جو بیٹے بیٹیوں کو اپنی غربت دے چکا میں : غزل برائے اصلاح

سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز بھائی اصلاح فرمائیں۔۔۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن

جو بیٹے بیٹیوں کو اپنی غربت دے چکا میں
تو سمجھو بانٹ کر ساری وراثت دے چکا میں

مرا بیٹا مرے نقشِ قدم پر چل رہا ہے
محبت بانٹنے کی اس کو عادت دے چکا میں

تری سوچوں سے مجھ کو کیوں نہیں ملتی رہائی
کسی اور کے نہ ہونے کی ضمانت دے چکا میں

مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
اگرچے تیری چاہت کی تو قیمت دے چکا میں

مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار با وقتِ ضرورت دے چکا میں

زمانے اب تجھے نفرت ملے گی میرے در سے
جوانی میں کسی کو اپنی چاہت دے چکا میں

اسے عمران دے کر ووٹ رونا رو رہا ہوں
وطن کو لوٹنے کی جب سہولت دے چکا میں

شکریہ
 
آخری تدوین:
عمران بھائی ماشاءاللہ بہت اچھی غزل لکھی ہے۔نہ جانے کیوں ہم میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔میں تم سے بہت بڑا ہوں اور تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ ہم ایک دوسرے کو گائڈ کر سکتے ہیں۔ ماشاءاللہ بہت اچھا لکھتے ہو ۔ مطلع میں غربت کی بجائے کچھ اور بھی دیا جا سکتا ہے اگر پسند آئے تو دو متبادل ہیں۔امید ہے دخل در ماکولات نہیں سمجھو گے۔

کمانے کا ہنر بیٹے بیٹیوں کو دے چکا میں
----------- یا
محبّت بانٹنا اولاد کو جب دے چکا میں
 
عمران بھائی ماشاءاللہ بہت اچھی غزل لکھی ہے۔نہ جانے کیوں ہم میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔میں تم سے بہت بڑا ہوں اور تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ ہم ایک دوسرے کو گائڈ کر سکتے ہیں۔ ماشاءاللہ بہت اچھا لکھتے ہو ۔ مطلع میں غربت کی بجائے کچھ اور بھی دیا جا سکتا ہے اگر پسند آئے تو دو متبادل ہیں۔امید ہے دخل در ماکولات نہیں سمجھو گے۔

کمانے کا ہنر بیٹے بیٹیوں کو دے چکا میں
----------- یا
محبّت بانٹنا اولاد کو جب دے چکا میں
میرے ذہن میں پہلے مصرعے کا متبادل چل رہا ہے

جو بیٹے بیٹیوں کو بارِ غربت دے چکا میں

لیکن پہلے استاد محترم کی اصلاح کا انتظار کر لیا جائے تو بہتر ہے۔۔۔

تعریف کرنے کا شکریہ۔۔۔ اور دوسری بات میں اپنے دل میں کسی کے لئے بغض یا کینہ نہیں رکھتا۔۔۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔۔۔ میں نے پہلے بھی بتا چکا میرے دل میں آپ کے لئے کوئی ناراضی نہیں۔۔۔ آپ پہلے معذرت کر چکے بار بار مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔۔ میرے دل میں جو بات ہو میں کھل کر بیان کرتا ہوں۔۔۔ آپ محترم ہیں میرے لئے۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع میں غربت ہی بہتر ہے اور اصل؛ مصرع ہی درست ہے
تری سوچوں سے مجھ کو کیوں نہیں ملتی رہائی
کسی اور کے نہ ہونے کی ضمانت دے چکا میں
. ۔ کسی اُر تقطیع اچھی نہیں۔ شعر واضح بھی نہیں لگتا

مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
اگرچے تیری چاہت کی تو قیمت دے چکا میں
.. ثانی کی روانی بہتر ہو سکتی ہے
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت...

مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار با وقتِ ضرورت دے چکا میں
.. بوقت ضرورت درست محاورہ ہے، با وقت نہیں الفاظ بدل دیں
باقی اشعار درست ہیں، البتہ دوسرے شعر کو چوتھا پانچواں شعر بنا دو کہ مطلع سے اَس کا مفہوم بھی ملتا جلتا ہے
 
مطلع میں غربت ہی بہتر ہے اور اصل؛ مصرع ہی درست ہے
تری سوچوں سے مجھ کو کیوں نہیں ملتی رہائی
کسی اور کے نہ ہونے کی ضمانت دے چکا میں
. ۔ کسی اُر تقطیع اچھی نہیں۔ شعر واضح بھی نہیں لگتا

مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
اگرچے تیری چاہت کی تو قیمت دے چکا میں
.. ثانی کی روانی بہتر ہو سکتی ہے
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت...

مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار با وقتِ ضرورت دے چکا میں
.. بوقت ضرورت درست محاورہ ہے، با وقت نہیں الفاظ بدل دیں
باقی اشعار درست ہیں، البتہ دوسرے شعر کو چوتھا پانچواں شعر بنا دو کہ مطلع سے اَس کا مفہوم بھی ملتا جلتا ہے
بہت شکریہ سر۔۔۔ یہ ایک شعر کا اضافہ دیکھیں۔۔۔

میں شرمندہ رہا ہوں ایک ناکردہ گنہ پر
یا
جو ناکردہ گنہ پر بھی میں شرمندہ رہا ہوں
یوں اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں۔۔۔

کافی کی جگہ اتنی / کتنی بھی لایا جا سکتا ہے۔۔۔
 
مطلع میں غربت ہی بہتر ہے اور اصل؛ مصرع ہی درست ہے
تری سوچوں سے مجھ کو کیوں نہیں ملتی رہائی
کسی اور کے نہ ہونے کی ضمانت دے چکا میں
. ۔ کسی اُر تقطیع اچھی نہیں۔ شعر واضح بھی نہیں لگتا

مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
اگرچے تیری چاہت کی تو قیمت دے چکا میں
.. ثانی کی روانی بہتر ہو سکتی ہے
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت...

مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار با وقتِ ضرورت دے چکا میں
.. بوقت ضرورت درست محاورہ ہے، با وقت نہیں الفاظ بدل دیں
باقی اشعار درست ہیں، البتہ دوسرے شعر کو چوتھا پانچواں شعر بنا دو کہ مطلع سے اَس کا مفہوم بھی ملتا جلتا ہے
یہ سر درست ہے۔۔۔

مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار جب بھی تھی ضرورت دے چکا میں

مجھے اب تو رہا کر دو محبت کے سحر سے
محبت پھر نہیں ہو گی ، ضمانت دے چکا میں

میں ناکردہ گناہوں پر بھی شرمندہ رہا ہوں
یوں اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درست ہیں اشعار
انہیں تو پیار جب بھی تھی ضرورت دے چکا میں
میں درست اوقاف ضرور لگاؤ
انہیں تو پیار، جب بھی تھی ضرورت، دے چکا میں
 
جو بیٹے بیٹیوں کو اپنی غربت دے چکا میں
تو سمجھو بانٹ کر ساری وراثت دے چکا میں

میں ناکردہ گناہوں پر بھی شرمندہ رہا ہوں
یوں اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں

مجھے اب تو رہا کر دو محبت کے سحر سے
محبت پھر نہیں ہو گی ، ضمانت دے چکا میں

مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت دے چکا میں

مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار، جب بھی تھی ضرورت، دے چکا میں

