہے کہ وہ ایک بار جہاد کے لئے نکلے دوران جہاد ان کا گھوڑا مر گیا انہوں نے دعاء کی کہ یااللہ یہ گھوڑا مجھے عاریتاًواپس عطاء فرما دے تاکہ میں بسریٰ [اپنے علاقے] تک واپس جا سکوں چنانچہ گھوڑا زندہ ہو گیا اور بسریٰ پہنچ کر وہ دوبارہ مر گیا ۔

٭ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ [اسلام لانے سے پہلے ]میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے ایک گھر دیکھایا اور ارشاد فرمایاکہ اس گھر میں ایک عورت رہتی تھی وہ ایک بار مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں نکلی اور پیچھے بکری کے بارہ بچے اور کپڑا بننے والی ایک کو نچ چھوڑ گئی وہ جب واپس آئی تو اس نے بکری کا ایک بچہ اور کونچ کوگم پایا ۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ۔ اے میرے رب آپ نے جہاد میں نکلنے والوں کی حفاظت کی ضمانت لی ہے جبکہ میرا ایک بکری کا بچہ اور ایک کونچ گم ہو گئے ہیں ۔ آپ مجھے یہ دونوں چیزیں واپس کرادیجئے[وہ اسی طرح شدت سے دعاء کرتی رہی چنانچہ اس کی دعاء قبول ہو گئی اسے گم شدہ چیزیں واپس مل گئیں پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آو اگر تم چاہو تو یہ واقعہ خود اس عورت سے پوچھ لو۔میں نے عرض کیا نہیں اللہ کے رسول میں تو آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔ (مسند احمد)

٭ حضرت عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ جہاد کے لئے نکلے ان میں محمد بن منکدر بھی تھے گرمی کا موسم تھا ۔ایک شخص ان میں سے کہنے لگا میرا دل چاہتا ہے کہ تازہ پنیر کھانے کو ملے ۔محمد بن منکدر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگو ں وہ قادر ہے وہ تمہیں ضرور کھلائے گا۔ یہ سن کر مجاہدین دعاء کرنے لگے ابھی تھوڑا سا آگے بڑھے تھے کہ انہوں نے ایک سلی ہوئی ٹوکری دیکھی جب اسے کھولا تو اس میں تازہ پنیر تھا یہ دیکھ کر بعض مجاہدین نے کہا کاش ہمارے پاس شہد بھی ہوتا [تو کتنا مزہ آتا]محمد بن منکدر نے فرمایا جس اللہ تعالیٰ نے تمہیں پنیر عطاء فرمایا ہے وہ شہد دینے پر بھی قادر ہے۔تم سارے اسی سے دعاء کرو چنانچہ مجاہدین شہید کے لئے دعاء کرنے لگے ابھی تھوڑا سا آگے بڑھے تھے کہ انہوں راستے میں شہد کے مشکیزے پائے سب نے اتر کر خوب شہد اور پنیر کھایا اور سوار ہو کر منزل کی طرف روانہ ہو گے۔(کتاب مجابی الدعوہ لابن ابی الدینا)
سلطان نورالدین زنگی نے اپنی کتاب(الاجتہاد فی فضل الجہاد)میں اپنا یہ قصہ بیان فرمایا ہے کہ ایک بار ہم رومیوں سے جہاد کرنے کے لئے نکلے ہمارے رہنمانے بتایا کہ یہاں ایک وادی ہے جس میں بہت زیادہ شہد پایا جاتا ہے یہ سن کر ہم ادھر روانہ ہوئے اور ہم نے ایک آدمی کو اس وادی میں اتار دیاتاکہ وہ ہمارے لئے برتنوں میں شہد بھرے اسی دوران رومیوں کا لشکر آگیا اورہم ان کے ساتھ جنگ میں مصروف ہو گئے اور اس آدمی کو بھول کر وہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے پھر جب اگلے سال ہم جہاد کے لئے نکلے تو پھر اس وادی پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ آدمی زندہ ہے ہم نے اس سے حال احوال پوچھا تو وہ کہنے لگا مجھے جب پیاس لگتی تھی تو میں شہد پی لیتا تھا اور جب بھوک لگتی تھی تو شہد کھا لیتا تھا۔سلطان فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ وہ آدمی شیشے کی طرح ہو گیا ہے اور اس کی کھال اتنی شفاف ہو گئی تھی کہ وہ جو کچھ کھاتا تھاوہ باہر سے نظر آتا تھا۔

