جوڈیشل اِنکوائری کمیشن اور عمران خان.ڈاکٹر عبدالقدیرخان (دھرنوں اور عمران کی سیاست کی منظرکشی)

جوڈیشل اِنکوائری کمیشن اور عمران خان...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان

289091_s.jpg

SMS: #AQC (space) message & send to 8001
dr.a.quadeer.khan@gmail.com
عمران خان اور ان کی پارٹی کی دھرنا پالیسی کے نتیجے میں حکومت نے پی ٹی آئی اور ن۔لیگ کے ایک معاہدے کے بعد ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جس کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو معزز جج صاحبان اس کمیشن کے ذریعہ عمران خان کے متعدد الزامات کی چھان بین کریں۔ الزامات میں نمبر ایک یہ تھا کہ نواز شریف صاحب نے الیکشن میں دل کھول کر منظم طریقے سے دھاندلی کی تھی اور اسکے نتیجے میں انھوں نے عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے عمران خان سے اقتدار چرالیا تھا۔ اسکے ساتھ ہی عمران خان نے سابق چیف جسٹس اِفتخار چوہدری پر بھی الزام لگایا کہ انھوں نے ریٹرننگ افسران سے نواز شریف صاحب کی حمایت میں دھاندلی کرائی، بیلٹ پیپرز کے بارے میں بھی الزامات تھے اور ناجائز ووٹوں کے استعمال کا بھی الزام تھا۔ معزز صحافی جناب نجم سیٹھی پر بھی الزامات لگائے گئے تھے۔ ن۔لیگ کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار صاحب ٹیم کے کپتان تھے اور تحریک انصاف کی طرف سے جناب شاہ محمود قریشی۔ ایک طرف گویا پیسوں کا کھیل تھا تو دوسری جانب خارجہ پالیسی کے ماہر تھے۔ دونوں تجربہ کار قابل سیاست داں ہیں اور انھوں نے چند میٹنگز کے بعد ہی ایک معاہدہ کرلیا اور حکومت نے اس معاہدے کی رو سے ایک جوڈیشل انکوائری کمیشن کی تشکیل کردی ۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس غلط فہمی کے اس قدر شکار تھے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئیگا کہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ 2015ء الیکشن کا سال ہے اور یہ کہ وہ ہی اب حکومت بنالیں گے۔ سیاست میں اتنی جلدی نتائج اخذ نہیں کئے جاتے۔ آپ نے دیکھا کہ مرحوم بھٹو صاحب اور انکے ساتھیوں نے یہ نیتجہ اخذ کر لیا تھا کہ ان کے مخالفین دیر یا بدیر تھک کر بیٹھ جائینگے اور وہ آرام سے حکومت کرتے رہینگے۔ ان کی حمایت میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہوں نے ایک پریس ریلیز جاری کردیا تھا۔ لیکن:
ہر چند داغ ایک ہی عیار ہے مگر
دشمن بھی تو چھٹے ہوئے سارے جہاں کے ہیں
جنرل ضیاء اور انکے ساتھیوں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ ماضی قریب کی حکایت ہے کہ ہم سب ہی اس سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ دور ہماری تاریخ کا درخشاں باب نہیں ہے۔
جوڈیشل کمیشن کا قیام اسلام آباد کی تاریخ کا بدترین دھرنوں کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اور عمران خان نے اسلام آباد کو ہائی جیک کرلیاتھا۔ تمام کاروبار بند ہوگیا،نوجوان طبقہ تعلیم چھوڑ کر ناچ رنگ میں لگ گیا۔ کنٹینرز پر روز نئے دعوے کئے جاتے اور پھر ان سے پیچھے ہٹ جاتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو الٹی میٹم دے دے کر ریکارڈ توڑ دیئے۔ حکومت کو ہفتوں نہیں، دن نہیں بلکہ گھنٹوں کے الٹی میٹم دیئے گئے اور پھر ان کو قبول نہ کیا گیا تو چپ ہوکر بیٹھ گئے۔ اس گرماگرمی میں چوہدری شجاعت جیسے سنجیدہ، شریف النفس سیاستداں بھی چکر میں آگئے اور روز ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر کے چکر لگانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے زرداری صاحب کے آخری ایام میں بھی ایک بہت بڑا ڈرامہ کھیلا تھا۔ ایک اعلیٰ آرام دہ، ایرکنڈیشنڈ کنٹینر میں صوفوں پر بیٹھ کر سیاست کرتے تھے اور اخباری خبروں کے مطابق فائیو اسٹار ہوٹل سے کھانا آتا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے حامی یا مُرید اُن کے اسی طرح وفادار ہیں جس طرح الطاف حسین کے پیروکار۔ عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے، سردی میں، بارش میں ڈیرہ لگائے بیٹھے رہے اور اسلام آباد کا وہ حشر کیا کہ کچی آبادی والے بھی نہیں کرتے، آپ ایک کلومیٹر سے ناک پر ہاتھ رکھے نہیں گزر سکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب عوام کے اسی طرح جذبات بھڑکا دیتے ہیں جس طرح جمال ناصر یا ہٹلر عوام میں آگ لگا دیتے تھے۔ انکی موجودگی میں عمران خان کے حوصلے بڑھتے چلے گئے اور وہ یہ یقین کر بیٹھے کہ بس ایک دو روز میں وزیر اعظم بن جائینگے۔ وہ بھی ایک ایک دو دو دن کے الٹی میٹم دینے لگے۔ اسلام آباد اور پنڈی کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی لاٹری نکل آئی۔ پڑھائی اور کتابیں تو ڈالیں کونے میں، نئے نئے کپڑے پہنے اور جلسہ گاہ بلکہ دھرنا گاہ پہنچ گئے اور دُھنوں پر ناچنا شروع کردیا۔ پارلیمنٹ ہائوس، پی ٹی وی وغیرہ پر یلغار کی گئی، جنگلے توڑے گئے اور پولیس پر تشدد کیا گیا۔ روز بروز خواہشات و ڈیمانڈ بڑھتے گئے اور ہر بات میں ، ہر لمحہ گیند، وکٹ اور بلّے کی رٹ لگی رہی۔حاصل کیا ہوا؟ کچھ نہیں سوائے ایک لیمن کے۔ ڈاکٹر طاہر القادری، اپنے آرام دہ کنٹینر میں سو جاتے تھے اور عمران خان اپنے بنی گالہ کے بنگلے میں، عوام بے چارے بیوقوف بنتے رہے۔ اَمپائر کی انگلی تو ضرور اُٹھی مگر کلمہ والی نہیں، بیچ والی اور خدا جانے اشارہ کس سمت میں تھا۔ مذہبی رہنمائوں کی روایت پر قائم رہتے ہوئے ڈاکٹر قادری ناسازیٔ طبیعت کی وجہ بتا کر اپنے نئے ملک کینیڈا چلے گئے۔ انکے جانے سے عمران خان کے غبارے کی ہوا نکل گئی، لاہور سے ریلی، پارلیمنٹ پر حملہ، وزیر اعظم ہائوس کی جانب مارچ سب بے ہوا کے غبارہ بن گئے۔ عزیز دوست وسنجیدہ سیاست داں جناب جاوید ہاشمی نے بلا ضرورت تصادم کی پالیسی سے انحراف کرکے عمران خان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ان تمام دھرنوں کی وجہ سے سب سے زیادہ خوش فہمی عمران خان اور ان کے چند ساتھیوں، فرزند راولپنڈی جناب شیخ رشید احمد اور جناب چوہدری شجاعت حسین اور جناب پرویز اِلٰہی کو ہوئی۔ لوگوں نے نئی کالی شیروانیاں بنوانے کی تیاریاں شروع کردیں۔
ان تمام دَھرنوں سے ملکی معیشت کو بے حد نقصان پہنچا، حکومت بالکل غیرفعال ہوگئی، بیرون دنیا میں ملک کی امیج خراب ہوگئی اور چینی صدر کا اہم دورہ ملتوی ہوگیا۔ یہی نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ، کے پی کے، اسلام آباد میں رہے اور اپنے صوبہ کو بالکل نظرانداز کردیا۔ شہر میں دہشت گردی کے ہولناک واقعات نے جنم لیا۔ میٹنگز پشاور میں ہونے کے بجائے بنی گالہ میں ہونے لگیں بجائے اسکے کہ عمران خان ایک شخص وہاں چلے جاتے پوری حکومت گاڑیوں اور پولیس کے قافلوں کے ساتھ بنی گالہ آنے لگی۔ پچھلے دنوں سنجیدہ و قابل وکیل حامد خان صاحب نے پارٹی میں مشرف کے ساتھیوں کی اہمیت اور چوہدراہٹ پر سخت تنقید کی۔ جسٹس وجیہ الدین پہلے سے ہی ناراض ہیں۔
