جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

گستاخانہ خاکے بنانے والے اور اسلام، قرآن یا نبی آخر الزماں محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے آج دنیا میں کن حالات سے دوچار ہیں اور کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں، چند اقساط میں ہم ایسے ہی بدبختوں کی عبرتناک زندگی کا احوال بیان کریں گے تاکہ سب کو نصیحت ہو۔
گھر کے چار اطراف پولیس تھی.... خفیہ اہلکار سادہ لباس میں گشت پر تھے۔ کھڑکیاں دروازے سب بند تھے۔ آس پاس ہونے والی معمولی حرکات و سکنات کو نوٹ کرنے کے لئے سکیورٹی کیمرے نصب تھے.... گھر کے اندر ایک شخص اپنی پوتی کے ساتھ کھیل رہا تھا.... یہ شخص گزشتہ 4 سال سے اس گھر میں چھپ کر بیٹھا ہوا تھا.... وہ جہاں بیٹھا تھا اس کے بالکل ساتھ لیٹرین کا دروازہ تھا، وہ زیادہ تر اسی دروازے کے پاس بیٹھتا تھا۔ اچانک اس کے سامنے والی دیوار کی کھڑکی تڑاخ سے ٹوٹی، گھر کے اندر بیٹھے شخص کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے، جسم ڈھیلا اور آنکھیں پتھرانے لگیں، کھڑکی سے ایک سیاہ فام نوجوان نے سر نکالا جس کے ایک ہاتھ میں کلہاڑی اور دوسرے میں چاقو تھا۔ سیاہ فام نوجوان نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور چھلانگ لگائی۔ وہ شخص سمجھ گیا کہ یہ نوجوان اسے قتل کرنے آیا ہے۔ اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ.... اپنے قریب واقع دروازہ کھولا اور لیٹرین میں گھس گیا، یہ جگہ اصل میں بھی لیٹرین ہی تھی لیکن یہ اس گھر کا سب سے مضبوط اور محفوظ مقام بھی تھا۔ اس کا دروازہ بلٹ پروف تھا۔ اسے خاص طور پر محفوظ بنایا اور جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا تھا اور اسے Panic room کا نام دیا گیا تھا۔ اس شخص نے اندر گھستے ہی باہر موجود اور شہر کی پولیس کو فون شروع کر دیئے۔ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد اندر داخل ہوئی۔ سیاہ فام نوجوان کو دیکھتے ہی انہوں نے زبردست فائرنگ شروع کر دی۔ کئی گولیاں نوجوان کے جسم میں پیوست ہو گئیں اور وہ گر پڑا، اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا گیا اور سخت پہرہ لگا دیا گیا۔
یہ واقعہ سال رواں کے ماہ جنوری میں ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہرaahrus میں پیش آیا جہاں ڈنمارک کا گستاخ خاکہ نویس کرٹ ویسٹ گارڈ رہائش پذیر تھا۔ کرٹ کو حکومت ڈنمارک نے سخت سکیورٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بتایا تھا کہ اسے قتل کرنے کے خواہش مند بچوں اور دیگر اہل خاندان پر کبھی وار نہیںکرتے بلکہ اپنے مخصوص ہدف ہی کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ بات اسے ڈنمارک کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسی جسے PET کہا جاتا ہے نے بھی بتائی تھی۔ اس لئے اس کی پوتی اکثر اس کے پاس ہی رہتی تھی۔
کرٹ ویسٹ گارڈ ڈنمارک کے ان 12 کارٹونسٹوں میں سے تھا جنہوں نے خاکے بنائے تھے۔ خاکے بنانے والے تمام کارٹونسٹ آج کل اس طرح چوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کرٹ ویسٹ گارڈ کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ اب اس کی زندگی بالکل بدل کر رہ گئی ہے، وہ زندہ لاش بن گیا ہے۔ حملے کے بعد معروف عالمی برطانوی اخبار گارڈین نے اس کا انٹرویو شائع کیا جس میں اس کے شب و روز کے بارے میں مختصراً بتایا گیا۔ ویسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ جس گھر میں وہ رہتا ہے وہ دیکھنے کو تو عام سا گھر ہے لیکن دراصل یہ Fortress without moat ہے۔ یعنی ایسا قلعہ جس کے گرد بظاہر وہ چوڑی اور گہری خندق موجود نہیں جس میں دشمن کو روکنے کے لئے پانی بھی بھر دیا جاتا ہے۔
