جھوٹی خبریں: غلط فہمی، گمراہی، نفرت اور قتل و غارت گری کا سبب

جاسم محمد

محفلین
جھوٹی خبریں: غلط فہمی، گمراہی، نفرت اور قتل و غارت گری کا سبب
ذیشان الحسن عثمانی بدھ 19 جون 2019
1709525-fakenewsx-1560918050-435-640x480.jpg

اگر کوئی خبر کسی قابلِ اعتبار شخص کی طرف سے بھی ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ وہ خبر بھی اتنی ہی قابلِ اعتبار ہوگی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج دن کا آغاز واٹس اپ کے اس میسیج سے ہوا: ’’کیا یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ چھ ممالک جرمنی، برطانیہ، امریکا، انڈیا، فرانس اور کینیڈا کے جو سفیر عراق کی تباہی کے وقت بغداد میں، لیبیا کی تباہی کے وقت طرابلس میں، اور شام کی تباہی کے وقت دمشق میں تعینات تھے، وہی آج پاکستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ایک طویل تقریر جس میں حب الوطنی کے تقاضوں اور امت مسلمہ کے خون کو گرمانے کے بعد اس میسیج کو زیادہ سے زیادہ آگے بھیجنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ ابھی میں میسیج لکھنے اور بھیجنے والے کی عقل پر ماتم کر ہی رہا تھا کہ یہی میسیج چھ مختلف لوگوں کی جانب سے پھر موصول ہوگیا۔ یہ سارے سنجیدہ، بردبار اور شعور رکھنے والے لوگ تھے اور میرے دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا۔

آج کے دور میں اگر کوئی خبر کسی قابلِ اعتبار شخص کی طرف سے ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ وہ خبر بھی اتنی ہی قابلِ اعتبار ہوگی۔ کسی بھی خبر کو آگے فارورڈ کرنے سے پہلے تھوڑا سا دماغ کا استعمال کرلیا کریں۔ جھوٹی خبریں کیا ہوتی ہیں؟ کیوں، کیسے اور کس لیے پھیلائی جاتی ہیں؟ کون سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اور انہیں ایک عام آدمی کیسے پہچان سکتا ہے؟ اس بحث میں جانے سے پہلے زیر نظر خبر پر غور کرلیتے ہیں۔

اس وائرل خبر کی صداقت کےلیے ہمیں بہت سارے شواہد درکار ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں چھ سفیر چاہئیں جو کم و بیش گزشتہ بیس سال سے حاضر سروس ہوں، پھر یہی چھ سفیر باری باری عراق، شام اور لیبیا کے بعد اب پاکستان میں بھی تعینات ہوں۔

عراق کی جنگ مارچ 2003 میں شروع ہوئی۔ لیبیا کے حالات فروری 2011 میں بگڑے، شام کی سِول وار کی اوائل مارچ 2011 میں ہوئی اور لیبیا کی خانہ جنگی باقاعدگی سے مئی 2014 میں شروع ہوئی۔ لہذا ان تمام سفیروں کا فروری سے مارچ 2011 تک ایک مہینے کے اندر اندر لیبیا سے شام تبادلہ ہونا ضروری ٹھہرا اور پھر 3 سال بعد مئی 2014 میں واپس لیبیا میں موجود ہونا لازم ٹھہرا۔ اور یہ بھی کہ یہ عراق جنگ کے دوران کبھی نہ کبھی بغداد میں رہے؛ اور حالیہ وقتوں میں پاکستان میں تو موجود ہیں ہی۔

چلیے، حال سے شروع کرتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت انڈیا کے ہائی کمیشن اجے بساریا ہیں جو اس سے پہلے لیتھونیا اور پولینڈ میں ہندوستانی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ نہ کبھی عراق میں سفیر رہے، نہ شام اور لبنان میں۔ پلوامہ حملے کے بعد واپس چلے گئے تھے اور ابھی حال ہی میں پاکستان واپس لوٹے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت برطانیہ کے ہائی کمیشن تھامس ڈریو ہیں۔ ان کی پہلی سفارتی پوزیشن بھی پاکستان میں ہی تھی جب یہ کونسلر کی خدمات انجام دے رہے تھے، 2004 سے 2008 کے درمیان۔ پھر یہ لندن ہوم آفس اور یورپین یونین میں خدمات انجام دیتے رہے اور اب واپس پاکستان میں، نہ عراق میں سفیر رہے، نہ شام، نہ لبنان۔ ان کے کیریئر کی شروعات ملٹی نیشنل کمپنی مک کنسی سے ہوئی۔