فصل
جہاد اور مجاہدین کے متفرق فضائل
٭ حضرت فضالہ بن عبید فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایمان لایا۔ اسلام لایا اور اس نے ہجرت کی تو میں اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ میں اسے ایک گھر جنت کے اطراف میں اور ایک گھر جنت کے وسط میں عطاء فرماوں گا اور جو شخص ایمان لایا ،اسلام لایا اور اس نے جہاد کیاتو میں اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ میں اسے ایک گھر جنت کے اطرف میں ایک گھر جنت کے وسط میں اور ایک گھر جنت کے اعلیٰ ترین درجے میں عطاء فرماوں گااور جس شخص نے یہ اعمال کر لئے اس نے ہر خیر کو پالیا اور ہر شر سے بچ گیا۔اب وہ جہاں چاہے مرے [اس کی کامیابی یقینی ہے ](نسائی ۔ مستدرک)

٭ ابو بکر بن ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابو موسیٰ اشعری سے اس وقت سناجب وہ دشمن کے آمنے سامنے تھے آپ فرما رہے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک جنت کے دروازے تلوار کے سائے کے نیچے ہیں ۔ یہ سن کر ایک پراگندہ حال شخص کھڑے ہوے اور فرمانے لگے اے ابوموسیٰ کیا آپ نے یہ حدیث خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔انہوں نے کہا جی ہاں پس وہ شخص اپنے ساتھیوں کی طرف گئے اور انہیں فرمایا کہ میں تمہیں [الوداعی]سلام کہتا ہوں پھر انہوں نے اپنی تلوار کا میان توڑ کر پھینک دیا اور ننگی تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔ (مسلم)
علامہ تقی الدین ابن دقیق العید فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تلوار کو کام [یعنی جہاد] میں استعمال کرنے سے جنت ملتی ہے چونکہ ہر چیز کے ساتھ اس کا سایہ لازمی ہوتا ہے اس لئے تلوار کے سائے کا زکر فرمایا گیا ہے۔
مصنف فرماتے ہیں کہ جب مجاہد اللہ کے راستے میں تلوار اٹھاتا ہے یا جب دشمن کی تلوار اس پر اٹھتی ہے تو ان دونوں صورتوں میں تلوار کا سایہ اس پر پڑتا ہے بس حدیث شریف میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جسے یہ سایہ نصیب ہوگیا گویا وہ جنت کے دروازے تک پہنچ گیا۔ اب اگر وہ ابھی شہید ہو گیا تو فوراً جنت میں داخل ہو جائے گا اور اگر بعد میں مرا تو اس وقت جنت میں پہنچ جائے گایعنی حقیقت میں جنت کے دروازے تلوار کے سائے کے نیچے ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا : اٹھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان وزمین جیسی ہے ۔

٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میری امت کی کون سی جماعت سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گی میں نے عرض کیا ۔ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ [اللہ کے راستے کے ] مہاجرین ہوں گے جو قیامت کے دن جنت کے دروازے پر پہنچ کر اندر جانے کی اجازت مانگیں گے۔جنت کا نگران [فرشتہ ] پوچھے گا کیا تم لوگوں کا حساب کتاب ہوگیا وہ جواب دیں گے کہ ہم اللہ کے راستے میں اپنی تلواریں اپنی گردنوں سے لٹکائے پھرتے تھے ہم سے کس چیز کا حساب لیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہ لوگوں کے جنت میں داخل ہونے سے چالیس سال پہلے جنت میں مزے اڑائیں گے۔ (مسنداحمد)

٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت کو طلب فرمائے گاوہ اپنی پوری زیب وزینت کے ساتھ حاضر ہو جائے گی پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہاں ہیں میرے وہ بندے جنہوں نے میرے راستے میں قتال کیا۔ تکلیفیں برداشت کیں اور میری راہ میں جہاد کیا۔[پھر انہیں فرمائیں گے ] جنت میں داخل ہوجاؤ چنانچہ وہ [یعنی مجاہدین ] بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل ہوں جائیں گے[اس وقت ]فرشتے آئیں گے او ر اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم صبح شام تیری پاکی اور تقدیس بیان کرنے میں لگے رہتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ نے ہم پر بھی ترجیح عطاء فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے راستے میں قتال کیااور انہیں میری راہ میں تکلیفیں پہنچائی گئیں [یہ سن کر ]فرشتے ہر دروازے سے ان[مجاہدین]پر داخل ہو کر کہیں گے تم پر سلامتی ہو۔اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیاپس کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر۔(احمد۔وبزار باسناد صحیح)

٭ حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دودھ دوہنے کے درمیانی وقفے جتنی مدت بھی جہاد کرنے کی توفیق عطاء فرمادیتے ہیں تو پھر اسے جہنم سے نجات کا پروانہ دئیے بغیر گھر لوٹانے سے حیا فرماتے ہیں(مرسل شفائالصدور)
٭ عطاء الخراسانی سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے راستے ایک دن گزارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پیچھے رہ جانے والے ہر مومن، کافر، چھوٹے، بڑے، مرد اور عورت کے عوض ایک ایک قیراط اجر عطاء فرماتے ہیں۔(شفاء الصدور)

٭ محکول بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: جہاد کرو صحت پاو گے یہ حدیث مرسل ہے۔(کتاب الجہادلابن مبارک )

٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کیا کرو کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ فکر اور غم سے نجات عطاء فرماتے ہیں۔(مصنف عبدالرزاق۔ مسند احمد)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مرد مسلمان کے لئے دو چیزیں ایسی ہیں جن میں سے ہر ایک اس کے لئے دیناو مافیھا سے بہتر ہے ایک توبہ اوردوسری جہاد فی سبیل اللہ ۔

٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اللہ تعالیٰ پانچ طرح کے لوگوں پر فخر فرماتے ہیں (۱)مجاہدین پر (۲)فقراء (۳)تواضع کرنے والا نوجوان (۴)غریبوں کو زیادہ دینے اور احسان نہ جتلانے والے مالدار(۵)خلوت میں اللہ کے خوف سے رونے والا۔

٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :فرض حج کے بعد ایک بار جہاد کرناہزار حج کرنے سے افضل ہے ۔(ابن عساکر وقال احادیث غربیہ)

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ : میری امت میں سے کچھ لوگ رضا کارانہ طور پربغیر اجرت اور بغیر روزی کے جہاد کریں گے ان لوگوں کو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم جیسا اجر ملے گا۔ (شفاء الصدورحدیث موقوف)

٭حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے اوپر کے حصے سے زیورات نکلیں گے اوراس کے نچلے حصے سے سونے کا گھوڑا ، موتیوں اور یاقوت سے مرصع زین اور لگام کے ساتھ نکلے گاوہ نہ تو لید کرے گا نہ پیشاب۔اس کے پر تا حد نظر لمبے ہوں گے اہل جنت اس گھوڑے پر بیٹھ کر جہاں چاہیں گے اڑتے پھریں گے تب نیچے درجے والے جنتی عرض کریں گے کہ اے پروردگار تیرے ان بندوں کو یہ اعزاز کس عمل کی بدولت ملا تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ یہ لوگ راتوں کو نماز پڑھتے تھے جبکہ تم سوئے رہتے تھے یہ لوگ روزے رکھتے تھے جبکہ تم کھاتے پیتے تھے یہ لوگ خرچ کرتے تھے جبکہ تم بخل کرتے تھے یہ لوگ [اللہ کے راستے میں ]لڑتے تھے جبکہ تم بزدلی کرتے تھے ۔(کتاب التھجد لا بن ابی الدینا)