چھ ماہ کے دھرنے کو گنیز بک میں ریکارڈ کرانے کیلئے ہم نے کتنے قیمتی گھنٹے ضائع کئے، چھ ماہ میں تقریباً 180 دن ہوتے ہیں اور ہر دن میں 24 گھنٹے، اس طرح چھ ماہ میں 4320 گھنٹے۔ اگر ان دعوئوں کے مطابق 50 ہزار مظاہرین روز شرکت کر رہے تھے اور ہم بجائے 24 گھنٹوں کے صرف 12 گھنٹہ ہی ان دھرنوں کی نظر کریں تو 2160x50000 گھنٹے یعنی قوم (اور نوجوانوں) کے تقریباً 108 ملین گھنٹے یعنی تقریباً 11 کروڑ گھنٹے اس بے سود مشق کی نظر ہوئے۔ اگر یہی وقت اپنے صوبے میں صفائی، شجرکاری وغیرہ میں صرف کیا جاتا تو کس قدر مفید نتائج سامنے آتے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اتنے طویل عرصہ سیاست میں حصّہ لیتے ہوئے بھی عمران خان میں پختگی نہیں آئی۔ ایک وقت تھا کہ جب وہ اور ڈاکٹر طاہر القادری پورے جوش و خروش سے دھرنا دے رہے تھے، میاں نواز شریف (اور زرداری صاحب) اس حق میں تھے کہ ان کو حکومت میں شامل کرلیا جائے، سنا ہے کہ ان کو سینئروزیر یا نائب وزیر اعظم بنانے کی بھی باتیں ہورہی تھیں۔ انھیں چاہئے تھا کہ وہ اس وقت ایک اچھا معاہدہ کرکے حکومت میں شامل ہوجاتے اور پھر اندر سے بہتری لانے کی کوشش کرتے۔ کے پی کے میں اعلیٰ کارکردگی دکھا کر عوام کا دل موہ لیتے اور اگلے الیکشن کی پوری تیاری کرتے مگر خود انھوں نے یا ان کے ساتھیوں کے مشورے پر مفاہمت کے بجائے تصادم و شارٹ کٹ اقتدار حاصل کرنے کی حکمت عملی پر زور دیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے ایک بھی ایسا اہم مطالبہ نظر نہیں آیا جو قبول کیا گیا ہو اور ہر مطالبہ کرکے عمران خان اس سے مکرگئے۔ جہاں تک جوڈیشل کمیشن کے قیام کا معاملہ ہے تو وزیر اعظم نے سمجھداری سے وقت لیا اور جب عمران خان عوام کے سامنے اپنی اہمیت کھو بیٹھے تو اس وقت میاں صاحب نے رِیورس سوئنگ بال کرکے عمران خان کو بولڈ کردیا۔ کمیشن نے جو فیصلہ دیا وہ مختصراً یہ تھا کہ عمران خان کے الزامات و دعوئوں کے برعکس کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی، الیکشن کمیشن نے اپنا کام ٹھیک کیا، ہاں! ناتجربہ کاری کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے عملے نے غیر دانستہ طور پر کچھ غلطیاں کیں مگر ان سے عوام کے مینڈیٹ پر بالکل اثر نہیں پڑا۔ عمران خان صاحب کے الیکشن کے نعرے اب ختم ہوگئے اور انھیں 2018 ء کے الیکشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے گویا خود کو عقلمند اور دوسروں کو بے وقوف۔ میں عمران خان کو انکے اپنے مفاد کی خاطر یہ حقیر سا مشورہ دونگا کہ وہ پریس کانفرنس وغیرہ میں مختصر تقریر کیا کریں وہ مائیک سے اس طرح چمٹ جاتے ہیں جیسا کہ ایک بچہ سائیکل یا کھلونے سے چمٹ جاتا ہے۔ وہ بغیر دھیان دیئے بار بار ان ہی باتوں کو دہرانے میں لگے رہتے ہیں، کم بولیں، اہم موضوعات پر مختصر بولیں
مجھے ان کے واقعہ سے مولانا رومیؒ کا بیان کردہ حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کا واقعہ یاد آگیا۔ حضرت موسیٰ ؑنے فرعون کو ایمان کی دعوت دی، اس نے اپنی بیگم حضرت آسیہ ؒ سے مشورہ لیا ، انھوں نے کہا کہ بلاحیل و حجت قبول کر اور اللہ کی وحدانیت اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لے آ، مگر اس نے اپنے مشیر خاص و وزیر ہامان سے مشورہ لیا اور ہامان نے اسے بہکا کر اس پر عمل کرنے سے روک دیا۔ جب حضرت موسیٰؑ کو اس کا علم ہوا تو آپ ؑنے فرمایا کہ ہم نے(یعنی خداوند کریم نے ان کے ذریعے) تم کو صحیح راہ دکھانے کی کوشش کی مگر تم نے کم عقل مشیر کے مشورے پر عمل کیا۔ تمھارے مقدر میں ہی گمراہی میں رہنا تھا۔
عمران خان سے نوجوانوں کی بہت اُمیدیں وابستہ ہیں اگر انھوں نے صحیح راہ اختیار نہ کی تو دو سال بعد لوگ ان کو تاریخ کا پارینہ ورق بنادینگے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ڈاکٹر صاحب تو چھا گئے ہیں ۔ اگر انتخابی اصلاحات کا عمل نتیجہ خیز ہو جائے تو مذکورہ زیاں کا ازالہ ہو بھی سکتا ہے :)
 
Top