جنت میں جانے کے راستے

جنت میں جانے کے راستے

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ،میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کون سی چیز بندے کو آگ سے نجات دلاتی ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ”الله پر ایمان لانا“۔
(1) میں نے کہا: اے الله کے نبی! کیا ایمان کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ” الله تعالی نے اسے جو رزق عطا کیا ہے، وه ا‏‏‏‏س میں سے خرچ کرے“۔
(2) میں نے کہا! اے اللہ کے رسول! ’’اگر وہ فقیر ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جو (‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کے راستے میں) دے‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو پھر وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے‘‘۔
(3) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر وہ ایسا کرنے سے بھی عاجز ہو اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”کسی بے ہنر (‏‏‏‏اور جاہل) کو کوئی ہنر سکھا دے‘‘۔
(4) میں نے کہا: ’’اگر وہ خود بے ہنر ہو اور کچھ بھی کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو پھر کسی مغلوب (‏‏‏‏اور مظلوم) کی مدد کر دیا کرے‘‘۔
(5) میں نے کہا: ’’اگر وہ خود ضعیف ہو اور مظلوم کی مدد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تو اپنے بھائی میں کوئی خیر و بھلائی چھوڑنا ہی نہیں چاہتا، (‏‏‏‏ایسے ضعیف آدمی کو چاہیئے کہ) وہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچنے دے (یعنی لوگوں کو اپنی ذات سے تکلیف نہ پہنچنے دے)‘‘۔
میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! جب کوئی آدمی یہ عمل کرے گا تو وہ جنت میں داخل ہو جائے گا؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو مسلمان بھی (الله پر ایمان لانے کے ساتھ) ان خصلتوں میں سے کسی خصلت پر عمل کرے گا تو وہ خصلت اس کا ہاتھ پکڑے رکھے گی، حتی کہ اس کو جنت میں داخل کر دے گی“۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: رقم الحديث ترقيم الباني: 2669)

لوگو! ذرا سوچیں! ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمارے لئے کتنی آسانیاں پیدا کر دی ہیں اور قربان جائیے ان صحابہ کرامؓ پر جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے ہر چھوٹی بڑی باتوں کا سوال کیا اور محدثینؒ پر جنہوں نے احادیث کا ذخیرہ جمع کرکے ہم تک ان باتوں کو پہنچایا۔ ایمان لانے کے بعد مندرجہ بالا پانچ (5) خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت پر بھی ٹھیک ٹھیک عمل کرنے والا جنت میں جائے گا، ان شاء اللہ۔

اس حدیث کے آخر میں ضعیف العمر افراد کو ایک خاص ہدایت دی گئی ہے کہ "وہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچنے دیں یعنی لوگوں کو اپنی ذات سے تکلیف نہ پہنچنے دے‘‘، تو جنت میں جانے کے لئے ہم سب اتنا کام تو کر ہی سکتے ہیں لیکن اس کے لئے بھی تحمل و بردباری اور نرم مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں انسان کا اعصاب کمزور ہوجاتا ہے اور برداشت کی قوت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ اس لئے اکثر ضعیف العمر افراد اپنے گھر والوں سے سخت رویہ رکھتے ہیں اور اپنی ذات اور رویے سے اپنے بیوی، بچوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کو تکالیف پہنچاتے رہتے ہیں۔
رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں
عمر رسیدہ لوگ اپنی جوانی کی وقت اور حالات سے اپنے آج کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ لہذا آج کی ہر بات انہیں بری لگتی ہے اور بات بے بات پر اپنے نوجوان بیٹے بیٹیوں اور بہوؤں کو ٹوکتے رہتے ہیں۔ ضعیف العمر خواتین کا اپنی بہوؤں کو روک ٹوک کرنا اور برا بھلا کہنا ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ دنیا بدل گئی ہے۔ لہذا اپنی جوانی کے وقت سے آج کا موازنا کرنا چھوڑ دیں۔ اب پہلے والا دور نہیں رہا جب بہوؤیں، بیٹیاں اور بیٹے بڑوں کے احترام میں ان کی غیر مناسب باتیں بھی برداشت کر لیتے تھے۔ آج کے نوجوانوں میں برداشت نہیں رہا، بے جا باتیں اور روک ٹوک تو دور کی بات ہے اب تو بچے آپ کا زیادہ بولنا بھی برداشت نہیں کرتے۔ اپنے منہ کو بند رکھیں اور خاموشی اختیار کریں۔ اسی میں آپ کی بھلائی ہے ورنہ آپ اولڈ ہاوس بھی پہنچ سکتے ہیں۔ لہذا تحمل و بردباری اور نرمی اختیار کیجئے اپنی بات، ذات اور رویے سے اپنے گھر یا باہر والوں کو تکلیف پہنچانا چھوڑ دیجئے اور بدلے میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت جنت کے حقدار بن جائیں، مندرجہ بالا حدیث میں یہی سمجھایا گیا ہے۔ اس طرح ایمان اور عمل کے ساتھ آپ بابرکت و باسعادت بڑھاپا گزار کر جنت میں پہنچ سکتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
 
Top