چار اطراف سکیورٹی کیمرے ہیں اور کھڑکیاں دروازے انتہائی مضبوط۔ وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا، اسے اپنا شیڈول ہر مہینے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ہر وقت اپنے ساتھ الارم اور اس کے مقام کی نشاندہی کرنے والے آلات ”نصب“ کرنے پڑتے ہیں جہاں وہ موجود ہوتا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں اس کے ساتھ چلتی ہیں۔ خاکے بنانے کے بعد جب ویسٹ گارڈ کے یہ حالات ہوئے تو اس نے کہا تھا کہ اس نے جو خاکہ بنایا ہے وہ مسلمانوں کے نبی حضرت محمدﷺ کا نہیں بلکہ وہ تو کسی عام انتہا پسند کی شبیہہ ہے۔ مثلاً کوئی طالبان جنگجو.... ایسا ہی حال دوسرے خاکوں کا بھی ہے لیکن انہیں the face of muhammad کی سرخی کے تحت چھاپ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ بہانہ نہ چل سکا کیونکہ اخبار نے تو مقابلہ ہی گستاخانہ خاکوں کا کرایا تھا۔
ویسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد ڈنمارک کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بدترین تھے۔ یہ 2007ءکی بات ہے ویسٹ گارڈ اپنی بیوی کے ہمراہ چھٹیاں منانے فرانس جانا چاہتا تھا، وہ مکمل تیاری کے بعد گھر سے نکلنے والے تھے کہ PET نے انہیں کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے وہ یہاں سے باہر نہ جائیں۔ ویسٹ گارڈ کے الفاظ میں ”اس کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوا....؟ میں نے آسمان تک نہیں دیکھا، ایسے لگا کسی سمندر کی سی گہرائی ہے۔ سب کچھ ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ ذہنی دباﺅ ہے.... مایوسی کے سخت اندھیرے ہیں۔
یہاں سے ہم ایک چھوٹے ہوٹل (جسے holiday cottage کہا جاتا ہے) سے دوسرے تک منتقل ہوئے تو ہمیں 9 مرتبہ مقامات تبدیل کرنے پڑے، 9 مختلف گاڑیوں میں بار بار سوار ہونا پڑا، ہم کسی جگہ 4 ہفتے سے زیادہ قیام نہیں کر سکے“۔
ویسٹ گارڈ اب اپنی لائبریری سے بھی دور ہے۔ اس کا اپنا کمرہ اور بیڈ اسے نصیب نہیں، اس کا کہنا ہے کہ وہ بے تحاشہ شراب پیتا ہے اور کوئی رات نہیں گزرتی جب وہ خوب پی کر نہ سوتا ہو۔ اس پر اس کی بیوی بھی اسے کوئی برا بھلا نہیں کہتی، بلکہ اب تو وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ”ہم تو بس قید ہیںہم یہ بھی نہیں بتا سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں کتنا ٹھہرنا ہے اور یہ کہ ہمارے اردگرد ہو کیا رہا ہے“ ایک دفعہ انہوں نے انتہائی احتیاط سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ باہر پہنچتے ہی اس کی گاڑی کے پاس چار افراد آئے۔ وہ مشرق وسطیٰ کے باشندے لگتے تھے، 2 مرد اور 2 خواتین تھیں، انہوں نے آتے ہی کہا کہ ”تم جہنم میں جاﺅ گے تم جہنم میں جاﺅ گے“ اس بات پر پولیس کو بلایا گیا لیکن پولیس کے آتے آتے دیر ہو گئی اور وہ لوگ جا چکے تھے۔ بات یہیں تک نہیں ہے اب تو اس کی بیوی جو چھوٹے بچوں کے ایک kindergarten سکول میں پڑھاتی ہے کو مقامی حکام نے فون کے ذریعے سے منع کر دیا کہ وہ اب سکول نہ جائے، اس کے مطابق ”یہ صورتحال انتہائی خوفناک تھی کہ ہمیں معاشرے میں اب کیا سمجھا جا رہا ہے....“ بات صرف اسی ایک بڑے حملے کی ہی نہیں اگر اسے اپنے خاندان میں سے کوئی اپنی پارٹی میں بلانا چاہتا ہے تو وہ پہلے انٹیلی جنس کو فون کرتا ہے کہ (کرٹ ویسٹ گارڈ کو) بلانا کیسا رہے گا اور کیا خطرے کا باعث تو نہیں ہو گا ”اب وہ صرف پناہ گاہ میں محصور ہے دفتر تک نہیں جا سکتا۔ گارڈین کے نمائندے میرے لوئیس سجوے نے بتایا کہ ”جب میں اس سے آخری بار ملا تو اداسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں (melancholy) میں ڈوبا ہوا تھا جو اس کی آنکھوں سے جھلک رہے تھے۔ وہ ناراض تھا اور بغاوت پر آمادہ، اس کا کہنا تھا وہ ”بذات خود اپنے آپ کو بہادر انسان نہیں پاتا۔ اگر ملک پر قبضہ ہونے جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ مجھے جان بوجھ کر شدید نقصان کرنا چاہئے۔ میں کہیں بھی بیٹھ کر ڈرائننگ بنانا چاہوں گا لیکن موجودہ صورتحال میں تو میں پریشان ہو جاﺅں گا، یہ تو درست نہیں ہے کہ آپ اپنے ملک میں بھی اپنا کام کرتے ہوئے شدید خطرات سے دوچار ہو جائیں۔ میرے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے، کیونکہ یہ سب حالات تو مجھے بغاوت پر آمادہ کر رہے ہیں میں تو کم از کم ان سب کا حق دار نہیں تھا۔
(جاری ہے)

http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen01.htm
 
Top