جہاد النکاح! --- افسانہ یا حقیقت

متلاشی

محفلین
انتیس دسبر 2012 کو لبنان کے ٹی وی سٹیشن "
الجدید
" سے سعودیہ کے مشہور عالم شیخ محمد العریفی کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی ۔ جس کے مطابق انہوں نے شام میں مجاہدین کی جنسی تسکین کے لیے "جہاد النکاح" کو درست قرار دیا اور اس پر حوصلہ افزائی کی۔ گوکہ اس چینل نے اس فتوی کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا تھا ۔ لیکن یہودی و رافضی میڈیا اس خبر کو لے اڑا ،اور لبرلز و سیکولرز کو بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا ۔ ٹوئٹرپر مبینہ طور پر شامی مزاحمت کے مخالف ایک رافضی یوزر نے اس خبر کا
لنک
بمعہ انگلش ترجمہ شائع کیا اور یوں یہ مغربی میڈیا کے ہاتھ لگا۔شیخ محمد العریفی بشاری اقتدار کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں اور خلیج وسطی کے مسلمانوں کو شامی جہاد کی مدد کے لیے اکساتے رہتے ہیں ۔صرف ٹویٹر پر ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 35 لاکھ سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ لوگ ان کو فیس بک پر فالو کرتے ہیں ۔جنوری 2012 میں ان کی شامی جہاد کے بارے میں ایک ویڈیو کو 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا تھا ۔

یہودی و رافضی میڈیا کے لیے تو جیسے یہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کہ مترادف تھا۔ بغیر کسی
ثبوت کہ اس خبر کو ہر طرف پھیلا دیا گیا ۔ اور "روشن خیالوں کی ایک بڑی آرگنائزیشن پروگریسو کے میڈیا مرکز "الرٹ نیٹ" نے اس کو اپنے ہاں جگہ دی(الرٹ نیٹ اب یہ رپورٹ ڈیلیٹ کرچکا ہے)۔ جہاں یہ پوری دنیا میں بجلی کی تیزی کے ساتھ پھیل گئی۔ یہودی و رافضی میڈیا جو کہ اسلام و مسلمانوں کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ بھلا اس موقعے کو کہاں ہاتھ سے جانے دیتا تھا ! ایرانی پریس ٹی وی ، لبنانی و عراقی رافضی میڈیا اس خبر کو پھیلانے میں جت گیا اور یہودی و مغربی میڈیا ان کا مددگار۔ایرانی پریس ٹی وی نے اپنی ویب سائٹ پر فتوی سے متعلق ایک انگلش رپورٹ چھاپی اور ریڈیکل اسلام ڈاٹ اوآرجی نامی ادارے نے اس کوٹویٹر اکاونٹ کے لنک کے اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی(یہ سائٹ پاکستان میں بین ہے دیکھنے کے لیے پراکسی استعمال کریں) ۔یہ ویب سائٹ مبینہ طور پر مسلم مخالف ادارے کلرین کی مدد سے کام کرتی ہے جو کہ یہودی نواز ہے اور کچھ عرصہ قبل ایک مسلم مخالف فلم کی تقسیم میں بھی ملوث رہی ہے ۔
ایسی خبر اپنی نوعیت کی کوئی پہلی خبر نہ تھی اور نہ یہودی و مغربی ذرائع ابلاغ کا اس میں بغیر تحقیق کے بے پناہ دلچسپی کوئی پہلا معاملہ ۔ اس سے پہلے جولائی 2012 میں بھی ایک مغربی میگزین "دی ایڈوکیٹ" کی طرف سے یہ الزام سامنے آچکا تھا کہ بعض جہادی علماء نے جہاد کے دوران "ہم جنس پرستی " جیسے قبیح فعل کی اجازت دی ہے ! یہ فتاوی اور ان سے متعلقہ خبریں ایسی قبیح تھیں کہ کوئی ذی شعور مسلمان جو کہ جہادی معاملات کی ذرا سی خبر رکھتا ہو ان کو نہیں مان سکتا تھا ۔ شیخ محمد العریفی تک جب یہ خبریں پہنچیں تو انہوں نے پرزور الفاظ میں اپنے سے منسوب اس فتوی کی تردید کی۔ ٹوئٹرو فیس بک پر موجود ان کے تردیدی بیان کے مطابق ان سے منسوب یہ فتوی ایک گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے اور ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اور یوٹیوب پر موجود کئی خطبات میں اس فتوی کی پرزور تردید کی ۔چاہیے تو یہ تھا کہ اس تردید کے بعد یہ تمام سائٹز اور میڈیا مراکز اپنے اس فعل پر معافی مانگتے لیکن الرٹ نیٹ کے علاوہ کسی بھی اتنی توفیق نہ ہوئی ۔ الرٹ نیٹ نے واضح طور پر اس جھوٹی سٹوری کو بغیر تصدیق کے شائع کرنے پرمعافی مانگی ۔دوسرے میڈیا مراکز مثلا سیلون ڈاٹ نیٹ نے تین جنوری 2013 کو بغیر معافی مانگے یہ رپورٹ اپنی ویب سائٹ سے ڈیلیٹ کردی ۔ 3 جنوری کو ہی "ایم ایس این ڈاٹ کام" نے اپنی سٹوری کے ساتھ شیخ العریفی کا فتوے سے لاتعلقی کا بیان بھی شامل کیا ۔مغربی میڈیا مراکز کے اور بہت سے ادارے جو کہ اس سٹوری کو چھاپنے میں ملوث رہے ہیں معذرت یا تردیدی بیان شائع کررہے ہیں ۔ لیکن روافض ہیں کہ اپنے ازلی جھوٹ کے ساتھ آج بھی اس جھوٹ پر تلے ہوئے ہیں اور اس کو پورے دھڑلے سے بیان کرتے ہیں ۔! سچ ہے جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے جیسے رفض کے عقائد کی کوئی بنیاد نہیں ویسے ہی اس فتوی کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے-
لیکن معاملہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگیا کچھ دن پہلے ہی تیونس کے وزیر داخلہ کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ انہیں یہ شواہد ملے ہیں کہ تیونس سے کچھ لڑکیاں شام میں مجاہدین کی جنسی تسکین کے لیے بھیجی گئی ہیں ۔اور ان کو اجتماعی طور پر جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ اس خبر کو پھیلانے میں اے ایف پی کے ساتھ ساتھ سعودیہ نواز العربیہ نیوز کا بھی ہاتھ رہا ہے ۔ لیکن ہر جھوٹ کی طرح مجاہدین و شامی سرزمین پر موجود انسانی حقوق کی تنظیمیوں ورضاکاروں کے مطابق اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ ایسا کچھ ہوا ہے ۔ بلکہ یہ تیونسی حکومت کے اپنے ذھن کی اختراع ہے

اورتفصیلات کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل لنکز کا استعمال کریں ۔

جھوٹئے کے گھر تک جانے کے لیے دیکھیے
تیونسی وزیر داخلہ کے ذھنی مرض کے لیے دیکھیے
تیونسی سٹوری کی حقیقت جاننے کے لیے

لنک
 
Top