جو سال کھو گیا تاریخ کے سمندر میں۔۔۔ رمز عظیم آبادی

رمان غنی

محفلین
سلام۔۔۔۔کافی دنوں کے بعد محفل میں آنے کا موقع ملا ہے۔۔۔
محفلین کے نام رمز عظیم آبادی کی ایک نظم نئے سال کی مبارک باد کے ساتھ پیش کر رہا ہوں امید ہے کہ آپ لوگوں کو پسند آئے گی

جو سال کھو گیا تاریخ کے سمندر میں
وہ سال لاشوں کے انبار لیکے ڈوبا ہے
نہ جانے کتنے ہی آئینے توڑ ڈالے ہیں
ہزاروں چہرے ہی گلنار لیکے ڈوبا ہے

کہیں یہ پھول ہے بستر اور کہیں صحرا
لہو لہان ہے ہر وقت موج کا چہرہ

جو سال کھو گیا تاریخ کے سمندر میں
الم میں ڈوبی ہوئی ہر صدا وہ سنتا رہا
بہت سکوں سے مناتا رہا ہے موت کا جشن
بڑے خلوص سے زخموں کے پھول چنتا رہا

چلی ہے بات بھی تخفیف اسلحے کے لیے
ہوا خیال تو کچھ امن کی بقا کے لیے

جسے سنبھال کے لایا ہے وقت کا آغوش
دعا یہ ہے کہ نیا سال سوگوار نہ ہو
یہ ساتھ لیکے چلے رنگ و نور کا تحفہ
خدا کرے یہ کبھی دشمن بہار نہ ہو

بنے سفیر یہ قوموں کی دوستی کے لیے
یہ چارہ ساز ہو بیمار زندگی کے لیے
 

عمر سیف

محفلین
جسے سنبھال کے لایا ہے وقت کا آغوش​
دعا یہ ہے کہ نیا سال سوگوار نہ ہو​
یہ ساتھ لیکے چلے رنگ و نور کا تحفہ​
خدا کرے یہ کبھی دشمن بہار نہ ہو​

آمین۔​
 
Top