فیض جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے

نظام الدین

محفلین
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لٹادیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکادیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلادیا
اُدھر ایک حرف کے کشتنی، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اڑادیا، جو لکھا تو پڑھ کے مٹادیا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا
(فیض احمد فیض)​
 
Top