مرا بیٹا مرے نقشِ قدم پر چل رہا ہے
محبت بانٹنے کی اس کو عادت دے چکا میں

زمانے اب تجھے نفرت ملے گی میرے در سے
جوانی میں کسی کو اپنی چاہت دے چکا میں

اسے عمران دے کر ووٹ رونا رو رہا ہوں
وطن کو لوٹنے کی جب سہولت دے چکا میں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو بیٹے بیٹیوں کو اپنی غربت دے چکا میں
تو سمجھو بانٹ کر ساری وراثت دے چکا میں
۔۔ درست ہے ۔۔
میں ناکردہ گناہوں پر بھی شرمندہ رہا ہوں
یوں اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں
۔۔۔۔ یوں کی جگہ سو کیسا رہے گا؟
مجھے اب تو رہا کر دو محبت کے سحر سے
محبت پھر نہیں ہو گی ، ضمانت دے چکا میں
۔۔۔۔ فطرت کے خلاف لگتا ہے مجھے کیونکہ محبت اختیار میں تو ہوتی نہیں ہے ۔۔۔ ایک ہی شخص سے ہزاروں بار ہوسکتی ہے۔۔۔ لیکن یہ کوئی اعتراض شعر پر نہیں ہے ۔۔۔ میرا ذاتی اختلاف ہے بس۔۔
مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت دے چکا میں
۔۔۔۔ گرچہ کی جگہ بے شک ۔۔ کر سکتے ہیں ۔۔۔ میری رائے میں اس سے شعر قدرے بہتر ہوجائے گا۔۔
مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار، جب بھی تھی ضرورت، دے چکا میں
۔۔۔ حالانکہ اس سے بھی اختلاف ہے، لیکن وہ رہنے دیتے ہیں یہاں۔۔۔ یونہی ٹھیک ہے ۔۔
مرا بیٹا مرے نقشِ قدم پر چل رہا ہے
محبت بانٹنے کی اس کو عادت دے چکا میں
۔۔۔۔ درست
زمانے اب تجھے نفرت ملے گی میرے در سے
جوانی میں کسی کو اپنی چاہت دے چکا میں
۔۔۔۔ ایک حدیث کی روشنی میں ۔۔ میں نے اپنے وہ تمام اشعار حذف کردئیے جن میں زمانے کو برا بھلا کہا گیا تھا ۔۔۔ یہ مذہبی اختلاف کہہ لیجئے۔۔ شعری اعتبار سے کوئی نقص نہیں۔۔
اسے عمران دے کر ووٹ رونا رو رہا ہوں
وطن کو لوٹنے کی جب سہولت دے چکا میں
۔۔۔سہولت یا اجازت؟؟ ۔۔۔ ویسے اِس ایک شعر سے آپ کی پوری غزل کا تاثر میری رائے میں تو خراب ہوا ۔۔۔ شاعری سیاسی رنگ سے آج بھی آزاد ہی رکھنے کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔۔۔ اور اگر سیاسی رنگ ہی دینا ہے تو ابتدا سے آخر تک ایسا ہی رنگ برقرار رکھنا بہتر سمجھا جاتا ہے ۔۔۔
 
