جو پکٹ ، ایک خاندان

فلک شیر

محفلین
--------- "جو پکٹ" ---------

ایک دوست نے کسی خاص پس منظر میں "Joe Pickett" دیکھنے کو کہا ، سو اس پہ کچھ الجھی بکھری سطور :

سرخ ہندی سرزمین:

سرخ ہندی سردار نے امریکی صدر کو خط لکھا، کہا : ” جنگل کٹ گئے اور پرندے رخصت ہوئے ۔ زندگی کیا ہے ،اب تو بس جینا ہے۔ تمہارے شہروں کا شور سماعتِ انسانی کی توہین ہے۔ چہرے پہ تازہ ہوا کا لمس محسوس نہ ہو تو آدمی زندہ ہی کیوں رہے۔ “
اپنی ہی سرزمین پہ اجنبی ہو رہنے کا دکھ ؛ سرخ ہندی جانتے ہیں ، فلسطینی جانتے ہیں ، کشمیری جانتے ہیں ، شاید کچھ کچھ اب ہم بھی جانتے ہیں ۔
وایومنگ کے سرخ ہندی لینڈ سکیپ میں انہی کے مخصوص فیچرز کے لوگوں کے لیے الگ قوانین اور ان کا بھی غلط استعمال ، یہ دنیا کی اس نام نہاد حقوق انسانی کی سرزمین کے لیے کیسا داغ ہے ۔ یہ اس کی بھی ایک جھلک ہے کہ تہذیب سفید کے اس مرمر میں سیاہ خون نیویارک کے ghettos سے وایومنگ کے خصوصی قوانین تک میں سہولت سے نطر آ جاتا ہے ، اس کے لیے ارضِ مقدس میں جاری قتل عام کے مرکزی سہولت کاروں کی فہرست کھنگالنا ضروری نہیں ۔

امریکہ / مغرب میں خاندانی زندگی:

خاندا ن کا ادارہ انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور اپنی کمیوں کوتاہیوں کے باوجود ابھی تک اس نے انسانی نسل کے لیے افادیت میں خود سے آگے کوئی بھی ادارہ نہیں نکلنے دیا۔ اپنے اپنے ورلڈ ویوز کے تمام انسانی گروہ معلوم انسانی تاریخ میں اس ادارے کو مضبوط کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتے جانتے آئے ہیں ، وہ بھی جو "آزادی" کے نام پہ اعتدال کی پٹڑی سے اترتے رہے ۔ مزدکی اور آج کے Incest وغیرہ کی بدفعلیوں کے اسیر دائرے کی لکیر کے ساتھ ساتھ پائے جانے والے بہت تھوڑے لوگ اس ادارے کی تقدیس پہ بالواسطہ حملہ آور ہوئے، مگر بحیثیت مجموعی انسانی معاشروں میں خاندان ایک مقدس، فعال، مثبت تحرک کا حامل اور خیر کی اقدار پہ انسانوں کو جمع کرتا ادارہ رہا ہے ۔ مغرب میں عائلی زندگی کے بحران کا ایک سبب خاندان بنانے کے طریقے کو الہی چھتری سے محروم کرنا اور "مسرت کے لیے وقت گزارنے" کا تصور ہے ۔ "جو پکٹ" میں دو نسلوں میں خاندان کو پیش کیا گیا ہے ۔ جو کے والد کا پرتشدد رویہ اور جو کا اپنی بچیوں سے شفقت آمیز سلوک، دو نسلوں ہی نہیں ، دو عظیم ترین انسانی رویوں کا بیان ہے ، ہر انسانی نسل میں آدھے پونے لوگ والدین کے پرتشدد یا غیر ذمہ دارانہ کی وجہ سے ایک بہتر پروڈکٹو طرز حیات نہیں اپنا پاتے۔ "محبت فاتح عالم" کا درس آفاقی ہے ، یہ اگر خاندان کے بنیادی ادارے ہی سے اٹھ جائے گا تو یہاں کون ہو گا جو فرد کو آئندہ چیلنجز کے لیے تیار کر پائے گا۔ خوفزدہ لوگ خوبصورت دنیا کیسے تعمیر کریں گے۔
" جو پکٹ" کے خاندان میں میری برتھ نام کی خاتون وہ عورت ہے جو سراسر محبت ہے اور آج بھی جاب پلیس کو گھر کا نعم البدل سمجھنے پہ بضد نہیں ہے ، اس کی تمام تر جدوجہد ایک امیر مرد کا حصول نہیں ہے، وہ ضرورت کے وقت اپنے مرد کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہو سکتی ہے اور اس کے منہ میں شہد کی طرح گھل کر زندگی کی تلخیوں کا ذائقہ بھلا سکتی ہے۔ جو ایک ٹرامازدہ خاوند کو "مردانگی" کے بوجھ تلے دب جانے سے بچا سکتی ہے اور اس عمل کے دوران اس کی سیلف ریسپکٹ کو زخمی کرنے کی غلطی نہیں کرتی، اسے ہیٹا دکھا کر، کمزور بتا کر خود کو سپروومن کے طور پہ پیش کرنے کی احمقانہ اور لانگ ٹرم میں نقصان دہ سوچ نہیں اپناتی۔ آج بھی یہ عورت انسانی معاشروں کو بچانے کی کوشش میں لگی ہے ، جہاں جہاں بھی گھر کو انسان کی دجل و فریب پہ مبنی نظریات کے خلاف جدوجہد میں آخری مورچہ جان کر ایسی عورت مصروف کار ہے ، میں اس گھر کا فرد ہوں ، میں وہاں نہ ہو کر بھی وہیں ہوں اور ہر ایسے گھر میں جہاں ایک عورت گھر بھر کو اکٹھا رکھنے اور خیر کی اقدار کے قریب تر کرنے میں مصروف ہے، اس سے متعلق خوش گمانی مجھ پہ لازم ہے۔

