ذوق جو کُھل کراُن کی زُلفیں، بال آئیں سرسے پاؤں تک

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شیخ محمد ابراہیم ذوق

جو کُھل کراُن کی زُلفیں، بال آئیں سرسے پاؤں تک
بَلائیں، آکے لیں سَوسَو بَلائیں، سرسے پاؤں تک

ہم اُن کی چال سے پہچان لیں گے اُن کو بُرقع میں
ہزاراپنے کو وہ، ہم سے چھپائیں سرسے پاؤں تک

یہ جتنے سرْو ہیں، سب اُن کے قد پرزہرکھاتے ہیں
چمن میں سبز کیونکر ہو نہ جائیں، سرسے پاؤں تک

مِرا دل ایک، دُوں اُس خوش ادا کی کِس ادا کو میں
کہ ہیں، واں توادائیں ہی ادائیں، سرسے پاؤں تک

سراپا شوْق جائیں، سرکے بل ہم جن کے جلسہ میں
مثالِ شمْع وہ، ہم کوجَلائیں سرسے پاؤں تک

نہ ہوں بے پردہ توبھی، وہ کھڑے ہوہو کے شوخی سے
پھبن، چلمن سے درپردہ دِکھائیں سرسے پاؤں تک

بنایا اِس لئے، اُس خاک کے پُتلے کو انساں تھا
کہ اُس کو درد کا پُتلا بنائیں، سرسے پاؤں تک

سراپا پاک ہیں، دھوئے جنہوں نے ہاتھ دنیا سے
نہیں حاجت، کہ وہ پانی بہائیں سرسے پاؤں تک

مَزا اُتنا ہی ذوْق افزوں ہو جتنے زخْم افزوں ہوں
نہ کیوں ہم زخم تیغِ عشق کھائیں سرسے پاؤں تک

ابراہیم ذوق
 
Top