ابن عادل

محفلین
یہ مضمون میں خاکہ اور خاکہ نگاری کے زمرے میں شامل کرنا چاہتا تھا لیکن اجازت نہ تھی ۔ منتظمین سے گزارش ہے کہ اگر یہ تحریر وہیں رکھی جانے کے لائق اور مستحق ہے تو رکھ دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون احمد حاطب صدیقی کی کتاب 'جو اکثر یاد آتے ہیں' کی تقریب پزیرائی منعقدہ فاران کلب کراچی میں 3 مئی 2015ء کو پڑھاگیا.

'جو اکثر یاد آتے ہیں'
وسعت اللہ خان
چون سال کا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔مجھے آج تک یہ سمجھنے میں پریشانی رہتی ہے کہ انگریزی جملے میں ڈو کہاں لگانا ہے اور کہاں پے ڈو کے بجائے ڈز لگے گا۔اور فلاں جملے میں کونسا والا دئیر استعمال کرنا افضل ہے۔ٹی ایچ ای آئی آر والا یا ٹی ایچ ای آر ای والا۔اور یہ کہ وجیہہ احمد صدیقی اور احمد حاطب صدیقی میں سے دراصل کون کون ہے اور کون کونسا والا نہیں ہے۔ اپنی آسانی سے کے لئے اب یوں یاد رکھتا ہوں کہ جو کلین شیو ہے وہ وجیہہ احمد صدیقی ہے اور جو شیو نہیں کرتا وہ احمد حاطب صدیقی ہے اور جو دوسروں کی شیو بناتا ہے وہ ابو نثر ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں احمد حاطب کو بچپن سے نہیں جانتا۔کیونکہ جب بھی انہیں دیکھا اتنا ہی بڑا اور مختصر دیکھا۔دوسری بات یہ ہے کہ احمد بھلے جتنے برس سے بھی لکھ رہے ہوں میری بلا سے ۔میں نے تو انکی نثریت تین روز پہلے ”جو اکثر یاد آتے ہیں ” پڑھ کے دریافت کی ۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امریکہ کروڑوں برس سے ہے مگر کولمبس کو پانچ سو برس پہلے ہی اس کا پتہ چلا ۔لیکن کولمبس کی طرح میں بھی اپنی لاعلمی پر ہرگز ہرگز شرمندہ نہیں۔
ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ ان کے خاکے پڑھ کے ہر جملے پر تو نہیں البتہ ہر تیسرے چوتھے فقرے کی بناوٹ ، اس میں پوشیدہ گنجینہِ معانی ، اصطلاحاتی کھلواڑ اور اندازِ بیاں پر علی الترتیب لٹو ہوا ، پھر حالت ِ رشک میں آیا اور پھر حسد کی آگ میں جلنے لگا کہ میں ایسا کیوں نہیں لکھ سکا۔اور یہ کافر مولوی ایسا کیسے لکھ لیتا ہے۔
نثر کی بیسیوں اصناف میں خاکہ نگاری بھی ہے۔مگر خاکہ نگاری لوہا کوٹنے کا نام نہیں ، پتھریلی پھول پتیوں کو ایک خاص طریقے سے نثر کی انگشتری میں جڑنے کا فن ہے۔میں نے اس حیاتِ مختصر میں اکثر خاکہ نگاروں کو اپنے ہی تحریری پھندے سے جھولتے دیکھا ہے کیونکہ وہ خاکہ نگاری اور خاکہ اڑانے کے باریک فرق کو سمجھنے میں آغازِ سفر ہی میں گڑبڑا گئے۔بالکل ایسے ہی ہم سب کے دیکھتے دیکھتے بغیر دستانے کے کئی طنز نگار مزاح نگاری کا چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ برداشت نہ کرپائے اور ایک سستے تخلیقی مسخرے میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔یہی سبب ہے کہ صنف ِ مزاح و خاکہ نگاری کے خارزار میں مشتاق یوسفی صرف ایک ہے ، ابنِ انشا بھی ایک ہے ۔باقی بس نیک ہیں ۔
اس قدر پرخطر نثری اصنافی جنگل قدم رکھنا بذاتِ خود بہادری ہے۔ احمد حاطب کا تعلق جس نظریاتی حلقے سے ہے اس کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ عظمتِ رفتہ کے کھمبے بجانے والے خشکوں کا جوشیلا ٹولہ ہے۔یہ جذباتی باتوں سے ولولہ سازی تو کرسکتے ہیں مگر یہ کیا جانیں پھولوں کی نزاکت ، تاروں کی چھاؤں ، لمس کی نرماہٹ ، شوخی کے رنگ ، مسکراہٹ کی ترنگ اور نئے پن کی امنگ۔۔۔ مگر نہیں ۔۔۔انہی کے درمیان احمد حاطب صدیقی بھی تو ہے۔خدا کی قسم بڑا کافر مولوی ہے۔۔۔
کئی لکھاری اس لئے بھی مار کھا جاتے ہیں کہ وہ خاکہ نگاری اور سوانح حیات کو جڑواں بہنیں سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ احمد حاطب نے اس کتابی خوردبین میں جن صاحبانِ گرامی کے احوال دیکھے ہیں ان میں سے اکثر کو ہم سب کسی نہ کسی حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور جانتے ہیں ۔