جو بیٹے بیٹیوں کو اپنی غربت دے چکا میں
تو سمجھو بانٹ کر ساری وراثت دے چکا میں
۔۔ درست ہے ۔۔
میں ناکردہ گناہوں پر بھی شرمندہ رہا ہوں
یوں اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں
۔۔۔۔ یوں کی جگہ سو کیسا رہے گا؟
مجھے اب تو رہا کر دو محبت کے سحر سے
محبت پھر نہیں ہو گی ، ضمانت دے چکا میں
۔۔۔۔ فطرت کے خلاف لگتا ہے مجھے کیونکہ محبت اختیار میں تو ہوتی نہیں ہے ۔۔۔ ایک ہی شخص سے ہزاروں بار ہوسکتی ہے۔۔۔ لیکن یہ کوئی اعتراض شعر پر نہیں ہے ۔۔۔ میرا ذاتی اختلاف ہے بس۔۔
مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت دے چکا میں
۔۔۔۔ گرچہ کی جگہ بے شک ۔۔ کر سکتے ہیں ۔۔۔ میری رائے میں اس سے شعر قدرے بہتر ہوجائے گا۔۔
مجھے وہ مانگنے پر بھی نہیں دیتے محبت
انہیں تو پیار، جب بھی تھی ضرورت، دے چکا میں
۔۔۔ حالانکہ اس سے بھی اختلاف ہے، لیکن وہ رہنے دیتے ہیں یہاں۔۔۔ یونہی ٹھیک ہے ۔۔
مرا بیٹا مرے نقشِ قدم پر چل رہا ہے
محبت بانٹنے کی اس کو عادت دے چکا میں
۔۔۔۔ درست
زمانے اب تجھے نفرت ملے گی میرے در سے
جوانی میں کسی کو اپنی چاہت دے چکا میں
۔۔۔۔ ایک حدیث کی روشنی میں ۔۔ میں نے اپنے وہ تمام اشعار حذف کردئیے جن میں زمانے کو برا بھلا کہا گیا تھا ۔۔۔ یہ مذہبی اختلاف کہہ لیجئے۔۔ شعری اعتبار سے کوئی نقص نہیں۔۔
اسے عمران دے کر ووٹ رونا رو رہا ہوں
وطن کو لوٹنے کی جب سہولت دے چکا میں
۔۔۔سہولت یا اجازت؟؟ ۔۔۔ ویسے اِس ایک شعر سے آپ کی پوری غزل کا تاثر میری رائے میں تو خراب ہوا ۔۔۔ شاعری سیاسی رنگ سے آج بھی آزاد ہی رکھنے کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔۔۔ اور اگر سیاسی رنگ ہی دینا ہے تو ابتدا سے آخر تک ایسا ہی رنگ برقرار رکھنا بہتر سمجھا جاتا ہے ۔۔۔
بہت شکریہ شاہد شاہنواز بھائی۔۔۔
 
سر الف عین شاہد شاہنواز
مجھے اب تو رہا کر دو محبت کے سحر سے
محبت پھر نہیں ہو گی ، ضمانت دے چکا میں

سحر کا درست تلفظ سِحرَ ہے اس لئے اس شعر کو یوں کر دیا ہے۔۔۔

مجھے اب تو رہا کر دو محبت کے اثر سے
محبت پھر نہیں ہو گی ، ضمانت دے چکا میں
 
جو بیٹے بیٹیوں کو اپنی غربت دے چکا میں
تو سمجھو بانٹ کر ساری وراثت دے چکا میں

میں ناکردہ گناہوں پر بھی شرمندہ رہا ہوں
یوں اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں

مجھے اب زندگی دے کر چکانا ہے ترا سود
تری چاہت کی گرچہ ساری قیمت دے چکا میں

عزیزی عمران صاحب، آداب
آپ سے پہلی بار شرف تخاطب حاصل ہو رہا۔ آپ کی کاوش اچھی لگی، غزل کی زمین کافی پسند آئی۔ اگرچہ میں خود دیارِ سخن کا مبتدی ہوں، اس لئے چھوٹا منہ بڑی بات والا حساب ہے، تاہم یہاں اس لڑی میں ماحول بنا ہوا ہے تو سوچا کیوں نہ اپنی دوکوڑی کی بھی سنا دوں۔ امید ہے بارِ خاطر پر گراں نہ گزرے گا۔

اولاً: مطلع کی بابت مجھے آپ کو متبادل مصرعہ زیادہ فصیح اور رواں محسوس ہوا یعنی ’’جو بیٹے بیٹیوں کو بارِ غربت دے چکا میں‘‘

ثانیاً: اوپر اقتباس میں درج دوسرے شعر کو یوں کہیں تو کیسا ہے؟
میں ناکردہ گناہوں پر رہوں شرمندہ کب تک؟
بس اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں!

ثالثاً: اقبتاس میں موجود تیسرے شعر میں ذرا یوں سوچ کر دیکھیں!
ہے بس اب زندگی دے کر چکانا سود باقی
تری چاہت کی کب کی اصل قیمت دے چکا میں!

