محمد اجمل خان
محفلین
جوانی کہاں کھپایا
جوانی کا مطلب لہو و لعب یا تفریح میں وقت گنوانا نہیں ہے۔ جوانی انسانی زندگی کا سب سے قیمتی دور اور سب سے بڑی نعمت ہے۔ پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر نعمت کے ساتھ آزمائش ہے، جوانی بڑی آزمائش کا دور بھی ہے۔ جو اس دورِ جوانی میں کامیاب ہو گیا وہی اصل کامیاب ہے۔ جوانی میں کئے گئے عبادت ہی بڑھاپے کی خوشگوار زندگی کی ضامن ہے۔ جو لوگ جوانی میں اپنا بڑھاپا اور اپنی آخرت سنوارنے کا کام کرتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج مسلم نوجوانوں کو جوانی میں صرف مال بنانے کی فکر رہتی ہے۔ جبکہ اگر وہ اپنی آخرت کی فکر کریں تو دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی مل جائے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
"جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ باایمان، اسے ہم (دنیا میں) پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے" (97) سورة النحل
جو لوگ جوانی میں اپنی آخرت کو نظرانداز کرتے ہیں وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق جو نوجوان اپنی جوانی کی امنگوں میں اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہیں گے انہیں قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ ملے گی، جبکہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری: 660)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک تمہارا رب اس نوجوان پر تعجب کرتا ہے، جو اپنی نوجوانی میں (باطل) خواہشات کی طرف میلان نہ رکھتا ہو"۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، حدیث نمبر: 1145، رقم الحديث ترقيم الباني: 2843)
ہر دور میں نوجوان ہی ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہر قوم کی تاریخ میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی آزادی اور امن و امان کی بحالی میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں کون نہیں جانتا؟ آپ علیہ السلام اپنی نوجوانی میں اپنے قبیلے کی بت پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ قرآن مجید میں کہا ہے:
"لوگوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہے جو ان (بتوں) کا ذکر (تنقید) کیا کرتا ہے اور اسے ابراہیم کہا جاتا ہے" (60) سورة الأنبياء
اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر مناسب وقت میں خصوصی نعمتیں عطا کرتے ہیں اور اکثر لوگوں کو نوجوانی میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خاص نعمت عطا کی جاتی ہیں۔
"اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمت (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں" (14) سورة القصص
اپنے پر غور کیجئے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو کون سی خاص نعمت سے نوازا ہے، اس نعمت کا صحیح استعمال کیجئے اور کامیاب ہوجائیے۔
جوانی میں جو لوگ میں نیکوکار ہوتے ہیں اللہ تعالٰی انہیں بہترین اجر دیتے ہیں۔ اصحابِ کہف کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنے ایمان کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے خاندان اور قبیلے کو چھوڑ دیا تھا، اللہ رب العزت نے ان کے واقعے کو قرآن مجید بیان کرکے انہیں عزت بخشی اور ہمیشہ کیلئے یادگار بنا دیا۔ پھر ہر جمعہ کو ہر مسلمان کو ان کے واقعے کو پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرنے کا حکم اپنی نبی ﷺ کے زبانی فرما دیا۔
"ہم ان کا اصل قصہ آپ کو سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی" (13) سورة الكهف
جوانی کی طاقت کے نشے میں بعض نوجوان گناہ اور سرکشی کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا‘‘۔ (صحیح بخاری: 5065)
آج کے بعض نوجوان مغرب کی نقالی میں عجیب و غریب ڈیزائن کے لباس، بالوں کی کٹنگ، کان میں عورتوں کی طرح بالیاں، ہاتھ میں کڑے، گلے میں زنجیر وغیرہ کی فیشن کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ (سنن ترمذي: 2784)
سوچیں! جن پر رحمت اللعالمین لعنت بھیجیں ان کا کیا بنے گا؟
اپنی جوانی کو ان خرافات سے پاک رکھئے اور لعنت زدہ ہونے سے بچئے۔
یاد رکھئے، آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ "جوانی کہاں کھپایا ہے اس کا حساب نہ دے دے"۔ (سنن ترمذی: 2416)-
اپنے بڑھاپے کا انتظار کئے بغیر اپنی جوانی کو اپنے رب تعالٰی کی طاعت و عبادت میں صرف کیجئے۔ دین اسلام میں علم سیکھنے اور سکھانے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ بڑی عبادت ہے۔ آج کے نوجوانوں کی مجبوری ہے کہ زندگی کا بیشتر حصہ وہ اسکول، کالج اور یونیورسیٹی کے دھکے کھانے میں گزار دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تھوڑی سی کوشش سے ہی آپ دین کا علم سیکھ سکتے ہیں۔ اپنے روزانہ کے معمولات میں قرآن و سنت کی کچھ باتیں سیکھنے کا معمول بنا لیجئے۔
دین کی صحیح علم کے بغیر گمراہی میں پڑنے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بغیر علم کے اپنے رب کو پہچاننا ممکن نہیں ہوتا چہ جائیکہ صحیح طریقے سے رب کی عبادت کی جائے۔
لہذا علم سیکھئے اور اپنے رب کو پہچان لیجئے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