٭سیلمان بن ابان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لئے روانہ ہوے تو حضرت سعد بن خیثمہ ضی اللہ عنہ اور ان کے والد حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ دونوں نے نکلنے کا اردہ کیا ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے ان دونوں میں سے صرف ایک کو نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ ان دونوں نے قرعہ اندازی کی جس میں قرعہ حضرت سعد کے نام نکلا ان کے والد نے کہا میرے پیارے بیٹے تم اپنے اوپر مجھے ترجیح دو ۔ حضرت سعد نے فرمایا اے میرے ابا جان یہ جنت کا راستہ ہے اگر اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتی تو میں ضرور آپ کو اپنے اوپر ترجیح دیتا۔ حضرت سعد اس غزوے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور شہید ہوئے جبکہ اگلے سال احد کی لڑائی میں ان کے والد حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گے۔(کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت عمر بن جموع رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور و معروف ہے ۔ جو بوڑھے اور پاؤں سے لنگڑے تھے انہوں نے غزوہ بدر میں نکلنے کی کوشش کی مگر اجازت نہیں ملی پھر احد میں اپنے بیٹوں کے روکنے اور معذور ہونے کے باوجود نکلے اور نکلتے وقت یہ دعاء بھی فرمائی کہ اے اللہ مجھے ناکام کر کے واپس نہ لوٹانا۔انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے بعد قسم کھائی کہ میں آج ضرور اپنی اس لنگڑی ٹانگ کے ساتھ جنت میں چلوں پھروں گا ۔ چنانچہ اس دن شہید ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے انہیں ان کے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں چلتے ہوے دیکھا ہے ۔(کتاب الجہاد لابن مبارک )

٭ حضرت ابو المنذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔اے اللہ کے رسول فلاں شخص کا انتقال ہو گیا ہے آپ ا س پر نماز جنازہ اداء فرما دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ شخص تو فاسق تھا آپ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے۔پہلے والے شخص نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول جب میں نے ایک مرتبہ جہاد میں [ آپ کے ہمراہ ] رات بھر پہرہ دیا تھا وہ شخص بھی پہرہ دینے والوں میں سے تھا۔ [یہ سن کر ]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوے آپ نے اس کی نماز جنازہ اداء فرمائی ۔ پھر اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہوے اس کی قبر تک آئے اور اسے دفن کیا ۔ اس کی قبر پر تین مٹھیاں ڈالیں اور پھر فرمایا لوگ تجھے برا کہہ رہے ہیں جبکہ میں تیری اچھائی کی تعریف کرتا ہوں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ۔اے اللہ کے رسول یہ [آپ کا فرمانا] کس وجہ سے ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھوڑ دو اے عمر جس شخص نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا جنت اس کے لئے واجب ہو گئی۔(مجمع الزوئد ۔طبرانی)

٭غزوہ بدر کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں جیسی ہے [یعنی وہ بہت زیاد ہ بڑی ہے ] یہ سن کر حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ آسمان وزمین جتنی بڑی جنت اے اللہ کے رسول ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔حضرت عمیر [خوشی سے کہنے لگے ] بخ بخ [واہ واہ]حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ بخ بخ [ یعنی واہ واہ ] کیوں کہہ رہو ؟ عرض کیا، اے اللہ کے رسول میں جنتی ہونے کی امید میں یہ کہہ رہاہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [بشارت دیتے ہوئے ] فرمایاتم یقیناجنتی ہو ۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے نیام میں سے کچھ کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں کھجوریں کھانے کی دیر زندہ رہا تو [جنت میں جانے میں ] بہت دیر ہوجائے گی چنانچہ انہوں نے کھجوریں پھینک دی اور پھر لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ رضی اللہ عنہ ۔ (مسلم)

٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک پکارنے والا یہ آواز لگائے گاکہ وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جنہیں اللہ کے راستے کا خوف پہنچا تھا یہ سن کر مجاہدین [جنت میں داخلے کے لئے ] کھڑے ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ اور کوئی نہیں ہوگا ۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک )

علی بن بکار فرماتے ہیں کہ لوگ قیامت کے دن حساب دے رہے ہوں گے جبکہ مجاہد آپس میں حلقے لگا کر [اپنے ] جہاد کے تذکرے کر رہے ہوں گے ۔(ابن عساکر )

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں پر کالی رات کی طرح فتنے چھا جائیں گے ان فتنوں سے سب زیادہ بچنے والا وہ شخص ہوگا جو کسی پہاڑ کی چوٹی [یا دامن میں ]اپنے ریوڑ سے حاصل شدہ روزی کھاتا ہوگا یا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے [جہاد میں مصروف ]ہوگا اور اپنی تلوار سے حاصل ہونے والی روزی کھاتا ہوگا۔(المستدرک صحیح الاسناد)

٭ مکحول فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس امت کی روزی گھوڑوں کے سموں اورنیزوں کی نوک میں رکھی ہے جب تک وہ کھیتی باڑی میں نہیں لگیں گے جب وہ کھیتی باڑی میں لگ جائیں گے تو وہ دوسرے [عام ] لوگوں کی طرح ہوں جائیںگے۔(مصنف ابن ابی شیبہ مرسلا)

٭ زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہاد کرو صحت اور غنیمت پاو گے ۔(مصنف ابن ابی شعبہ مرسلا)
خالد بن دریک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عطاء بن یزید رحمہ اللہ کے سامنے مصیبتوں [اورآفات] کا زکرکیا گیا تو آپ نے فرمایا جب تک تم اس دشمن سے جس سے جہاد کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جہاد کرتے رہوگے اور جب تک تم بیت اللہ کا حج کرتے رہو گے اس وقت تک تمہیں آفات سے ڈرنے کی ضرورت نہیںہے۔(الاربعین فی فضل الجہاد لحافظ ابی الحسن المراوی)

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بوڑھے شخص لاٹھی ٹیکتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے ۔اے اللہ کے رسول میں بوڑھا ہو چکا ہوں ۔میری ہڈیاں کمزور اور طاقت کم ہو چکی ہے مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جس کے ذریعے میں اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکوں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا : تم اللہ کے راستے میں جہاد کو لازم پکڑو۔(ابن عدی ۔ ابن عساکر)
[زیادہ بوڑھے آدمی پر جہاد فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ حسب استطاعت جہاد کے کسی شعبے میں کام کرے اور جان قربان کرنے کے جذبے سے سرشار رہے تو یقینا وہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور بے شمار اجرو ثواب پائے گا]

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ جو شخص کسی ایسی جگہ کھڑا ہو جہاں وہ اپنے خالق [یعنی اللہ تعالیٰ ] کے لئے اپنی جان قربان کرنا چاہتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح درخت کے پتے ۔(ابن عساکر )