خواتین کی ہراسمنٹ:

جو پکٹ کے دوسرے سیزن میں اسی تھیم کو مرکزیت حاصل ہے ، جانوروں کے شکار کو تو ویسے ہی وہاں ریگولیٹ کیا گیا ہے ، لائسنسز دیے جاتے ہیں ، خیال رکھا جاتا ہے، میڈیا آزاد ہے، سوشل میڈیا تو مکمل ہی آزاد ہے ۔ وایومنگ ریاست کے قوانین کے مطابق ایک لائسنس پہ ایک سے زائد پہاڑی بکرے اور بڑے ہرن /elk کے شکار کی اجازت نہیں ہے ۔ 2021ء کے وایومنگ گیم اینڈ فش ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 3000 کے قریب بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں اور شکاریوں/شہریوں کو اس پہ جرمانے کیے گئے ۔ ان میں سے زیاددہ تر مچھلی کا بلااجازت شکار اور شازونادر ٹرافی ہنٹنگ کے لیے لائسنس کے بغیر شکار کرنا شامل تھا۔ یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ رپورٹ شدہ کیسز اور اعدادوشمار ہمیشہ درست منظرنامہ پیش نہیں کرتے۔ لیکن یہ کہتے ہوئے بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ یہ انیسویں صدی کے اواخر کا وایومنگ نہیں ہے ، اکیسویں صدی کے چوبیسویں سال کی بات ہو رہی ہے ۔ میں یہ اعدادوشمار جمع کرتے ہوئے پڑھ رہا تھا کہ حال ہی میں ایک سات سال سے چل رہے کیس میں مکمل تفتیش کے بعد ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے۔
مجھے علم ہے کہ خواتین کی ہراسمنٹ اور ان سے جنسی زیادتی کے کیسز کو مجرد حالات میں رکھ کر پیش کیا جانا آج کے حاوی ڈسکورس میں پسند کیا جاتا ہے ۔ مگر کوئی بھی انصاف پسند محقق اعداد و شمار جمع کرتے ہوئے کسی واقعہ پہ اثر انداز تمام فیکٹرز کو compile کرنا لازم سمجھتا ہے ۔ یہ معاملہ چونکہ طویل بحث چاہتا ہے اور ایک مختصر تبصرے میں اسے پیش کرنا ممکن ہی نہیں ، اس لیے اشارہ پہ کفایت کرتا ہوں۔ بہرحال خواتین اور وہ بھی بالعموم سرخ ہندی نوعمر لڑکیوں کے حوالے سے یہ مسئلہ وفاقی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات کے درمیان موجود ایک قانونی خلا کو نمایاں کر کے ضرور پیش کرتا ہے ۔

مجموعی امریکی طرززندگی:

صرف ایک ماہ قبل اکتوبر 2023ء میں ہی وال سٹریٹ جرنل نامی مؤقر امریکی اخبار کی فنڈنگ سے ایک تحقیقی ادارے NORC نے یونیورسٹی آف شگاگو میں ایک تحقیق کے بعد اپنی findings پیش کیں ، جس کے مطابق 18% کے مطابق "امیریکن ڈریم" کا کبھی کوئی وجود رہا ہی نہیں اور 45% کے مطابق یہ کبھی کوئی چیز رہا ہو گا، جب کہ 36٪ کے خیال میں یہ آج بھی امریکی ذہن اور آئیڈیلز کی فہرست میں وجود رکھتا ہے ۔

جو قارئین اس اصطلاح سے ابھی واقفیت نہیں رکھتے ، ان کے لیے عرض ہے کہ یہ امریکہ کے فرد کے لیے غیر اعلانیہ نصب العین کا بیان ہے ، آکسفورڈ ڈکشنری اس انٹری کے نیچے لکھتی ہے:
“the ideal that every citizen of the United States should have an equal opportunity to achieve success and prosperity through hard work, determination, and initiative.”

ہر امریکی کو برابر مواقع دینے تاکہ وہ سخت محنت، پختہ عزم اور تفاعل سے کامیابی اور خوشحالی پا لے، اس آئیڈیل کے حصول کو امریکی خواب کہا گیا۔
ایسے میں "جو پکٹ " سیریز کے کردار گرِم برادرز، نیٹ رومنسکی اور اپنے خور و خواب کے اخراجات کے لیے لاقانونیت پہ اترتے وایومنگ کے کچھ اور لوگ اس امریکی خواب کی ایک دوسری تلخ حقیقت بیان کرتے ہیں ۔ امریکی سیاسی و عسکری ڈھانچوں میں کرپشن کے اپنے ڈھنگ کی اس سیریز میں تصویر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مشرق ہار گیا ہے؟:

سلیم احمد نے نظم لکھی "مشرق ہار گیا ہے " ۔ اس کا ایک ٹکڑا ہے:

قبلا خان تم ہار گئے ہو

اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولو

۔ ۔ ۔ ۔ جیت گیا ہے

اکبرِ اعظم ! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے

اور بڑا بھائی لکھا تھا

اس کے کتے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں

جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے

مشرق کیا تھا؟

جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی

شہوت اور جبلت کی تاریکی میں

اک دیا جلانے کی کوشش تھی

میں سوچ رہا ہوں ، سورج مشرق سے نکلا تھا

(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)

لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے

مغرب بہت کچھ نگل گیا ہے اس میں شک نہیں ہے ۔ لیکن انسان کہیں نہ کہیں وہ ڈری سہمی سی مخلوق ہی ہے ، جو زمین پہ اتاری گئی تھی اور ایک دوسرے کے دامن میں آسودگی تلاش کرتی تھی ۔ اہلِ حکم کی ناانصافیاں، نسلی تعصبات کی بنیاد پہ ظلم اور معاشی ناہمواریاں مشرق و مغرب میں کچھ ہی فرق سے آج بھی جاری ہیں ، اس کی جہات بدل گئی ہیں ، شکلیں مختلف ہیں اور ناموں میں فرق ہے ۔ مگر آج بھی خاندان کا ادارہ، انسانی ہمدردی کا لازوال جذبہ اور الوہی اخلاقی اقدار اس سب کے خلاف مشرق و مغرب میں کسی نہ کسی شکل میں کھڑی ضرور ہیں ۔ مشرق ہارا نہیں ہے ، اسے مغرب کے تجارتی ڈسپلن سے کچھ حصہ درکار ہے اور مغرب جیت سکتا ہے ، مشرق سے محض کاروباری مذہب فروش درآمد کر نے کی بجائے آفاقی انسانی سچائیوں کو حقیقت میں ، غیر متعصب ہو کر اپنا نے سے !
ہاں آخر میں یہ کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسی سیریز کو لوکلائز ٹچ دینے کے لیے نشہ آور مشروبات اور جسمانی تعلقات کے کچھ مظاہر نہ ہی دکھائی جاتے تو اس کی ریچ اور زیادہ بڑھ جاتی!

فلک شیر چیمہ
یکم دسمبر 2023ء
 
Top