پاکستان میں اس وقت کینیڈین ہائی کمیشن وینڈی گلمور ہیں۔ یہ اس سے پہلے کینڈین ٹریڈ کنٹرول بیورو کی ڈائریکٹر جنرل تھیں اور سفارتی خدمات زمبابوے، موزمبیق، انگولا، بوٹسوانا، کوسووو اور بوسنیا میں انجام دیں، نہ عراق میں سفیر رہیں، نہ شام، نہ لبنان میں۔

پاکستان میں اس وقت فرانس کے سفیر ڈاکٹر مارک باریتی ہیں۔ انہوں نے سفارتی خدمات سعودی عرب، تیونس، کویت، عمان، ملائیشیا اور عراق میں انجام دیں۔ یہ عراق میں 2014 سے 2017 تک سفیر رہے لیکن جنگ کے 11 سال بعد۔

پاکستان میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر حال ہی میں ریٹائر ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے افغانستان، مصر، کمبوڑیا، لیبیا اور عراق میں خدمات انجام دی ہیں۔ یہ لیبیا میں اقوامِ متحدہ کے ایلچی کے طور پر نومبر 2015 سے جون 2017 تک میں رہے۔ خانہ جنگی شروع ہونے کے ڈیڑھ سال بعد اور عراق میں 2006 سے 2007 تک رہے، جنگ کے 3 سال بعد۔

پاکستان میں اس وقت امریکی سفیر کی خدمات پال جانز سر انجام دے رہے ہیں جنہیں چارج دی افیئر کا ٹائٹل ملا ہے۔ یہ اس سے پہلے سفارتی خدمات پولینڈ، فلپائن اور ملائیشیا میں انجام دے چکے ہیں۔ نہ عراق، نہ لبنان نہ شام۔

ٹرمپ کے بعد امریکا کی خارجہ پالیسی ویسے ہی زوال کا شکار ہے۔ امریکا کی 188 سفارتی پوزیشنوں میں سے 58 خالی ہیں۔ یقین جانیے کہ ان ملکوں کے پاس اگر اتنے ہی قابل افراد ہوتے کہ پورے پورے ملک تن تنہا تہس نہس کرسکتے تو بھی ان کےلیے درجنوں دوسرے کام ہیں بجائے اس کے کہ انہیں ہماری جیسی قوم پر تعینات کریں۔ دوست تو دوست، ہمیں تو دشمن بھی اس قابل نہیں ملے کہ ہم کچھ سیکھ سکیں۔

لیبیا کی خانہ جنگی سے پہلے وہاں امریکی سفیر جان کرسٹوفر اسٹیفن کو بن غازی حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا، 11 ستمبر 2012 کو، اب مردہ شخص تو قبر سے آکر پاکستان میں سفیر لگنے سے رہا۔ اس کے بعد ڈیبرا جونز سفیر بنیں جو کہ پاکستان میں گزشتہ امریکی سفیر رچرڈ اولسن کی بیوی ہیں۔ 2015 میں طرابلس میں ایمبیسی بند ہوجانے کے بعد یہ مالٹا چلی گئیں۔

عراق میں جنگ کے وقت وہاں امریکا کے سفیر جان نیگرو پونتے تھے اور ان کے بعد 2005 سے 2007 تک زلمے خلیل زاد جو حال ہی میں پاکستان آئے تھے۔

شام میں امریکی سفیر چارلس چک تھے اور یہ بھی کبھی سفارتی کام سے پاکستان نہیں آئے۔ جنگ کے دوران عراق میں جرمنی کے سفیر برنڈ اربل، شام میں اینڈر یاز ریسنی کے اور لبنان میں کرسٹین بک، عراق میں ہندوستان کے سفیر جنگ کے دوران شری برجی بھوشن تھے اور یہ بھی پاکستان میں تعینات نہیں رہے۔

آپ ان ناموں کو کھوجتے چلے جائیں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ پھیلایا جانے والا میسج جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اگر کسی حد تک کوئی چیز ان لوگوں میں مشترک ملے گی تو وہ ان میں سے کچھ کی تعیناتی اسرائیل اور پولینڈ میں ہے، اور اللہ کے فضل و کرم سے اسرائیل اور پولینڈ دونوں ماشاء اللہ پھل پھول رہے ہیں۔