جوانی کا مطلب لہو و لعب یا تفریح میں وقت گنوانا نہیں ہے۔ جوانی انسانی زندگی کا سب سے قیمتی دور اور سب سے بڑی نعمت ہے۔ پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر نعمت کے ساتھ آزمائش ہے، جوانی بڑی آزمائش کا دور بھی ہے۔ جو اس دورِ جوانی میں کامیاب ہو گیا وہی اصل کامیاب ہے۔ جوانی میں کئے گئے عبادت ہی بڑھاپے کی خوشگوار زندگی کی ضامن ہے۔ جو لوگ جوانی میں اپنا بڑھاپا اور اپنی آخرت سنوارنے کا کام کرتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج مسلم نوجوانوں کو جوانی میں صرف مال بنانے کی فکر رہتی ہے۔ جبکہ اگر وہ اپنی آخرت کی فکر کریں تو دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی مل جائے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
"جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ باایمان، اسے ہم (دنیا میں) پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے" (97) سورة النحل
جو لوگ جوانی میں اپنی آخرت کو نظرانداز کرتے ہیں وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق جو نوجوان اپنی جوانی کی امنگوں میں اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہیں گے انہیں قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ ملے گی، جبکہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری: 660)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک تمہارا رب اس نوجوان پر تعجب کرتا ہے، جو اپنی نوجوانی میں (باطل) خواہشات کی طرف میلان نہ رکھتا ہو"۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، حدیث نمبر: 1145، رقم الحديث ترقيم الباني: 2843)
ہر دور میں نوجوان ہی ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہر قوم کی تاریخ میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی آزادی اور امن و امان کی بحالی میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں کون نہیں جانتا؟ آپ علیہ السلام اپنی نوجوانی میں اپنے قبیلے کی بت پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ قرآن مجید میں کہا ہے:
"لوگوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہے جو ان (بتوں) کا ذکر (تنقید) کیا کرتا ہے اور اسے ابراہیم کہا جاتا ہے" (60) سورة الأنبياء
اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر مناسب وقت میں خصوصی نعمتیں عطا کرتے ہیں اور اکثر لوگوں کو نوجوانی میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خاص نعمت عطا کی جاتی ہیں۔
"اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمت (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں" (14) سورة القصص
اپنے پر غور کیجئے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو کون سی خاص نعمت سے نوازا ہے، اس نعمت کا صحیح استعمال کیجئے اور کامیاب ہوجائیے۔
جوانی میں جو لوگ میں نیکوکار ہوتے ہیں اللہ تعالٰی انہیں بہترین اجر دیتے ہیں۔ اصحابِ کہف کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنے ایمان کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے خاندان اور قبیلے کو چھوڑ دیا تھا، اللہ رب العزت نے ان کے واقعے کو قرآن مجید بیان کرکے انہیں عزت بخشی اور ہمیشہ کیلئے یادگار بنا دیا۔ پھر ہر جمعہ کو ہر مسلمان کو ان کے واقعے کو پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرنے کا حکم اپنی نبی ﷺ کے زبانی فرما دیا۔
"ہم ان کا اصل قصہ آپ کو سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی" (13) سورة الكهف
جوانی کی طاقت کے نشے میں بعض نوجوان گناہ اور سرکشی کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا‘‘۔ (صحیح بخاری: 5065)
آج کے بعض نوجوان مغرب کی نقالی میں عجیب و غریب ڈیزائن کے لباس، بالوں کی کٹنگ، کان میں عورتوں کی طرح بالیاں، ہاتھ میں کڑے، گلے میں زنجیر وغیرہ کی فیشن کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ (سنن ترمذي: 2784)
سوچیں! جن پر رحمت اللعالمین لعنت بھیجیں ان کا کیا بنے گا؟
اپنی جوانی کو ان خرافات سے پاک رکھئے اور لعنت زدہ ہونے سے بچئے۔
یاد رکھئے، آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ "جوانی کہاں کھپایا ہے اس کا حساب نہ دے دے"۔ (سنن ترمذی: 2416)-
اپنے بڑھاپے کا انتظار کئے بغیر اپنی جوانی کو اپنے رب تعالٰی کی طاعت و عبادت میں صرف کیجئے۔ دین اسلام میں علم سیکھنے اور سکھانے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ بڑی عبادت ہے۔ آج کے نوجوانوں کی مجبوری ہے کہ زندگی کا بیشتر حصہ وہ اسکول، کالج اور یونیورسیٹی کے دھکے کھانے میں گزار دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تھوڑی سی کوشش سے ہی آپ دین کا علم سیکھ سکتے ہیں۔ اپنے روزانہ کے معمولات میں قرآن و سنت کی کچھ باتیں سیکھنے کا معمول بنا لیجئے۔
دین کی صحیح علم کے بغیر گمراہی میں پڑنے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بغیر علم کے اپنے رب کو پہچاننا ممکن نہیں ہوتا چہ جائیکہ صحیح طریقے سے رب کی عبادت کی جائے۔
لہذا علم سیکھئے اور اپنے رب کو پہچان لیجئے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