چونکہ میں آپ کا مخطوب نہیں تھا، اس لئے امید ہے آپ نے بن بلائے مہمان کی باتوں کا برا نہیں منایا ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ
 
عزیزی عمران صاحب، آداب
آپ سے پہلی بار شرف تخاطب حاصل ہو رہا۔ آپ کی کاوش اچھی لگی، غزل کی زمین کافی پسند آئی۔ اگرچہ میں خود دیارِ سخن کا مبتدی ہوں، اس لئے چھوٹا منہ بڑی بات والا حساب ہے، تاہم یہاں اس لڑی میں ماحول بنا ہوا ہے تو سوچا کیوں نہ اپنی دوکوڑی کی بھی سنا دوں۔ امید ہے بارِ خاطر پر گراں نہ گزرے گا۔

اولاً: مطلع کی بابت مجھے آپ کو متبادل مصرعہ زیادہ فصیح اور رواں محسوس ہوا یعنی ’’جو بیٹے بیٹیوں کو بارِ غربت دے چکا میں‘‘

ثانیاً: اوپر اقتباس میں درج دوسرے شعر کو یوں کہیں تو کیسا ہے؟
میں ناکردہ گناہوں پر رہوں شرمندہ کب تک؟
بس اپنے آپ کو کافی اذیت دے چکا میں!

ثالثاً: اقبتاس میں موجود تیسرے شعر میں ذرا یوں سوچ کر دیکھیں!
ہے بس اب زندگی دے کر چکانا سود باقی
تری چاہت کی کب کی اصل قیمت دے چکا میں!

چونکہ میں آپ کا مخطوب نہیں تھا، اس لئے امید ہے آپ نے بن بلائے مہمان کی باتوں کا برا نہیں منایا ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ
آپ کا بہت بہت سپاس گزار ہوں۔۔۔ جو سیکھنے کی چاہ رکھتے ہیں وہ کسی نصیحت ، مشورہ یا تنقید کا برا نہیں مناتے۔۔۔ آپ نے بہت اچھے مشوروں سے نوازا آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔۔۔ امید کرتا ہوں آپ آئندہ بھی اسی طرح اصلاح کرتے رہیں گے۔۔۔
 
آپ کا بہت بہت سپاس گزار ہوں۔۔۔ جو سیکھنے کی چاہ رکھتے ہیں وہ کسی نصیحت ، مشورہ یا تنقید کا برا نہیں مناتے۔۔۔ آپ نے بہت اچھے مشوروں سے نوازا آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔۔۔ امید کرتا ہوں آپ آئندہ بھی اسی طرح اصلاح کرتے رہیں گے۔۔۔
اصلاح نہ کہیں، مشورہ کہہ لیں :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
چونکہ میں آپ کا مخطوب نہیں تھا، اس لئے امید ہے آپ نے بن بلائے مہمان کی باتوں کا برا نہیں منایا ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ
برا ماننا درست محاورہ ہے یا منانا؟
کیونکہ میں جس کسی کو برا منانے کا محاورہ استعمال کرتے دیکھتا ہوں، ٹوک دیتا ہوں۔۔۔
دوست احباب ایسی باتوں کا برا مان سکتے ہیں، اس لیے خاموش بھی رہنا پڑتا ہے ۔۔۔
 
برا ماننا درست محاورہ ہے یا منانا؟
کیونکہ میں جس کسی کو برا منانے کا محاورہ استعمال کرتے دیکھتا ہوں، ٹوک دیتا ہوں۔۔۔
دوست احباب ایسی باتوں کا برا مان سکتے ہیں، اس لیے خاموش بھی رہنا پڑتا ہے ۔۔۔

آپ نے درست توجہ دلائی ہے، میری رائے میں بھی برا ماننا ہی درست ہے، جو میں نے لکھا آپ اسے غلط العام سمجھ کر درگزر کردیں :)
 
Top