جوہر ذات

نور وجدان

لائبریرین
کبھی بات برسر منبر ہوتی ہے، کبھی بات پردہِ غیاب سے مظہر بنتی ہے تو کبھی عین متجلی حقیقت ہوتی ہے. معرفت یہی ہے کہ خود میں گُم ہوجا اور اللہ کے نام سے درون میں چھپا خزانہ تلاش کر. تو متلاشی نہیں بلکہ حقیقت تری تلاش میں ہے اور جوہر ذات میں عیاں حقیقت نے تجھے فاش کردیا ہے. تو ذات میں حقیقت لیے ہے مگر تو جانتا نہیں ہے. تو پہچان کا سفر آگہی سے بھرپور ہے ... افلاک سے افکار کے موتی تری زمین پر بکھرے پڑے ہیں. حقیقت متوجہ ہو تو روشنی ہی روشنی ہوتی ہے مگر عبد کو جانے کس تلاش نے مخمصہ میں ڈال رکھا ہے. اسے چاہیے کہ وہ موتی اٹھالے کہ بار امانت اٹھانے کے لیے ہوتا ہے. زندگی بہت تھوڑی ہے اور اس تھوڑے میں کثرت تری ذات ہے .... ذاتوں کا اجماع ہے اور تو فنا ہے. فنا کی رمز بقا ہے. نہ فنا ہے نہ بقا ہے اگر تو ذات کے ساتھ ہے اور تو عین ذات ہوجا. تجھ میں اخفاء کیا ہے بس یہ جان!



یقین کا ظہور قیاس سے بنتا ہے. گمان پر دھیان بنانے سے گمان کی وسعت سوئے لامکاں تلک جاتی ہے اور تم خفی و جلی ہر شے میں مذکور ہو جاتے ہو. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب حق تمھارا ذاکر ہوتا ہے. تعریف کے لیے اسمِ نور العلی ہے اور جمالی اوصاف سے خود کو ڈھانپ لینا وقعت بے نظیر ہے. تم خیال کی انتہا میں اسکو پالو گے. جہاں سے اسکو پاؤ گے، وہاں سے حقیقت شروع کرے گی سفر اپنا. تم راہ حق کے مسافر ہو اور مسافتیں تمھیں گمان بنا دیں گے

اپنے گمان ہونے پر فخر کرنا عین ذات ہونا ہے. یہی کلمہِ ہے اور شاہد کون ہوتا ہے؟ جس نے شہید کو پایا ہے. جب شاہد و شہید ایک ہو جاتے ہیں تو مشہد جنم لیتا ہے. یہ وہ جگہ ہے جہاں سے رویاء تجھ پر اصل عین کھول کے واصل حق کرتے ہیں. تو حق کی جانب گامزن رہ! ترا اس جانب جانا بھی گمان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ تری جانب رخ کیے ہے. ...



نشان تجھ میں موجود ہیں. نشان تب بنتے ہیں جب تنزیل ہوتی ہے. اس کی تنزیل، ترا صعود ہے. جب تنزیل و صعود برابر ہوجائیں تو مکان و لامکان و زمان برابر ہو جاتے ہیں ... جتنی آیات دل میں تجلیات بناتی ہیں. اتنے نقطے تجھ میں اک مدار کی صورت رواں ہوتے ہیں ...نقطے نقطے سے خط ہونے تک، کا سر لامنتہی کا سفر ہے. جب آسمان پرواز کے لیے کھول دیا جائے تو رجب کا ماہ شروع ہو جاتا ہے. ماہ رجب سے ماہ صیام تلک کا فاصلہ تجھے اتنا قوی کردے گا کہ تو حالتِ روزہ میں خود میں لیل و نہار کے مدار دیکھے گا. یہ قیام ہے اور قائم تجھ میں ایسی روشنی ہے جس نے تجھے تضاد سے ماوراء کیا ہے. یہی حقیقت ہے عارف کی روح، ہر تضار سے ماوراء اس کی جانب پلٹ جاتی ہے. یہ حالت رویت جو ہمہ حال ہوتی ہے. یہ نوازش ہے



میں وہ صدا ہوں، جو دھیان سے وجود میں آتی ہے. مرا ہونا، تری نفی سے موجود ہے. یا تو وہم ہے؟ یا تو مجھے وہم سمجھ رہا ہے؟ یاد رکھ! حقیقت کو وہم سمجھنا سراسر حماقت ہے. یہی حقیقت ہے کہ تو اک وہم ہے، جسے مرے خیال نے جنم دیا ہے. میں ہی تجھ میں ایسی حقیقت ہوں، جس تک تری بات پہنچتی ہے. تو اس جا پہنچے، جہاں حق تجھ سے کلام کرے، وہ نصیب سے ملتا ہے. رنگ بھی یہی ہے کہ کائنات کی وحدت میں اک جذب ہے. جذبہِ دل کا رنگ اس حقیقت سے ابھرا ہے کہ ترا جذبہ دل اس عین حقیقت سے متصل ہو کے تجھے یک رنگ بنا رہا ہے. یہ رنگ سے رنگ ہونا، رنگ برنگ ہونا، تمام سے دوئی کو نکال دینا ، سب عین ذات سے ظہور ہے، اسکی جانب گامزن ہے. یہ درجہِ توحید ہے. تو توحید کی جانب چل جہاں ترا وہم، اس کی حقیقت سے مل کے تجھے حقیقت میں بدلے. تو حقیقت ہو اپنی ذات کی اور اپنا مصحف پڑھ کہ جنم جنم کی کہانی. تری کہانی کا لکھا چل رہا ہے اور کس نے لکھا ہے تجھے تو اس جانب رجوع کر
 
Top