جنت میں صرف ہم جائیں گے

رباب واسطی

محفلین
ہمارے بڑے بھائی اور فلیمنگ کا کردار!
دو سگے مسلم بھائیوں میں خاندانی مکان کے سلسلے میں تنازعہ عدالت میں پہنچا اور عدالت نے چھوٹے بھائی کے حق میں فیصلہ کردیا اس تاکید کے ساتھ پندرہ دن کے اندر چھوٹے بھائی کو قبضہ دیدیا جائے۔
اس فیصلے پر بڑے بھائی کے دِل پر سانپ لوٹ گیا۔ وہ گھرجس پر تنازعہ تھا خاصا ڈیکوریٹیڈ تھا۔ بڑے بھائی نے غصے کے مارے جاتے جاتے گھر کی ٹیوب لائٹس ہی نہیںکھونٹیاں تک نکال لیں۔ جب چھوٹے بھائی کو قبضہ ملا تو اسے غسل خانے وغیرہ میں پائپ کی ٹونٹی تک نئی لگوانی پڑیں۔ بجلی کا ،بل جو کئی برسوںسے اد ا نہیں کیا گیا تھا وہ بھی چھوٹے بھائی ہی کو ادا کرنا پڑا۔
آج ایک مضمون پڑھا جو قصہ کہانی نہیں ایک ابنِ آدم کی روداد ہے جسے یہاں پیش کرنے کا صرف ایک مقصد ہے کہ ہمارے سنجیدہ قارئین اس سے نہ صرف باخبر ہوں بلکہ اس جذبہ ٔ ایثار کے بارے میں سوچنے پر بھی مجبور ہوں:
بیسویں صدی میں ایک صاحب گزرے ہیں ،نام تھا اُن کا الیگزنڈر فلیمنگ،پنسلین کی دریافت کا سہرا اُنہی کے سر ہے ،اس دوا نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں، یہی وجہ ہے کہ ٹائم میگزین نے جب بیسویں صدی کے 100اہم ترین لوگوں کی فہرست میں اس عظیم شخص کو شامل کیاتو یہ جملہ لکھا کہ ’’اس دریافت نے تاریخ کا دھارا تبدیل کر کے رکھ دِیا۔‘فلیمنگ کو 1945میں طب کے شعبے میں نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔
الیگزینڈر فلیمنگ ایک درویش آدمی تھا،پنسلین کی ایجاد کے بعد دوا ساز کمپنیوں نے انہیں دس فیصد رائلٹی تک کی آفر کی جو اُنہوں نے یہ سمجھ کر قبول نہیں کی کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کیونکہ سارا کام تو اُنہوں نے کیا ہے جبکہ کمپنی انہیں فقط دس فیصد پر ٹرخا نے کی کوشش کر رہی ہے ،تاہم بعد میں جب اس دس فیصد رائلٹی کا تخمینہ لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ بھی لاکھوں پاؤنڈ ماہانہ بنتے ہیں۔
میرے لئے تو اتنی رقم کو سنبھال کر رکھنا بھی نا ممکن تھا۔‘ فلیمنگ کے الفاظ تھے۔اپنی ’’نا اہلی‘‘ کو دیکھتے ہوئے فلیمنگ نے پنسلین کا نسخہ ایک فیصد رائلٹی کے عوض دوا ساز کمپنی کو اس شرط پر دینے کا فیصلہ کیا کہ معاہدے کی تمام شقیں فلیمنگ کی منشا کے مطابق ہوں گی۔کمپنی نے بلا چوں و چرا یہ بات مان لی تاہم جب قبلہ الیگزینڈر فلیمنگ شرطیں ٹائپ کرنے کے لئے بیٹھے تو انہیں لگا کہ ایک فیصد رائلٹی بھی اتنی زیادہ بن رہی تھی کہ وہ ساری عمر ختم نہ ہوتی،جبکہ ان کی خواہش سوائے سیر و سیاحت اور تحقیق کے اور کچھ نہیں تھی۔
یہ سوچ کر فلیمنگ نے آدھی رات کے وقت ایک معاہدہ ٹائپ کیا اور لکھا:
’’میری یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں۔یہ ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے۔اس دریافت کا عطا کرنے والا خدا ہے اور اس کی ملکیت پوری خدائی ہے۔میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دِئیے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ، شخصی،جذباتی اور ’’ملکیتی‘‘ اجازت دیتا ہوں کہ دُنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان،معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ،وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگااور میرا اِس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا۔‘‘
فلیمنگ کا یہ تاریخی جملہ بھی کسی سبق سے کم نہیں ہے:۔۔۔
’’میں اسے دُنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ضرور تھا۔ ایک آلہ ضرور تھا لیکن میں اس کا موجد یا مخترع نہیں تھا۔صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھااور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خدا کاکرم اور اس کی عنایت تھی۔۔۔اصل میں جتنے بھی انکشاف اور دریافت ہوتی ہیں وہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فضل سے ہوتی ہیں …خدا جب مناسب خیال کرتا ہے اس علم کو دُنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے۔نہ پہلے نہ بعد میں ،ٹھیک وقت مقررہ پر،اپنے حکم کی ساعت کے مطابق۔۔۔میں نے اس اصول کو لندن کے ایک مقامی اسکول میں بچوں کی آسانی کیلئے یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ علم کی بے شمار پوٹلیاں لٹک رہی ہیں۔وہ جب چاہتا ہے اور جب مناسب خیال فرماتا ہے ،قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حکم دیتا ہے کہ سنبھالو علم آ رہا ہے۔‘‘
ذرا ہمارے بڑے بھائی کے کردار کو ذہن میں رکھئے اور سوچئے کہ اگر اس دور میں ہم میں کوئی ’ فلیمنگ‘ پیدا ہوجائے تو وہ کیا کرے گا؟
اس تحریر پر ہمارے ہمزاد کا ایک تبصرہ سنا گیا کہ
’’ میاں! کچھ بھی ہو، فلیمنگ جنت میں نہیں جائیگا، ۔۔۔جنت میں تو ہم ہی جائیں گے۔۔۔ ہم ۔۔۔!! ‘‘
شکر ربی کہ ہمارا ضمیر یہ کہتا ہے کہ اللہ تو عادل ِصادق ہے اس کا عدل عام ہے نہ کہ خاص۔۔۔ اس کے سامنے تو فرد نہیں عمل ہی کھرا ہوگا اور وہی عدل کا سبب بنے گا۔ قرآن کریم میں اللہ نے اس معاملے کو صاف کر دیا ہے:
’’ جس نے نیک کام کیا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے۔‘‘
یعنی پتہ چلا کہ کسی کا نیک عمل ضائع نہیں ہوگا۔ اہل صدق کا تو ایقان و ایمان ہی یہی ہے کہ اللہ ۔۔۔ عدل ہی عدل ہے۔۔۔
باقی ہمارے تصورات و توہمات۔۔۔۔ اور ان کا نتیجہ تو ہر چشم ِبینا پر اورہر صاحبِ فہم پر کھلا ہوا ہے
!
ندیم صدیقی
Sat-16-03-2019 روزنامہ’ممبئی اُردو نیوز‘ ممبئی

 

احمد محمد

محفلین
میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دِئیے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ، شخصی،جذباتی اور ’’ملکیتی‘‘ اجازت دیتا ہوں کہ دُنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان،معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ،وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگااور میرا اِس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا۔‘

یہ کوئی عظیم، سخی اور اعلٰی ظرف ہی کر سکتا ہے۔ خدا تعالٰی رفعت بھی پھر ایسے قلب رکھنے والے کو ہی عطا کرتے ہیں۔
 
Top