آپ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس اپ پر ملنے والے مسیجز (پیغامات) کو تکنیکی بنیادوں پر یا سچ کے معیار پر پرکھتے چلے جائیے۔ ان میں سے اکثر سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں۔ یہ کبھی الطاف حسین کے انتقال کی خبر دیتے ہیں، کبھی ڈالر کی قیمت 200 روپے تک پہنچا دیتے ہیں، کبھی حکمران جماعت کو کفر کے پار چھوڑ آتے ہیں تو کبھی علمائے کرام کے خلاف طعن و تشنیع کا طوفان کھڑا کردیتے ہیں، کبھی فوج کے خلاف تو کبھی عوام کے۔ اور کچھ نہ ملے تو پھلوں اور سبزیوں سے دنیا کی ہر بیماری کا علاج۔ پاکستان جھوٹی خبروں (Fake News) کےلیے شاید دنیا میں موزوں ترین ملک ہے کیونکہ سچ بولنا اور کتاب پڑھنا تو یہاں پر تقریباً حرام ہے ہی، ساتھ میں ہمارا حافظہ بھی من حیث القوم نہ ہونے کے برابر ہے؛ اور جذبات میں تو ہم سے بڑھ کر کوئی ہے ہی نہیں۔

بدقسمتی سے دینی طبقہ بھی بغیر سوچے سمجھے ہر بات جو اسلام کے حق میں جاسکتی ہو اسے فارورڈ کر دیتا ہے، بھلے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ ان معجزاتی پیغامات میں بیچارہ سچ کہیں دب کر مرگیا ہے جس کی غائبانہ نماز جنازہ تک نہ ہوئی۔

جس ملک میں آپ 50 ہزار روپے دے کر 500 بندوں کا مجمع جمع کرسکیں، 20 ہزار میں 10 لاکھ موبائل فونز پر ایس ایم ایس بھیج سکیں، وہاں ہر خبر وائرل اور ہر Fake نیوز سچی ٹھہری۔ اور غلطی سے کوئی ’’بھٹکا ہوا‘‘ آدمی سچ لکھ بیٹھے یا خدانخواستہ بولنے کی جرأت کرلے تو سب اس کے دشمن!

آئیے دیکھتے ہیں کہ جھوٹی خبر کیا ہوتی ہے، کیوں پھیلائی جاتی ہے، کہاں سے شروع ہوئی اور اس کے سدباب کےلیے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔



خبر کسے کہتے ہیں؟
خبر کہتے ہیں ایسی معلومات (اطلاع) کو جو کسی واقعے، شخص یا جگہ سے متعلق ہو اور جس کے بارے میں عوام یا مخصوص لوگ جانکاری میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ مثلاً کسی جگہ آگ لگ گئی، کسی ملک نے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کردی یا الیکشن کا نتیجہ کیا نکلا؟

خبر کو 3 مختلف طریقوں سے پیش کیا جاسکتا ہے: حقیقت (Fact) کے طور پر، رائے (Opinion) کے طور پر اور علمی رائے (Informed Opinion) کے طور پر۔

حقیقت (Fact) سے مراد وہ خبر ہے جو بہ آسانی ثابت کی جاسکے کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ آپ کے پاس ثبوت موجود ہو کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں، مثلاً کسی شخص کا انتقال ہوگیا۔ اب ہم اس کی لاش دیکھ کر، اہل خانہ سے پوچھ کر بہ آسانی بتاسکتے ہیں کہ ایسا ہوا یا نہیں۔ یا مثلاً عمران خان الیکشن جیت گئے اور اس کا ثبوت ووٹوں کی گنتی ہے۔

رائے (Opinion) سے مراد کسی شخص کی ذاتی رائے ہے، جیسا وہ سوچتا ہے یا جو رائے اس نے ماحول، تربیت، مذہب، ملک یا تعلیم کی بدولت قائم کی۔ اس رائے کو قطعی طور پر ہم کبھی بھی ثابت نہیں کرسکیں گے، نہ تردید کرسکیں گے۔ مثلاً: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان دنیا کا سب سے عظیم ملک ہے۔

علمی رائے (Informed Opinion) بھی ذاتی رائے ہوتی ہے مگر اسے قائم کرنے والا شخص اس رائے کے ساتھ کچھ علمی ثبوت، واردات یا ماضی و حال کی مثالیں پیش کرتا ہے جن سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچ رہا ہے یا اس نتیجے پر کیسے پہنچا۔ مثلاً مضمون کے شروع میں موجود وائرل پیغام کو خبر بنا کر پیش کیا گیا اور ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ یہ پورا مضمون ایک علمی رائے ہی تو ہے کہ میں Fake News کو کیا سمجھتا ہوں اور اپنی اس رائے کے ساتھ علمی مثالیں اور شواہد فراہم کررہا ہوں۔

