جنگلی حیات بھی متاثر

101005043408_deer_226.jpg

سندھ میں حالیہ سیلاب نے جنگلی اور آبی حیات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کے دریائی جنگلات میں ہرن، جنگلی سوئر، تیتر، جنگلی بلی، لومڑی اور گیدڑ پائے جاتے ہیں، جبکہ یہ علاقہ سانپوں، چھپلکیوں کا بھی مسکن ہے۔
صوبے کے اکثر جنگلات حکومت کے ماتحت ہیں جبکہ کچھ نجی بھی ہیں، جنہیں کیٹی کہا جاتا ہے۔ ان کیٹیوں میں پیر پاگارہ، ممتاز بھٹو، کھڑا، خشک، جتوئی اور دیگر کیٹیاں شامل ہیں، جو جنگلی حیات کا مسکن تھیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر حسین بخش بھاگت کا کہنا ہے کہ ان دریائی جنگلات میں پندرہ سو سے سولہ سو تک پھاڑا (ہرن کی مقامی قسم) موجود تھا، خدشہ ہے کہ ان میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد پانی میں بہہ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی کچے کے علاقے میں پانی داخل ہوا یہ جانور خشکی کی طرف نکلے، مگر لوگوں نے ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا، کچھ لوگوں نے انہیں پالنے کے لیے پکڑا تو کچھ نے شکار کیا۔
سیلاب سے متاثر ہونے والے چھوٹے جانداروں کی جلد بحالی نہ ہوئی تو کچے کے علاقے میں ایک بڑی تبدیلی آئیگی جس کے اثرات وہاں کی کاشت، لائیو اسٹاک اور انسانی آبادی پر بھی مرتب ہوں گے​
حسین بخش بھاگت
محکمہ جنگلی حیات نے لوگوں کی تحویل سے ستاسی کے قریب پھاڑے برآمد کیے ہیں جبکہ ان کا غیر قانونی شکار کرنے کے الزام میں اٹھارہ مقدمات دائر کیے گئے۔
چیف کنزرویٹر حسین بخش بھاگت کا کہنا ہے کہ جو پھاڑے ابھی کچے کے علاقے میں موجود ہیں ان کی برآمدگی وقت کے ساتھ کم ہوتی جائیگی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ واپس چلے جائیں گے ورنہ شکار ہوجائیں گے یا ان کی فطری موت واقع ہوجائیگی، تاہم ان کے محکمے کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ برآمدگی کی جائے تاکہ اس نایاب جانور کو بچایا جاسکے۔
محکمہ جنگلی حیات نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تیتر کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے، سندھ میں تیتر کی دو اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں کالا اور بھورا تیتر شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق تیتر بڑی پرواز نہیں کرسکتا ہے اور تھوڑی پرواز کے بعد زمین پر دوڑنے لگتا ہے۔
بقول حسین بخش بھاگت کچھ تیتر پانی میں گر کر مرگئے اور کچھ لوگوں نے پکڑے لیے، جو بچاؤ بندوں کے قریب تھے انہوں نے قریبی کھیتوں میں یا درختوں پر پناہ لے لی، اب صورتحال میں بہتری کے بعد امکان ہے کہ وہ واپس آجائیں گے مگر خدشہ یہ ہے کہ ساٹھ سے ستر فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے۔
ماہرین جنگلی حیات کے مطابق دریائے سندھ کے جنگلات میں رینگنے والے جانداروں کی اکثریت پانی میں بہہ گئی ہے اور ان کے بل مکمل طور پر زیر آب آگئے ہیں، ان جانداروں میں سانپ، چھپکلیاں، کیڑے مکوڑے شامل تھے۔
صوبائی محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ سیلاب سے لومڑی، گیدڑ ، چوہے، جنگلی بلی، اود بلاؤ بھی سو فیصد متاثر ہوئے ہیں۔
جنگلی حیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جنگلی حیات کا سروے کیا جارہا۔ ادارے کے اہلکار ڈاکٹر علی اکبر کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کے مسکنوں کی اصلی صورتحال بحال ہونے میں کم سے کم تین سال لگ جائیں گے۔ ان کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہے کہ ان کی شکار پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے۔
دوسری جانب سیلاب نے دریائے سندھ میں موجود نایاب انڈس ڈولفن کو بھی متاثر کیا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر حسین بخش بھاگت کا کہنا ہے کہ جب بھی پانی آتا ہے تو انڈس ڈولفن سکھر ڈاؤن اسٹریم میں سے نکل کر نہروں میں چلی جاتی ہے اور جنوری میں جب یہ نہریں بھل صفائی کے لیے بند کی جاتی ہیں تو اس وقت انہیں بچا لیا جاتا ہے۔
صوبائی محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سیلابی صورتحال ختم ہوگی بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے جنگلی حیات اور ان کی مسکن کا سروے ہوگا جس کے بعد ان کی بحالی کا منصوبہ بنایا جائیگا۔
حسین بخش بھاگت کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے چھوٹے جانداروں کی جلد بحالی نہ ہوئی تو کچے کے علاقے میں ایک بڑی تبدیلی آئیگی جس کے اثرات وہاں کی کاشت، لائیو اسٹاک اور انسانی آبادی پر بھی مرتب ہوں گے۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101004_wildlife_floods.shtml
 
Top