(جينوئن شعرا سے بصد احترام و معذرت کے ساتھ)

شعیب گناترا

لائبریرین
(جينوئن شعرا سے بصد احترام و معذرت کے ساتھ)

کسی دلی يا دماغی چوٹ کے باعث منہ کے راستے موزوں کلام اگلنے والی توپ کو شاعر کہتے ہيں۔ تاريخ کے ہر دور ميں اس کا وجود ثابت ہے۔ اور يہ واحد پيداوار ہے جس کا کبھی قحط نہيں پڑا۔ ہميشہ افراط ہی رہی ہے۔ کوئی انسان اچانک شاعر کيسے بن جاتا ہے اس بارے ميں محققين ميں اختلاف رائے پايا جاتا ہے۔ بہرحال اس پہ ان کا اتفاق ہے کہ جس طرح دماغ چلنے کے کئی عوامل ہوتے ہيں اسی طرح شاعر بننے کے بھی مختلف اسباب و عوامل ہو سکتے ہيں۔

اہل نظر شاعر کو دور سے اور با ادب گفتگو سے پہچان ليتے ہيں۔ پھر بھی اس کی چند موٹی موٹی نشانياں يہ ہيں کہ شاعر بننے کے بعد يہ اپنے نام ميں کسی عجيب و غريب لفظ کا اضافہ کر ليتا ہے۔ جسے تخلص کا نام ديا جا تا ہے۔ (بعض تخلص پہلے رکھتے ہيں اور شاعری بعد ميں شروع کرتے ہيں۔) يہ تخلص عموماً ايسا ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ سننے والا چونک اٹھتا ہے۔ ہوتا يوں ہے کہ وہ بھولا بھالا لڑکا جسے آپ عبدالرشيد کے نام سے جانتے ہيں بلکہ وقتاً فوقتاً اسے شيدا کہہ کر سگريٹ بھی منگواتے رہتے ہيں اچانک پتہ چلتا ہے کہ وہ عبدالرشيد اب بھولا بھالا شيدا نہيں رہا بلکہ اب عبدالرشيد آزردہ ہو گيا ہے۔ آپ لاکھ اس آزردگی کا سبب جاننے کی کوشش کريں مگر وہ وضاحت نہيں کرتا۔

کسی کے شاعر ہونے کی سب سے بڑی نشانی يہ ہے کہ وہ بولتا بولتا سوچوں ميں کھو جائے گا۔ اور جب بولے گا تو آفاقی مسائل پر بات کرے گا۔ ليکن بے چارے کے ذاتی مسائل بھی اس سے حل نہ ہو رہے ہوں گے۔

پرانے زمانے ميں شاعروں کا حليہ خاندان والوں سے کم اور نفسياتی مريضوں سے زيادہ ملتا تھا۔ مہينوں غسل خانے، نائی اور آئينے کا منہ نہ ديکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے انکی داڑھی، سر کے بال اور مونچھوں ميں خط عليحدگی کھينچنا کار دارد ہوتا تھا۔ وہ عموماً صرف شاعری ہی
کرتے تھے اسی ليے ان کی ازدواجی زندگی مرثيوں سے بھری ہوتی تھی۔ يہ لوگ دانت خراب کرنے کے ليے پان کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ اور ميسر ہو تو انگور کی بيٹی سے بھی چھيڑ چھاڑ کر ليتے تھے۔

آج کل شاعر، شاعر کم اور بيوروکريٹ نظر آنے کی کوشش زيادہ کرتے ہين۔ اکثر گورنمنٹ سروسز کے شوقين ہوتے ہيں کہ مشق سخن کے ليے زيادہ سے زيادہ وقت مل سکے۔ يہ دانت، معدہ اور دل تباہ کرنے کے ليے سگريٹ، پائپ، کافی اور چائے کا استعمال تھوک کے حساب سے کرتے ہيں۔