اگر ہم خبر کی ان تین جہتوں میں تمیز کرسکیں تو بات بہت آسان ہوجاتی ہے۔ آئیے، کچھ مزید مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

– ’’ہمسفر‘‘ پاکستان کا مشہور ترین ڈرامہ ہے۔ اب یہ ایک رائے(Opinion) ہے۔

– ’’ہمسفر‘‘ پاکستان کا سب سے زیادہ کمانے والا ڈرامہ ہے۔ اب یہ ایک حقیقت (Fact) ہے جسے بہ آسانی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ بات سچ ہے یا نہیں۔

– کراچی کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا بریانی ہے۔ جیسا کہ مقامی اخبار کے پول سے ثابت ہے۔ علمی رائے (Informed Opinion)

– پشاور کے چپلی کباب سب سے اچھے ہیں۔ رائے (Opinion)

– ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے قطعی طور پر ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان کا بہترین کھانا کونسا ہے۔ حقیقت (Fact)

– محمد حفیظ پاکستان کے بہترین بلے باز ہیں۔ رائے (Opinion)

– محمد حفیظ آئی سی سی رینکنگ میں دنیا کے بہترین بلے بازوں میں آٹھویں نمبر پر ہیں۔ حقیقت (Fact)

امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔



جھوٹی خبر (Fake News) کیا ہے؟
جھوٹی خبر سے مراد وہ خبر ہے جسے بگاڑ کر، جزئیات میں رد و بدل کرکے یا مکمل طور پر غلط معلومات پر بنا کر سچ کے طور پر پیش کیا جائے۔ جھوٹی خبروں (Fake News) کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً کسی کو ایسی بات بتائی جائے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو، یا جزئیات میں ترمیم کرکے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیا جائے، یا اصل بات وہی ہو مگر سیاق و سباق (Context) بدل دیا جائے جس سے اس بات کی حقیقت و نتیجہ یکسر بدل جائے۔ مثلاً اگر کوئی عالم یہ بیان کرے: ’’مسجد مت جاؤ، اگر تم ناپاکی کی حالت میں ہو۔‘‘ اب آپ اس کی آڈیو یا ویڈیو میں سے صرف یہ جملہ نکال کر پھیلادیں کہ وہ کہہ رہے ہیں ’’مسجد مت جاؤ‘‘ تو اب یہ سچ ہے کہ انہوں نے ایسا کہا ہے، آپ کے پاس آڈیو/ ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے مگر پھر بھی یہ جھوٹ باندھنا ہی ہوگا کہ آپ نے ان کی آدھی بات حذف کر دی اور اسے سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا۔

فیک نیوز کی قسموں میں ایک قدرے کم نقصان دہ قسم، مزاحیہ یا طنزیہ خبروں پر مشتمل ہوتی ہے کہ کسی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لکھنے والے، چھاپنے والے اور پڑھنے والے، سب کو پتا ہوتا ہے کہ یہ بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہے مگر لوگ پھر بھی پڑھتے ہیں کہ مزہ ملے۔ THE ONION اس کی ایک مقبول ویب سائٹ ہے۔

فیک نیوز کی ایک قسم ڈیجیٹل فوٹو اور ویڈیو ایڈیٹنگ بھی ہیں جس میں آپ کسی بھی شخص یا بلڈنگ کی تصویر کو کمپیوٹر میں ایڈیٹ کرکے تبدیل کر دیتے ہیں۔ مثلاً: سنگاپور میں ایک شخص نے مشہور بلڈنگ کی چھت کو تباہ شدہ دکھا کر ملک میں افراتفری مچادی، جب پولیس، فائر بریگیڈ اور ایمبولینس وہاں پہنچے تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا اور ساری وائرل خبریں ایک تحریف شدہ تصویر پر مبنی تھیں۔

آپ کسی بھی لیڈر کو دنیا میں کسی کے ساتھ کھڑا دکھا دیجیے، اس کے ہاتھ میں موجود اپیل جوس کو شراب سے بدل دیں یا ساتھ کھڑی لڑکی کو کسی اور سے ملا دیں اور ایک نیا اسکینڈل بنا ڈالیں۔ فیس بک اور واٹس اپ پر کتنے ہی جاننے والوں کے گھروں کو تباہ ہوتے دیکھا کہ انہیں کسی نے ان کی بیٹی، بیوی اور بہن کی تحریف شدہ تصویریں بھیج دیں اور جھوٹی غیرت کے علم بردار مارنے مرنے پر تل گئے۔

fake-news-03-deepfake-1560918131.jpg


اور اب تو Deep Fake کے ذریعے آپ کسی بھی شخص کی ویڈیو بنا سکتے ہیں اور آپ جو چاہیں، وہ بولے گا۔ اب کون کس کس کو ثبوت دیتا پھرے!

