جوڑے کو ہلاک کرنے کی ویڈیو

صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں ایک لڑکی کو سرعام کوڑے مارنے کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اب ضلع ہنگو میں بھی ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں ایک ایسے جوڑے کو سرعام گولیاں مار تے ہوئے دکھایا گیا ہے جس پر مبینہ طور پر’جنسی تعلقات‘ رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

جائے وقوعہ پر بنائی گئی ویڈیو ضلع ہنگو میں موبائل فون پرعام لوگوں اور مقامی صحافیوں کے پاس دستیاب ہے۔ ایک صحافی نے بتایا کہ موبائل فون سے بنائی گئی اس ویڈیو میں ایک خاتون اور مرد کو دوڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے جنہیں پیچھے سے بعض افراد کلاشنکوف سےگولیاں مار رہے ہیں۔

ان کے بقول گولیاں مارنے کے بعد دونوں زمین پرگر پڑتے ہیں اور خاتون گولی لگنے کے بعد بھی چیختی چلاتی ہوئی کہتی ہے’مجھ پر رحم کرو، میرے خلاف الزامات بے بنیا ہیں، کسی بھی مردنے مجھے چھوا تک نہیں ہے‘۔

ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ خاتون زمین پر لیٹی تڑپ رہی ہے جبکہ اس دوران وہاں پر مجمع سے ایسی آوازیں آتی ہیں کہ’ وہ ابھی تک زندہ ہے، مار دو گولی‘۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ تیرہ جنوری کو ضلع ہنگو سے تقریباً بیس کلومیٹر دور اورکزئی ایجنسی کی سرحد پر واقع کاہی کے علاقے میں پیش آیا ہے۔

اس سلسلے میں سرکاری موقف جاننے کے لیے ہنگو کے ایس پی شیر اکبر، کاہی پولیس چوکی کے اے ایس آئی غلام رسول سے رابطہ کیا گیا مگر شیر خان کا کہنا تھا کہ انکی مارچ میں ہی ہنگو منتقلی ہوچکی ہے اس لیے انہیں واقعہ کا علم نہیں جبکہ غلام رسول نے واقعہ سنتے ہی فون بند کردیا۔

تاہم اس بابت جب کاہی کے قریب واقع توغ سرئی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا گیا تو وہاں پر موجود ایک اہلکار نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ان کے بقول مقتول مرد کا نام لعل منشاء ہے اور اسکے بھائی نے ایف آئی آر میں کہا ہے کہ کسی نے انہیں ان کے بھائی کی قتل کی اطلاع دی اور جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائی اور ایک خاتون کی لاشیں دیکھی۔

ان کے مطابق مقتول کے بھائی نے ایف آئی آر میں کسی کو بھی نامزد نہیں کیا ہے البتہ کہا ہے کہ جب بھی انہیں کسی پر شک ہوگا وہ پولیس اسٹیشن آکر ایف آئی آر میں نام شامل کردیں گے لیکن تقریباً تین ماہ گزرنے کے باوجود بھی وہ ملزمان کی نامزدگی کرانے نہیں آئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس کے تفتیشی آفسر بختیار خان ہیں لیکن جب ان سے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا فون بند آرہا تھا۔

تاہم ہنگو پولیس کے ایک اور تفتیشی آفسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ تیرہ جنوری کو کاہی علاقے کے قبائلی مشران اور تقریباً سو عام لوگوں کی موجودگی میں ایک چالیس سالہ خاتون ملیاز بی بی اور پینتالیس سالہ لعل منشاء کو قتل کردیا گیا۔

ان کے مطابق دونوں پر الزام تھا کہ ان کے مبینہ طور پر ’ناجائز تعلقات ہیں‘ لہذا دونوں کو اپنے اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں سرِ عام قتل کردیا گیا۔

یاد رہے کہ صوبہ سرحد میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اپنی نوعیت کی یہ دوسری ایسی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں خواتین کو سرعام سزائیں دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس سے قبل سوات میں ایک لڑکی کو کوڑوں کی سزا دینے والی ایک ویڈ یو منظر عام پر آئی تھی جس پر پاکستان میں سول سوسائٹی اور بعض سیاسی جماعتوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے منعقد کیے تھے۔

بعد میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا تھا ۔ کیس کی سماعت کے موقع پر صوبہ سرحد کی حکومت نے ویڈیو کو جعلی قراردیا تھا تاہم عدالت نے صوبائی حکومت کی تفتیشی رپورٹ کو رد کرتے ہوئے سماعت پندرہ دن کے لیے ملتوی کردی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

خرم

محفلین
ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ خاتون زمین پر لیٹی تڑپ رہی ہے جبکہ اس دوران وہاں پر مجمع سے ایسی آوازیں آتی ہیں کہ’ وہ ابھی تک زندہ ہے، مار دو گولی‘۔
تو اگر یہ عوام فوجی کاروائی میں مر مرا بھی جائیں تو افسوس کیوں ہو؟ یہ لوگ جو ظلم کو روکتے نہیں بلکہ "تماشا"‌کرتے ہیں یہ شریک جرم نہیں کیا؟
 
Top