ايک شاعر عملی زندگی ميں جتنا بےعمل ہوتا ہے شاعری ميں اتنا ہی باعمل ہوتا ہے۔ اس کے ارادے، خواہشات اور مقاصد عموماً ممکنات کی سرحد کے پار واقع ہوتے ہيں۔ مگر جب قلم و قرطاس اس کے ہاتھ ميں ہوتا ہے تو وہ کارنامے سر انجام ديتا ہے کہ بڑے بڑے سورما چيں بول جاتے ہيں۔ يہ چاہے تو آہ سے آندھی چلوا دے، جنگل جلا کر راکھ کر دے، پوری دنيا آنسوؤں کے سيلاب ميں غرق کر دے، محبوب کا جلوہ دکھا دے اور صور پھونک دے۔ محبوب کی جھلک دکھائے اور مرتے ہوؤں کو قبر سے کھينچ لائے يا موڈ ميں آئے تو سمر قند و بخارا کے بادشاہ سے پوچھے بغير محبوب کے ايک خال کے بدلے ہديہ کر دے۔ محبوب کی کمر کو يوں غائب کر دے جيسے ملک سے ايمانداری، دل چاہے تو محبوب کے ماتھے پر صرف ستارے ہی نہيں بلکہ پورا نظام شمسی سجا دے اور چاہے تو محبوب کو باغ کی سير کرا کے پھولوں کو احساس کمتری ميں مبتلا کر دے۔ بڑے سے بڑا عالمی تنازعہ جب ايک شاعر کے سامنے آتا ہے تو وہ محض ايک
شعر يا ايک نظم ميں حل پيش کر ديتا ہے۔

شاعر کا مشق سخن کرنے تک کا عمل نہايت پر امن ہے، نقض امن کا مسئلہ اس وقت پيدا ہوتا ہے جب شاعر يہ شاعری سنانے پر تل جاتا ہے۔ يہ صورت حال اس وقت زيادہ گھمبير ہو جاتی ہے جب شاعر نيا نيا ہو اور اور آس پاس کوئی مشاعرہ ہو نہ کوئی باذوق ۔اس وقت اس کی حالت کچھ اس مرغی جيسی ہوتی ہے جس نے انڈا دينا ہو اور کوئی مناسب جگہ نہ مل رہی ہو۔ ايسی صورت ميں پھر جو شخص شاعر کے ہتھے چڑھ جائے اسے اس کی شاعری کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ايسے ہی کسی شاعر کے گھر غلطی سے کوئی چور گھس آيا۔ مال وغيرہ تو بے چارے کو کيا ملتا شاعر جو اس وقت مشق سخن ميں مصروف تھا اس نے اس کو پکڑ ليا اور لگا دھمکياں دينے، حوالے پوليس کرنے کی۔چور نے منت سماجت کی اور کہا کہ چرايا تو ميں نے کچھ بھی نہيں پھر تم خود ہی کوئی سزا دے لو، حوالے پوليس نہ کرو۔ يہ بات کر کے گويا چور نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی۔ شاعر اپنا ديوان کھول کے بيٹھ گيا اور شروع سے سنانے لگا۔ ابھی دس بارہ غزليں ہی ہوئی ہوں گی کہ چور چيخ پڑا کہ خدا کے ليے بس کرو اور مجھے پوليس کے حوالے کر دو۔ ليکن تب تک شاعر کے دل کا بوجھ بہت حد تک ہلکا ہو چکا تھا۔

شاعر دماغ رکھتے ہيں يا نہيں يہ بحث طلب ہے۔ کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ دماغ کے بغير کوئی شاعری کيسے کر سکتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ دماغ کے ہوتے ہوئے کوئی شاعری کيسے کرے گا۔ ہر موقف کے حامی ٹھوس دلائل رکھتے ہيں مگر ہم نے سنا ہے کہ ايک دفعہ کچھ لوگ جنگل ميٕں آدم خوروں کے ہتھے چڑھ گئے اور ان لوگوں کو سالم پکانے کے بعد سردار کی خدمت ميں پيش کيا گيا۔ سردار ان ميں سے ايک شخص سے ڈنر کرتے ہوئے جب اس کی کھوپڑی تک پہنچا تو اسے خالی پايا۔ اسے انسانوں کو کھاتے ايک زمانہ بيت گيا تھا مگر ايسا واقعہ کبھی نہ ہوا تھا۔ متجسس ہو کر اس نے اپنے نائب کو تحقيق کرنے کے ليے کہا۔ آنجہانی ہونے والے افراد کے سامان کی پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ خالی کھوپڑی والا شاعر تھا۔