رانگ نمبر پر گھر سے بیویوں کو نکال دینے والی قوم، دل پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں ان کی بیگم کی تحریف شدہ تصویریں ملیں اور وہ صبر و عقلمندی سے کام لیں۔ میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوانے کا شیطان کا پسندیدہ کام جتنا ایڈوبی فوٹو شاپ نے آسان کردیا ہے، اتنا تو ہزاروں سال میں اس کے چیلے نہ کرسکے۔

امریکا کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس نے میڈیا فارنسک (MediFor) کے نام سے Deep Fake ویڈیو کو پرکھنے کا ٹول نکالا ہے۔ مگر ہم کیوں پڑھیں، ہمیں جمعہ کو مبارک بنانے سے فرصت ملے تو ہم کچھ اور پڑھیں ناں! اتنے لوگ ہمارے ملک میں نماز نہیں پڑھتے جتنے جمعہ کو مبارک باد کے میسیجز بھیجتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان دن کے دو ارب میسیجز بھیجتا ہے؟



Fake News کے نقصانات
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وقتی طور پر ازراہِ تمسخر یا مذاق میں بھیجے جانے والے پیغامات کا کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے؟ جی ہاں، ان مختصر جھوٹے پیغامات کے بڑے سچے نتائج نکلتے ہیں۔

خواجہ آصف نے ٹویٹر پر اسرائیلی ڈیفنس منسٹر اویگدور لیبر مین کی فیک نیوز پر اسرائیل پر نیوکلیئر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیل کی ڈیفنس منسٹری نے بعد میں تصدیق کردی کہ ایسا کوئی بیان ان کے کسی منسٹر نے نہیں دیا۔ اب بتائیے، ایک چھوٹی سی فیک نیوز سے دو ممالک میں نیوکلیئر جنگ چھڑ سکتی تھی اور پاکستان جیسے ’’عظیم الشان‘‘ ملک کے دفاعی وزیر کو اتنی عقل تو ہونی ہی چاہیے کہ کس خبر کو سچ مانیں اور ٹوئٹر پر کیا بات کریں۔

امریکا میں 2016 الیکشن کے دوران ٹاپ 20 فیک نیوز نے ٹاپ 20 حقیقی نیوز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بزنس کیا۔ ایک فیک نیوز قارئین کی توجہ اپنی سائٹ کی جانب مبذول کروا کر ہر خبر پر دس ہزار سے تیس ہزار ڈالر تک اشتہارات کی صورت میں کماسکتی ہے۔ یعنی 15 سے 45 لاکھ روپے ہر جھوٹی خبر پر، اسی دنیا میں جہاں سچ کوڑیوں کا بھی نہ رہا۔

ہندوستان میں حالیہ الیکشن میں فیک نیوز کے نقصانات کا مجھے ذاتی تجربہ ہوا۔ ہندوستان میں مودی جی کی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف بول بول کر خوب ووٹ اکٹھے کیے۔ ایک ستم ظریف نے میری تصویر وہاں کے ہندو کٹر لیڈر یوگی ادھیاناتھ کی ٹیم کے حوالے شیئر کرادی۔ انہوں نے دھڑا دھڑ جھوٹی خبریں میری تصویر لگا لگا کر واٹس اپ اور سوشل میڈیا پر وائرل کردیں کہ میں ہندوستانی نوجوانوں کو لڑائی پر ابھارتا ہوں، میرا اصل نام محمد احمد ہے اور میں ہیماچل پردیش میں رہتا ہوں۔ صرف فیس بک پر یوگی سنھا کے پیج پر یہ فیک نیوز 8 ہزار سے زائد مرتبہ شیئر ہوئی اور مجھے 200 سے اوپر قتل کی دھمکیاں ملی۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں گالیاں الگ۔ یوگی جی اتر پردیش کے وزیراعلی بن گئے اور میرے نصیب میں سوائے دھمکیوں اور گالیوں کے کچھ نہ آیا۔

fake-news-01-1560918126.jpg


fake-news-02-1560918129.jpg


ہم پاکستانی من حیث القوم حاسد قوم ہیں، کسی کی مصیبت میں اس پر مزید ظلم کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے، اور اگر خدانخواستہ کوئی ’گورا‘ آپ کی برائی کردے تو اس کا کہا، وحی سے بڑھ جاتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں ہر اس شخص سے جو میرے بارے میں تجھ سے نہ ڈرے، آمین۔

