جو ابھی تک نہیں کی اُس بغاوت کا بھی ڈر ہے۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
جو ابھی تک نہیں کی اُس بغاوت کا بھی ڈر ہے
ہم مہاجر ہیں جہاں پر واں سے ہجرت کا بھی ڈر ہے

قافیہ تو تنگ کرتی جا رہی ہے دوستی بھی
دشمنوں کی کاروائیوں میں سلاست کا بھی ڈر ہے

ہم نے بھی کھانا پکا کر رکھ دیا تھا تھالیوں میں
اب تو بدلہ لے گا سارس، اس کی دعوت کا بھی ڈر ہے

اب عدد کی آنکھ میں بھی یہ کرکتی ہی رہے گی
ہم کو دشمن کی طرح ہی اپنی طاقت کا بھی ڈر ہے

بات ڈرنے کی بھی ایسی اب نہیں شیراز لیکن
کم بخت ڈر جانے کی اک ہم کو طاقت کا بھی ڈر ہے

الف عین
 

الف عین

لائبریرین
کوئی فنی غلطی تو کم ہی پائی ہے، بس محاورے ہی میرے لئے انجان ہیں:
جو ابھی تک نہیں کی اُس بغاوت کا بھی ڈر ہے
ہم مہاجر ہیں جہاں پر واں سے ہجرت کا بھی ڈر ہے
÷÷ بھئی یہ ’یاں‘ ’واں‘ ہر جگہ اچھا نہیں لگتا۔ دوسرا مصرع بہتر کیا جا سکتا ہے۔

قافیہ تو تنگ کرتی جا رہی ہے دوستی بھی
دشمنوں کی کاروائیوں میں سلاست کا بھی ڈر ہے
۔۔کاروائیوں۔۔ وزن سے خارج ہے، سلاست کا یہاں کیا محل ہے؟

ہم نے بھی کھانا پکا کر رکھ دیا تھا تھالیوں میں
اب تو بدلہ لے گا سارس، اس کی دعوت کا بھی ڈر ہے
۔۔یہ کیا تلمیح ہے؟

اب عدد کی آنکھ میں بھی یہ کرکتی ہی رہے گی
ہم کو دشمن کی طرح ہی اپنی طاقت کا بھی ڈر ہے
÷÷کرکتی؟؟؟ یہ لفظ مجھے نہیں معلوم

بات ڈرنے کی بھی ایسی اب نہیں شیراز لیکن
کم بخت ڈر جانے کی اک ہم کو طاقت کا بھی ڈر ہے
÷÷دوسرا مصرع بحر سے اتر گیا ہے!! فاعلاتن فاعلاتن میں محض ’بخت ڈر جانےکی اک ہم‘ ہی آتا ہے۔ ڈر جانے کی طاقت کا ڈر؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
 

شیرازخان

محفلین
کوئی فنی غلطی تو کم ہی پائی ہے، بس محاورے ہی میرے لئے انجان ہیں:
جو ابھی تک نہیں کی اُس بغاوت کا بھی ڈر ہے
ہم مہاجر ہیں جہاں پر واں سے ہجرت کا بھی ڈر ہے
÷÷ بھئی یہ ’یاں‘ ’واں‘ ہر جگہ اچھا نہیں لگتا۔ دوسرا مصرع بہتر کیا جا سکتا ہے۔

قافیہ تو تنگ کرتی جا رہی ہے دوستی بھی
دشمنوں کی کاروائیوں میں سلاست کا بھی ڈر ہے
۔۔کاروائیوں۔۔ وزن سے خارج ہے، سلاست کا یہاں کیا محل ہے؟

ہم نے بھی کھانا پکا کر رکھ دیا تھا تھالیوں میں
اب تو بدلہ لے گا سارس، اس کی دعوت کا بھی ڈر ہے
۔۔یہ کیا تلمیح ہے؟

اب عدد کی آنکھ میں بھی یہ کرکتی ہی رہے گی
ہم کو دشمن کی طرح ہی اپنی طاقت کا بھی ڈر ہے
÷÷کرکتی؟؟؟ یہ لفظ مجھے نہیں معلوم

بات ڈرنے کی بھی ایسی اب نہیں شیراز لیکن
کم بخت ڈر جانے کی اک ہم کو طاقت کا بھی ڈر ہے
÷÷دوسرا مصرع بحر سے اتر گیا ہے!! فاعلاتن فاعلاتن میں محض ’بخت ڈر جانےکی اک ہم‘ ہی آتا ہے۔ ڈر جانے کی طاقت کا ڈر؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

جو ابھی ہم نے نہیں کی اُس بغاوت کا بھی ڈر ہے
ہم مہاجرپہلے سے ہیں، پھر سے ہجرت کا بھی ڈر ہے

قافیہ تو تنگ کرتی جا رہی ہے دوستی بھی
کاروائیء دشمناں میں اب سلاست کا بھی ڈر ہے


یہ عدد کی آنکھ میں بھی کرکراتی ہی رہے گی
ہم کو دشمن کی طرح ہی اپنی طاقت کا بھی ڈر ہے

بات ڈرنے کی بھی ایسی اب نہیں شیراز لیکن
کم بخت ڈر جانے کی اک ہم کو عادت کا بھی ڈر ہے
 
Top