شاعروں کی خوراک کے بارے ميں بھی پہلوانوں کی طرح خاصی مبالغہ آميز حکايات مشہور ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ ان کی خوراک صرف داد ہے۔ اگر ايک شاعر سے آپ تين ٹائم شاعری سن کر واہ واہ کہہ ديں تو وہ لمبا عرصہ کھائے پيئے بغير زندہ رہ سکتا ہے۔ ليکن آپ اس کو دنيا جہان کی ہر چيز کھلا ديں ليکن داد نہ ديں تو وہ بھوکا رہے گا۔ اگر آپ کسی شاعر سے انتقام لينا چاہتے ہيں تو پھر اکثر و بیشتر اس کی شاعری سنتے رہيں ليکن کبھی اسے بھول کر بھی واہ واہ نہ کہيں۔ کسی نہ کسی دن اسے خود ہی اختلاج ہو جائے گا۔

دنيا ميں ہر مخلوق کی لاتعداد اقسام پائی جاتی ہيں شاعر بھی اس سے مستثنٰی نہيں۔ مزاج، انداز اور طريقہ واردات کے تحت ان کی بھی کئی اقسام ہيں۔ جن ميں سے چند ايک کا حال آپ کی عبرت کے ليے درج کيا جا رہا ہے۔

نرا شاعر

جيسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ يہ نرا شاعر ہوتا ہے يعنی شاعری کے علاوہ کچھ بھی نہيں کر سکتا۔ اسے خالص شاعر بھی کہہ سکتے ہيں چونکہ اسے اکثر و بیشتر فاقے سے لطف اندوز ہونا پڑتا ہے۔ اس ليے اس کی شاعری ميں بلا کا درد و سوز ملتا ہے۔ يہ شاعر باآسانی کوئی بھی مشاعرہ لوٹ ليتا ہے۔ ليکن محلے کے دکاندار سے ادھار تک حاصل نہيں کر سکتا۔ انکی بيشتر زندگی مقروض گزرتی ہے يا پھر يہ شاعری بيچ کے گزارہ کرتے ہيں۔ غالب، ساغر صديقی اور اقبال ساجد جيسے شاعروں کو اس کيٹيگری ميں رکھا جاسکتا ہے۔

عاشق کم شاعر

يہ عموماً بے روزگار ہوتے ہيں اور پارٹ ٹائم عشق سے پورا ٹائم پاس کرتے ہيں۔ عشق کی منزليں طے کرتے کرتے جب يہ رانجھے يا مجنوں کے انجام کے قريب پہنچ جاتے ہيں تو ترقی کر کے شاعر بن جاتے ہيں۔ ان کی شاعری عموماً بے وزن ہونے کے باوجود کلو گراموں ميں ہوتی ہے۔ ايسے شاعر نوکری کے پلے پڑنے کے بعد تائب ہو جاتے ہيں اور ادب کو بخش ديتے ہيں۔

سمگلر شاعر

عام سمگلروں کی طرح سمگلر شاعروں کے بھی کئی گروہ ہيں۔ ان کا ايک گروہ کسی انتقال شدہ گمنام شاعر کے اہل خانہ سے اسکی شاعری اونے پونے خريد ليتا ہے اور پھر صاحب ديوان ہو جاتا ہے۔ دوسرا گروہ پرانے شعرا کے کلام اور خيال کو گھما پھرا کر کام چلاتا ہے۔ تيسرا گروہ کسی دوسری زبان کی شاعری کے خيالات اڑا کر اپنی زبان ميں باندھ ليتا ہے۔ چوتھا اور آخری گروہ ان ميں سے کسی جھنجھٹ ميں نہيں پڑتا اور شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے کسی بھی نرے شاعر سے شاعری خريد ليتا ہے۔ اچھی سے اچھی غزل پچاس روپے سے کم ميں مل جاتی ہے۔ چوتھے گروہ ميں عموماً بيوروکريٹ شاعر ہوتے ہيں جو اس طريقے سے خود کو انٹليکچوئل ثابت کرتے ہيں۔