٭ حضرت سبرہ بن فاکہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک آدمی اسلام قبول کرنے لگتا ہے تو شیطان آکر اسے کہتا ہے کہ تو کیا کر رہا ہے کیا تو اپنے سابقہ دین اور اپنے آباء کے دین کو چھوڑ رہا ہے ؟ وہ آدمی شیطان کی بات کو نہیں مانتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے تو پھر شیطان اس کی ہجرت میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ یہ تو کیا کر رہا ہے؟کیا تو اپنا گھر اور اپنی زمین اپنا سامان چھوڑ کر جارہا ہے ؟ مگر وہ آدمی شیطان کی بات نہیں مانتا اور ہجرت کر لیتا ہے تب شیطان اس کے جہاد کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے آتا ہے اور کہتا ہے یہ تو کیا کر رہا ہے ؟ اپنی جان کو اس قدر مشقت میں ڈال رہا ہے مال بھی خرچ کر رہا ہے۔دیکھ اگر تو لڑا توتو مارا جائے گاتب تیری بیوی سے کوئی اور شادی کر لے گا اور تیرا مال پیچھے والوں میں بانٹ دیا جائے گا ۔مگر وہ آدمی شیطان کی بات نہیں مانتا اور جہاد میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے ایسا کیا پھر وہ مر گیا تو اللہ پاک نے اپنے ذمے لازم کر لیاہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔اسی طرح اگر وہ ڈوب کر مرا یا جانور سے گر کر مرا[ہر حال میں اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت کی ضمانت دی ہے ](مسند احمد۔ابن حبان)

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جب تک کافروں سے جہاد ہوتا رہے گا ہجرت بند نہیں ہوگی۔(مسند بزاربسند صحیح)

اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجاہد کو ہجرت کا اجر بھی ملتا ہے اگر چہ وہ اپنے شہر میں ہی کیوں نہ لڑرہا ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر [دینا میں ] تین چیزیں مجھے نصیب نہ ہوں تو میں مر جانے کو پسند کرتا ہوں (۱) جہاد میں چلنا (۲)اللہ تعالیٰ کے سامنے مٹی پر سجدے کرنا (۳)ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھناجو اچھی باتوں کواسی طرح اچک لیتے ہیں جس طرح عمدہ کھجور کو اچک لیا جاتا ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: وہ رات جس میں مجھے میری محبوب دلہن دی جائے یا اس میں مجھے بیٹے کی خوشخبری دی جائے مجھے اس سخت سردی اور بارش والی رات سے زیادہ محبوب نہیں ہے جس میں میں صبح دشمن پر حملے کا انتظار کر رہاہوں۔اے لوگو جہاد کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کئی بار جہاد فی سبیل اللہ کی مشغولیت نے مجھے قرآن مجید [کی زیارت وتلاوت ] سے روکے رکھا۔

[جہاد کے یہ تمام فضائل جو اس باب میں ہم نے پڑھے ہیں ان کی اصل پکار اور پیغام تو یہی ہے کہ مسلمان بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیں اور ان عظیم الشان فضائل کو حاصل کریں اورجہاد کے اصل مقام کو پہچان کر اپنی زندگیوں میں جہاد کو وہ حق دیں جس کا وہ مستحق ہے ۔اس دعوت کے علاوہ ان فضائل میں مزید تین سبق اور ہیں۔
(۱) ان فضائل میں پہلا سبق ان گناہگاروں کے لئے ہے جو اپنی زندگی کا بہت سا قیمتی وقت گناہوں اور غلاظتوں میں ضائع کر چکے ہیں ان مسلمانوں کے دل میں بھی ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ فکر ضرور پیدا ہوتی ہوگی کہ ہماری زندگی کا قیمتی وقت تباہ وبرباد ہو چکا ہے اور ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا اور ان کے دل میں بھی یہ شوق ابھرتا ہوگا ہم بھی نیک اور صالح مسلمانوں کی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی محبت اور جنت کے اعلیٰ مقامات حاصل کریں ۔ مگر وہ سوچتے ہوں گے کہ اب تو ہماری تھوڑی سی زندگی باقی ہے ہم اگر اس میں عبادت کر بھی لیں تو دوسرے مسلمانوں کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔اسی طرح براماحول بھی ان کی جان نہیں چھوڑتا ہوگا ۔یقینا ان فضائل کو پڑھ کر ایسے مسلمانوں کو روشنی اور امید کی کرن اور نجات اور ترقی کا راستہ ضرور نظر آگیا ہوگا ۔اور انہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ اگر ہم فوراً کمر باندھ کراللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جہاد میں نکل کھڑے ہوں تو ہمیں فرشتوں جیسا پاکیزہ اور اللہ کی محبت سے بھرا ہوا ماحول نصیب ہوجائے گا اور ہمارا ایک دن دوسرے لوگوں کی سالہاسال کی عبادت سے زیادہ افضل اور ہماری نیند دوسروں کی پوری رات جاگنے اور مسلسل روزے رکھنے سے افضل ہوگی اور اگر ہم نے چند لمحے دشمن کے ساتھ لڑلیا تو جنت ہمارے لئے واجب ہو جائے گی اور ہم قبر کی ہولناکیوں اور آخرت کے خوف سے محفوظ ہوجائیں اور اگر ہم زندہ رہے تو اللہ تعالیٰ کے ضمان اورذمہ داری میں ہوں گے اور اگر شہادت نصیب ہوگئی تو پھر ایسی لطف بھری زندگی کا آغاز ہو جائے گا جس میں مزے ہی مزے ہیں اور وہ ایسی زندگی ہے جس میں انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی مہمان نوازی کے مزے لوٹتا ہے ۔جب یہ سب کچھ معلوم ہو گیا تو اب دیر کس بات کی ۔ فوری طور پر گناہوں کی زندگی چھوڑیئے۔ سامان باندھیے اور جہاد کی حسین راہوں پر نکل پڑیئے۔

