جوش ملیح آبادی ۔ نظم

Safia kausar

محفلین
سراغ ِ راہرو

جہاں زمیں پر رگڑ کا نشاں ہویدا ہے

دلیل اس کی ہے سانپ اس طرف سے گزرا ہے


نشان ہلال نما راہ میں بتاتے ہیں

کہ تھوڑی دُور پہ آگے سوار جاتے ہیں


غبارِ راہ نشاں ہے کسی تگ و پو کا

یقین ہوتا ہے نقش قدم سے راہرو کا


صنم تراش نہ ہو تو صنم نہیں بنتا

قدم نہ ہو تو نشان ِ قدم نہیں بنتا


یونہی یہ راہ کہ ہے جس کا نام کاہ کشاں

یونہی یہ نقش ِ قدم ماہ و نیّر ِ تاباں


یونہی یہ گرد ِ سر ِ راہ خوش نما تارے

رواں ہیں جن کی جبینوں سے حسن کے دھارے


زمیں کا نور ہیں اور آسماں کی زینت ہیں

کسی کی شوخیء رفتار کی علامت ہیں


کلام: جوش ملیح آبادی

1892ء ۔ 1986ء

مآخذ: سرود و خروش
 
Top