احمد کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان شخصیات کو محیر العقولیت کے منبر پر چڑھانے اور انکی عظمت میں اپنی عظمت کا بھگار لگانے کے بجائے خالصتاً عام آدمی کی کسوٹی پر کس کے دیکھا اور ان شخصیات کی زندگی کے کسی ایک پہلو پر قلمی کیمرہ فوکس کرکے ہمیں چاول کا ایک دانہ دے دیا کہ جس سے آپ ازخود پوری شخصی دیگ کا انداز لگا سکیں۔ اس تکنیک سے لکھے ہر خاکے کو پڑھ کے قاری کے روبرو ایک نئی بات اور تیکھا مشاہدہ سامنے آتا ہے۔ اچھا تو سلیم احمد یہ بھی تھے۔اچھا قمر جمیل اس طرح بھی سوچتے تھے ، اچھا تو صلاح الدین صاحب نے چنے اور مرنڈے بھی بیچے تھے۔اور خالد اسحاق قانونی جوڑ توڑ نہ کرنے کے باوجود بھی اتنے بڑے وکیل تھے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
احمد حاطب کے قلم میں طبعی شرارت اور لسانی شرر کا اپنا تناسب ہے۔لہذا اگر ان کی کوئی تحریر انکی اپنی ہی کسی تحریر کے مقابلے میں انیس محسوس ہوتی ہے تو یہ اسکیل بھی خود وہی قاری کو فراہم کرتے ہیں۔لیکن بقول سلیم احمد ہاتھی کا بچہ جتنا بھی کمزور ہو پر ہے تو ہاتھی کا بچہ ۔
جس دور میں ہم زندہ ہے یہ ڈسپوز ایبل کلچر کا دور ہے۔کھانے پینے سے لے کر ، رہن سہن ، اقدار ، نشریات ، موسیقی ، شاعری نثر سب ڈسپوز ایبلیت کی سفاکی تلے دب چکی ہے ۔ہر شعبے میں تو چل میں آیا کا ہنگام ہے۔اس قدر شور ہے کہ سناٹا سا لگنے لگا ہے۔ایسی آپا دھاپی میں جب ہر ایک کو اپنی پڑی ہو کون سوچتا ہے کہ ہم تو جیسے کیسے جی رہے ہیں مگر اپنے بچوں کو وہ راتب کہاں سے لا کے دیں جسے کھا کے ہماری تھوڑی بہت کردار سازی ہوگئی ۔کیا کسی چینل پر پچھلے دس برس میں آپ نے بچوں کے لئے الگ سے کوئی سلسلے وار پروگرام دیکھا جو ایک زمانے میں پی ٹی وی کی روائیت تھی ۔کیا اس عرصے میں کسی اردو اخبار میں آپ نے بچوں کے لئے کوئی ایسا صفحہ دیکھا جیسا ہمارے بچپن میں ہوتا تھا۔کیا آپ میں سے یا آپ کے جاننے والے کسی گھر میں نونہال ، تعلیم و تربیت اور نور جیسے رسالوں کا چلن ہے ؟ حالانکہ بچوں کے رسالے تو آج بھی چھپ رہے ہیں۔
ایک ایسے دور میں جب میرا سات سالہ بیٹا پلاسٹک کی ٹوائے مشین گن کو زیادہ فیشن ایبل سمجھتا ہو۔ایک ایسے دور میں جب ماں کا ہاتھ چندا ماما کی کہانی پر پڑنے کے بجائے اپنی تین سالہ بیٹی کے لئے چپس کے پیکٹ پر پڑ رہا ہو۔ایک ایسے دور میں جب نانیاں اور دادیاں کہانی سنانے کے بجائے خود ترکی کا ڈرامے میرا سلطان دیکھ رہی ہوں اور ایک ایسے دور میں جب باپ کے پاس پیسے تو ہوں مگر بچوں کے ساتھ گذارنے کے لئے موبائیل فون کی گھنٹی سے پاک معیاری وقت نایاب ہو۔احمد حاطب صدیقی جیسے گنے چنے پاگل بچوں کے لئے نظمیں ، گیت اور کہانیاں لکھنے کے کارِ خسارگی میں جٹے پڑے ہیں۔
احمد حاطب اگر آپ ایک بھی کالم نہ لکھتے اور ایک بھی خاکہ نہ کھینچتے تب بھی آپ میرے لئے صرف اس لئے قابلِ احترام ہوتے کہ آپ ان لاکھوں بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں جو ایک خوشحال یتیمی کے سائے تلے رھنے پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔مگر احمد حاطب تم ہو بڑے۔۔۔۔کافر مولوی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعد ازاں اس کی ویڈیو بھی مل گئی ۔ موبائل سے ریکارڈ کی گئی ہے ۔ مضمون پڑھنے کے بعد صاحب قلم کی زبانی سننا پرلطف ہے ۔
 

ابن عادل

محفلین
بعد ازاں مصنف کی مختصر گفتگو کی بھی ویڈیو مل گئی ۔ اس کے آخر میں ان کی مشہور نظم '' یہ بات سمجھ میں آئی نہیں '' بھی انہوں نے پیش کی
 
برسوں بعد اپنے ادارے کی شائع کردہ اس کتاب کی تقریب پذیرائی کے موقع پر کراچی آنا نہایت خوشگوار تجربہ رہا، پرانے احباب اور دوستوں، بزرگوں سے ملاقات سے دلی مسرت کشید کی، بہت سے ایسے حضرات سے بھی ملاقات ہوئی جو مجھے برسوں سے جانتے تھے مگر میں اس سے لاعلم اور محروم تھا۔ یادگار تقریب اور یادگار سفر۔ (شاہد اعوان، اسلام آباد)
جو حضرات مذکورہ کتاب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پہ 03425548690 پیغام (ایس ایم ایس) کردیں تو کتاب ارسال کردی جاتی ہے۔
 
Top