(۲) دوسرا سبق ان فضائل میں ان مسلمانوں کے لئے ہے جو اپنی ظاہری نیکوں ، نفلی عبادات اور دین کے مختلف شعبوں میں کام کی وجہ سے مجاہدین کو نعوذباللہ حقیر سمجھتے ہیں اور ان کے حقیقی مقام کو نہیں پہچانتے اور جہاد اور مجاہدین کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں ۔اس طرح کے لوگوں کو چاہئے کہ اپنی عبادات اور اپنی دینی خدمات پر فخر کرنے کی بجائے صرف ایک بار اللہ کی رضا کے لئے ان فضائل کو غور سے پڑھیں اور پھر اپنے طرز عمل پر غور کریں ۔ یقینا انہیں اپنے سا بقہ طرز عمل پر شرم آئے گی اور وہ جہاد کو حقیر سمجھنے کے گناہ سے توبہ استغفار کرلیں گے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوافل پڑھنا۔ دین کی خدمت کرنا ۔علمی کتابیں لکھنا ۔ دین کو پڑھنا پڑھانا یہ سب دین کے اہم شعبے ہیں بلکہ ان میں سے بعض توبنیادی حیثیت کے حامل ہیں ۔ لیکن اگر یہ سب کچھ اللہ کے لئے ہے ۔ اور اللہ کے دین کے لئے ہے تو پھر فطری طور پر اللہ کے دین کے محافظ فریضے اور مجاہدین سے ضرور محبت ہو گی اور اللہ تعالیٰ نے جہاد کے جو فرائض بیان فرمائے ہیں ان پر یقین ہوگا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے جو مقامات بتائے ہیں انہیں بھی وہ تسلیم کرتے ہوں گے دین نام ہے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا ۔
خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر وں میں جہاد اور مجاہدین کی جو اہمیت اور فضیلت تھی وہ کسی مسلمان سے مخفی نہیں ہے ۔ یہ حضرات اس قدر بلند درجات کے حامل ہونے کے باوجود مجاہدین کو رخصت کرنے ان کا استقبال کرنے کو سعادت سمجھتے تھے اور مجاہدین سے دعائیں کرواتے تھے۔اسی سے معلوم ہوا کہ اصل دیندار وہ ہوتا ہے جسے دین کے ہر شعبے اور ہر کام سے محبت ہوتی ہے اور وہ دین کے ایک ایک حکم کو اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ جہاد تودین کا بلند ترین مقام اور اہم شعبہ اور اسلامی فرائض میں سے ایک فرض ہے ۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی کے دل میں ایمان اور جہاد کی محبت نہ ہو ۔اگر کسی کے دل میں ایمان ہو اور جہاد کی محبت نہیں ہے تو اسے فوراً توبہ استغفار کرکے اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہئے اور آخرت میں اپنی نجات کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ ایسا شخص قرآن مجید کی سینکڑوں آیات ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں احادیث ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زندگی بھر کے عمل سے نفرت اور بے رغبتی رکھتا ہے جو کہ نہایت خطرناک بات ہے ۔