واٹس اپ پر فیک نیوز وائرل ہوجانے کے بعد ظلم و زیادتی اور قتل کی وارداتیں اب عام ہوچکی ہیں۔ خواہ وہ ہندوستان ہو، امریکا ہو یا برازیل، دنیا کا کوئی ملک اس سے مستثنی نہیں۔ ہمیں یہ خبریں آگے شیئر کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ کسی کی جان ہی نہ لے لیں، یا کسی کی ذہنی تکلیف و اذیت کا باعث نہ ہوں۔



فیک نیوز کی تاریخ
دستاویزی تاریخ میں فیک نیوز کا پہلا استعمال 13 ویں صدی قبلِ مسیح میں ملتا ہے جب مصر کے فرعون ریمیسنر اعظم نے کادش کی لڑائی میں اپنے آپ کو ایک عظیم جنگجو ثابت کرنے کےلیے اپنی لڑائی کے مناظر اپنے محلات پر کندہ کروالیے جبکہ اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگوں پر اس کی عسکری صلاحیتوں کا رعب بیٹھے۔

غزوہ احد میں رسالت پناہ حضرت محمدﷺ کی شہادت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی تاکہ مسلمان دل برداشتہ ہوکر ہتھیار پھینک دیں۔ واقع افک کی تفصیلات تو سب کو معلوم ہی ہیں جس کا جواب براہِ راست قرآن نے دیا۔

1475 عیسوی میں اٹلی کے ایک شہر ٹرینٹ میں ایک فیک نیوز پھیل گئی کہ یہودیوں نے ایک کرسچن ڈھائی سالہ بچی کو مار ڈالا تاکہ اس کے خون سے اپنی عبادت کرسکیں۔ خود اس وقت کے پوپ اسکٹس نے اس کی تردید کی مگر اس کے باوجود شہر بھر کے یہودیوں کو گرفتار کرکے زد و کوب کیا گیا اور 15 کو زندہ جلا دیا گیا۔

1610 عیسوی میں جب گیلیلیو پر مقدمہ چلا تب فیک نیوز کی تصدیق کی قانونی ضرورت محسوس ہوئی۔

1835 عیسوی میں نیویارک سن نے چاند پر خلائی مخلوق کی موجودگی کی خبر لگا دی۔ انیسویں صدی کی جنگ عظیم اول میں جرمن مخالفت میں انگلش اخباروں نے نیوز لگا دی کہ جرمن دورانِ جنگ مرجانے والوں کے جسموں سے تیل اور صابن بنا لیتے ہیں تاکہ عوام الناس کے جذبات بھڑکا کر جنگ کی راہ ہموار کی جاسکے۔

بینجمن فرینکلن، جو امریکا کے بانیوں میں سے ایک ہیں، ایک عرصے تک ریڈ انڈین اور مقامی (Native) امریکنز کے خلاف فیک نیوز لکھتے رہے تاکہ امریکن ریوولوشن کی راہ ہموار ہو۔

1803 عیسوی میں لندن کے میئر سر چارلس پرائز کو لارڈ ہاکس بری کا خط کہ فرانس کے ساتھ جنگ ختم ہونے کا معاہدہ ہوچکا ہے، جھوٹ پر مبنی تھا تاکہ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

سیکڑوں مثالیں ہمیں تاریخ سے مل جائیں گی۔ آپ خود ہی سوچیے کہ پاکستان کی جنگ کی خبریں اور عدم استحکام کے واٹس اپ مسیجز کس کو فائدہ پہچائیں گے اور ہمیں معاشی طور پر کیسے غیر مستحکم کریں گے۔



فیک نیوز اور اسلام
فیک نیوز کی جتنی زیادہ ممانعت اسلام نے کی ہے اور جتنا برا اسے اسلام نے بتایا ہے، کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ لوگوں کی عزت و نسب اور جان و مال اور آبرو کی حفاظت و صیانت پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جو انسانی عزت و آبرو کے حق کی نفی کرے؛ اور غیبت، بہتان، الزام تراشی، چغلی، جھوٹ بولنے، افوہیں پھیلانے اور لوگوں کی باتیں بغیر تحقیق ادھر ادھر کرنے کو منکر بتاتا ہے۔

واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں، فیک نیوز کے سد باب کےلیے اسلامی احکام و عقائد کی پابندی اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔

فحش اور بے ہودہ باتوں سے کنارہ کشی کی تو اسلام ترغیب دیتا ہے۔ فیک نیوز باقی دنیا کےلیے تو کھیل تماشا ہوسکتی ہے لیکن اس سے انکار ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ پاک، قرآن میں کیا کہتا ہے:

’’اور جب بے ہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے، اور کہہ دیتے کہ ہمارے عمل ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم پر سلامتی ہو، ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔‘‘ (سورۃ القصص، آیت 55)

اب دیکھیے کہ سورۃ الحجرات میں کیا کہا گیا ہے: ’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذأ پہنچا دو۔ پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘

سورۃ النساء دیکھیے، آیت 83 میں اللہ رب العزت کہتا ہے: ’’جہاں انہیں کوئی خبر امن یا خوف کی ملی، انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے۔ تو وہ لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں، اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو چند لوگوں کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘

اور سورہ نحل دیکھیے، آیت 43 میں اللہ جل شانہ کہتے ہیں: ’’اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔‘‘

سورہ نور کی آیت 14 تا 17 میں دیکھیے، اللہ تعالی کہتے ہیں: ’’اگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر دنیا و آخرت میں نہ ہوتی تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے، اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ جبکہ تم اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے، اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی۔ گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے، لیکن اللہ تعالی کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی، تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں، یااللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان اور تہمت ہے، اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو۔‘‘

آدمی کو ہر سنی سنائی بات آگے بیان نہیں کرنی چاہیے۔ الدر المنثور میں سعید بن جبیرؒ کا قول ہے: ’’جس شخص نے بھی اس قول و فعل یا مال و دولت سے حصہ لیا۔ اس کے پھیلنے میں مدد کی، یا اسے پسند کیا اور سراہا، اور اس سے اپنی خوشی اور رضا مندی ظاہر کی تو وہ اس گناہ میں بقدر حصہ ذمہ دار ہوگا۔‘‘

اللہ نے اہل ایمان کی خوبی بیان کی ہے کہ وہ صرف صحیح معلومات پر ہی اعتماد کرتے ہیں: ’’اسے سنتے ہی مومن مرد و عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی، اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔‘‘ (سورۃ النور، آیت 12)

جھوٹی خبروں کی ترویج کی ممانعت حدیث میں بھی آئی ہے، بخاری شریف کی حدیث ہے:

’’نبی کریمﷺ نے خواب میں دیکھا: دو فرشتے آپ کو لے کر ایک ایسے شخص کی جانب چلے جو گدی کے بل چت لیٹا ہوا تھا، اور اس کے پاس ایک اور شخص (فرشتہ) لوہے کا ترشول لیے کھڑا تھا۔ پھر وہ اس کے منہ کے ایک طرف جا کر اس کا جبڑا گدی تک پھاڑ ڈالتا، نتھنے اور آنکھ کو بھی اسی طرح گدی تک چیر دیتا، پھر دوسری جانب پلٹ کر ایسا ہی کرتا تھا جیسا کہ پہلی جانب کیا تھا، اور ایک طرف چیر کر فارغ نہیں ہوتا کہ دوسری طرف کا حصہ بالکل درست ہوکر اپنی اصل حالت پر آجاتا تھا، پھر وہ اس کی طرف پلٹ کر ایسا ہی چیرتا پھاڑتا جیسا کہ پہلی بار چیرا پھاڑا تھا۔ نبی اکرمﷺ کہتے ہیں، تو میں نے اپنے ساتھ والے دونوں فرشتوں سے پوچھا، سبحان اللہ، یہ دونوں کون ہیں؟ تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ وہ شخص جس کے پاس آپ آئے اور جس کا جبڑا اور نتھنے گدی تک چیرا جارہا تھا وہ ایسا شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور ایسا جھوٹ بولتا جو دور دور تک پھیل جاتا۔‘‘

اس حدیث کو دیوار پر فریم کروا کر لگا دیجیے اپنے بیڈروم میں اور پھر کیجیے واٹس اپ کا استعمال جتنا کرنا ہے۔

مسلم کی مشہورحدیث ہے: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کےلیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق) بیان کرے۔‘‘

اسلام نے تو افواہیں پھیلانے والوں پر تعزیر تک کی اجازت دی ہے۔



فیک نیوز کی پہچان
کسی خبر کو پرکھنے اور جانچنے کےلیے مندرجہ ذیل امور پر غور کرلیجیے:

1- اس خبر کو پڑھنے کے بعد آپ کا ردعمل کیا ہے؟ کیا آپ بہت زیادہ جذباتی، نا امید، پرامید، یا غم محسوس کررہے ہیں۔ اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو بہت ممکن ہے کہ یہ فیک نیوز ہے۔

2- آپ نے یہ خبر کہاں پڑھی؟ اخبار میں؟ کیا وہ ایک معتبر جریدہ ہے؟ فیس بک پر، ٹویٹر یا واٹس اپ پر؟ اگر خبر کی اشاعت سوشل میڈیا پر ہوئی تو انتہائی محتاط رہیے۔

3- کیا خبر کی ہیڈلائن جذبات کو برانگیختہ کرنے کا سبب بنی؟ کیا اس میں بہت سارے ایموجیز یا CAPS کیریکٹرز کا استعمال کیا گیا ہے؟ کیا ایسی زبان استعمال کی گئی ہے کہ آپ کو کوئی خفیہ بات بتائی جارہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو زیادہ امکانات ہیں کہ یہ فیک نیوز ہے۔

4- کیا یہ خبر آسانی سے شیئر کرنے کےلیے بنائی گئی ہے یا آپ کو اسے شیئر کرنے کا کہا جارہا ہے؟

5- کیا یہ کوئی طنزیہ یا مزاحیہ خبر ہے؟

6- اس خبر کو کس نے چھاپا؟ مصنف کون ہے؟ کیا ادارے اور مصنف کا نام ساتھ لکھا ہوا ہے؟ کیا ویب سائٹ پر ویب سائٹ کے مالک کی تفصیل یا رابطہ کرنے کی معلومات موجود ہیں؟

7- کیا تمام واقعات تاریخ اور کردار اصلی ہیں؟

8- کیا خبر میں کسی اور ثبوت یا اخبار کو لنک کیا گیا ہے؟

9- آپ اس خبر کی صداقت کو مشہور فیکٹ چیکنگ (Fact Checking) ویب سائٹ سے چیک کرلیجیے۔ مثلاً FACTCHECK.ORG اور SNOPES.COM۔



ہمارے کرنے کے کام
جھوٹی خبروں کے اس دور میں ان کو روکنے، ان کی جانکاری اور فلاح عامہ کےلیے ہمیں مندرجہ ذیل کام کرنے چاہیے۔

1- فیک نیوز کو رپورٹ کیجیے۔ سوشل میڈیا پر فلیگ کردیجیے۔ اپنے سوشل میڈیا پر فیک نیوز لکھ کر شیئر کردیں۔ جہاں شائع ہوتی ہے وہاں فیک نیوز لکھ کر کمنٹ کردیں۔

2- مزید آگے شیئر نہ کریں۔

3- صحیح خبر کو شیئر کردیں جو فیک نیوز کی کاٹ کرسکے۔

4- بھیجنے والے کو مطلع کردیں کہ یہ فیک نیوز ہے اور اسے آگے شیئر نہ کیا جائے۔

5- حکومتی سطح پر ایسی خبروں کی اشاعت روکنے اور مانیٹرنگ کا ادارہ بنا دیا جائے۔

6- زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان موضوعات پر تعلیم دی جائے۔

7- اس بارے میں پڑھیے۔ مثلاً نیوز لٹریسی پروجیکٹ اور ڈس انفو لیب اچھی جگہیں ہیں۔

8- علمائے کرام جمعے کے خطبات میں اس طرف لوگوں کی توجہ دلائیں۔

9- اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں اس موضوع پر کورسز اور سیمینار منعقد کرائے جائیں۔

یاد رکھیے، بدترین جھوٹ ہے جب کوئی یہ سمجھ رہا ہو کہ آپ سچ بولتے ہیں۔ ہر خبر جو کسی قابلِ اعتبار شخص کی طرف سے ملے، آج کی دنیا میں بغیر تحقیق کے نہ مان لیا کریں۔

اگر آپ اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
ہم پاکستانی من حیث القوم حاسد قوم ہیں، کسی کی مصیبت میں اس پر مزید ظلم کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے، اور اگر خدانخواستہ کوئی ’گورا‘ آپ کی برائی کردے تو اس کا کہا، وحی سے بڑھ جاتا ہے۔
صاحبِ تحریر تو خود opinionated لگتے ہیں جو اتنا بڑا بیان داغ دیا۔ انہیں چاہیے کہ اپنی تحریر کو خود بھی بار بار پڑھیں تاکہ ان پر بھی رائے، حقیقت، علمی رائے اور جھوٹی خبر کا فرق واضح ہو سکے۔
 
Top