عظيم شاعر

ان شاعروں کی عظمت ميں ان کی دولت، عہدے اور پريس پروری کے علاوہ انکے کاسہ ليسوں کے خوشامدی مضاميں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ يہ اپنے تئيں غالب سے کم عظيم نہيں ہوتے اور اسی زعم کی بنا پر کلام اقبال پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے اس کی غلطياں نکالتے رہتے ہيں۔ ايسے شاعروں نے کچھ شاگرد بھی پال رکھے ہوتے ہيں جو دراصل ان کے طفيليے ہوتے ہيں۔ وہ انہی کا پڑھتے ہيں اور انہی کا گاتے ہيں۔ علاوہ ازيں ايسے عظيم شعرا ان خواتين شاعرات کی سر پرستی بھی فرماتے ہيں جو شاعری بے شک نہ کر سکتی ہوں ليکن شاعرہ بننا چاہتی ہوں۔ يہ ايسی شاعرات کے مجموعے اپنے خرچ اور دوسرے کے مواد پر چھپوا کر اپنی عظمت کا ثبوت ديتے ہيں۔

سياسی شاعر

ان کے دو گروہ ہيں۔ پہلا گروہ ساحر، فيض، جالب اور شورش کاشميری جيسے شاعروں پر مشتمل ہے۔ يہ کلمہ حق جابر سلطان کے سامنے کہہ کر قيد و بند کی سہولتوں سے فيض ياب ہوتے ہيں۔ دوسرا گروہ عوامی ہے جو سياسی جلسوں خصوصاً انتخابی جلسوں ميں اپنی صلاحيتوں کا لوہا منواتا ہے۔ يہ کسی اميدوار يا سياسی پارٹی کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہيں اور پھر اس کے جلسوں ميں اس کے قصيدے اور مخالفين کی ہجو پڑھتے ہيں۔ يوں يہ عوامی شہرت کے ساتھ ساتھ شاعروں کے سب گروہوں سے زيادہ کماتے ہيں۔

موبائل شاعر

يہ شہر ميں گلی گلی گھومتے رہتے ہيں جہاں کہيں کسی شادی، منگنی، مہندی، سالگرہ کی تقريب کی بھنک پڑتی ہے وہاں پہنچ جاتے ہيں۔ عام طور پر معززين کا لباس زيب تن کيے ہوتے ہيں اس ليے تقريب ميں با آسانی گھس جاتے ہيں۔ پھر تقريب کے مرکزی کرداروں کے نام معلوم کر کے پہلے سے تيار شدہ سہرے اور دعا وغيرہ ميں فٹ کر ليتے ہيں۔ حاضرين تب تک انہيں معزز مہمان ہی سمجھ رہے ہوتے ہيں کہ اچانک يہ اپنا راگ الاپنا شروع کر ديتے ہيں۔ پھر تب تک چپ نہيں ہوتے جب تک (پيسے يا اور کسی چيز سے) ان کا منہ بند نہ کر ديا جائے۔

شاعروں کے بے شمار نقصانات ہيں مگر خدا نے کوئی بھی چيز نکمی پيدا نہيں کی۔ يوں شاعروں کے کچھ فوائد بھی ہيں مثلآ کسی بھی شاعر سے کسی بھی وقت بے شمار عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسی ٹارچر سيل ميں شاعروں کو ملازمت دے کر ڈھيٹ مجرموں پر شاعری کا ٹارچر کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہيں۔ شاعری سننے کے وعدے پر شاعر سے ہر کام کروا سکتے ہيں حتٰی کہ ادھار بھی لے سکتے ہيں۔ شاعر اگر گھر ميں ہو تو اس کی موجودگی ميں ايک تو چوکيدار کی ضرورت نہيں دوسرے آپ جب چاہيں اسکی ردی سے اپنی جيب يا ہاتھ گرم کر سکتے ہيں۔
ٌ
ٌٗخادم حسین مجاہد

(برائے مہربانی اسے مزاح کی حد تک ہی پڑھئیے گا۔)
 
آخری تدوین:
Top