اس لئے اے معزز مسلمان ! مجاہدین کی غلطیاں دیکھ کر ، یا اپنی عبادت اور علم کے دھوکے میں پڑ کر یا جہاد اکبر اصغر جیسی باتوں میں الجھ کر یا فرض عین فرض کفایہ کے مسئلے میں پڑ کر خدانخواستہ جہاد کی توہین نہ کر بیٹھنا ۔ یاد رکھئے جہاد سے محبت ایمان کی نشانی ہے اگر اپنے ایمان کی حفاظت مقصود ہے تو تاویلوں اور جھوٹی مثالوں کا سہارا لے کر جہاد کو کم اہم نہ سمجھئے۔ ورنہ قیامت کا دن زیادہ دور نہیں ہے ۔
(۳)ان فضائل میں تیسرا سبق خود مجاہدین کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین سے کس قدر محبت فرماتے ہیں اور انہیں کتنے بڑے بڑے انعامات اور مقامات عطاء فرماتے یہ سب کچھ دیکھ کر ایک مجاہدکو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب جانا چاہئے اور ا سے اللہ تعالیٰ سے بہت شرم کرنی چاہئے اور اسے احساس تشکر سے ہمیشہ کے لئے اللہ کے سامنے جھک جانا چاہئے ۔
اے مجاہدو ! اللہ تعالیٰ نہ تو تمہارا متحاج ہے اور نہ تمہارے جہاد کا۔ اس نے ہی اپنے فضل و کرم سے تمہیں جہاد کی توفیق عطاء فرمائی ہے اور وہی تمہارے جہاد پر تمہیں بے پناہ اجرعطاء فرماتاہے۔ اور تو اور اس نے تمہاری نیند اور تمہارے گھوڑے کی لید کو قیمتی بنادیا ہے تو پھر تم کس طرح سے گوارا کر سکتے ہو کہ ایسے محبت کرنے والے رب کی نافرمانی کرو اور اس کے کسی حکم کو پس پشت ڈالو۔ان فضائل کو پڑھنے کے بعد تمہیں یہ عزم کر لینا چاہئے کہ یا اللہ آپ نے ہماری حقیر سی محنت پر ہمیں اتنا کچھ عطاء فرمانے کا وعدہ کیا ہے بھی یہ وعدہ کرتے ہیں کہ انشاء اللہ جہاد کے راستے کو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور نہ آپ کی کوئی اور نافرمانی کریں گے۔ ہم آپ کا شکر اداء کرنے کے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر سجدے کریں گے اور دن کو بھی آپ کی محبت میں بھوکے پیاسے پھریں گے۔ ہماری زبانیں ہر وقت آپ کانام لیتی رہیں گی اور آپ کے کلام کو پڑھتی رہیں گی اور ہمارے دل آپ کی عظمت سے اس طرح سے سر شار ہوں گے کہ آپ کے علاوہ کسی پر ہماری نظر سوال تک نہیں پڑے گی آپ نے جب ہمیں اتنانوازا تو اب ہم آپ کو ناراض کرنے کا تصور بھی کر سکتے ہم صرف آپ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں آپ ہی سے مانگتے ہیں آپ ہی کے سامنے جھکتے ہیں اور انشاء اللہ ہم پوری دینا کو آپ کے سامنے جھکائیں گے اور خود آپ سوا کسی سامنے نہیں جھکیں گے۔]
 
Top