جنت سے ایک خط!

پاکستانی

محفلین
بہت پیارے دوست تنویر احمد، السلام علیکم ! میں یہاں جنت میں بخیر و عافیت ہوں اور تمہاری خیریت خدا وند کریم سے نیک مطلوب ہے، صورتحال یہ ہے کہ میری اور تمہاری دوستی مثالی سمجھی جاتی تھی ہم ہر وقت اکٹھے رہتے تھے،اگر کبھی ملاقات کو ایک آدھ دن گزر جاتا تو ہم دونوں بے چین ہوجاتے، اب کتنا عرصہ گزر گیا ہے تم سے ملاقات ہی نہیں ہوئی کیونکہ اب ہم دونوں کی دنیائیں علیحدہ ہیں، میں اگر تمہارے پاس آنا چاہوں تو نہیں آسکتا جبکہ تم اگر سگریٹوں کی تعداد میں تھوڑا سا اضافہ اور کر دو توتم میرے پاس جلدی آسکتے ہو، بہرحال کوئی صورت نکالو، تم سے ملنے کو بے حد جی چاہتا ہے، میں دو تین دفعہ تمہارے خوابوں میں بھی آیا اور تم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا لیکن تم نے صبح اٹھ کر تھر تھرکانپنا شروع کر دیا اور تین چار کالے بکروں کی قربانی دے ڈالی، یار میں کوئی بھوت تو نہیں ہوں تمہارا پرانا دوست ہوں اگر تم مجھ سے ملنے نہیں آنا چاہتے تو نہ آؤلیکن بے زبان بکروں پر تورحم کرو!
ویسے اس سے قطع نظرسچ پوچھو تو میں یہاں بہت خوش ہوں تم اس دنیا کی نعمتوں کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے، اس وقت بھی تین چار حوریں میرے پاؤں داب رہی ہیں ، اب میں ان سے یہی خدمت لیتاہوں کیونکہ تم جانتے ہو مجھے شروع ہی سے مٹھی چاپی پسند ہے ایک دلچسپ بات تمہیں یہ بتانا ہے کہ یہاں حوریں وفاقی وزراء جناب وصی ظفرا ور ڈاکٹر شیر افگن کی صحت و سلامتی اورلمبی عمر کے لئے ہر وقت دعائیں مانگتی رہتی ہیں، اللہ جانے انہیں کسی بات کا خوف ہے، میں نے گزشتہ روز ایک ادبی ذوق کی حامل حور سے اسکی وجہ پوچھی تواس نے جواب میں یہ شعر پڑھ دیا۔
”لوگ“ سجدے میں سر جھکاتے ہیں
حور جنت میں کانپ جاتی ہے​
بہرحال میں تمہیں یہ خط بھی لکھ رہا ہوں اور شراب طہور کا دور بھی چل رہا ہے چار پانچ غلمان میرے سامنے مودب کھڑے ہیں، یہ اتنے خوبصورت ہیں کہ گزشتہ روز ماضی کی انگریزی فلموں کی حسین ترین ہیروئنیں جہنم کے جھروکے سے انہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھیں، میرے دوست راشد حسن رانا کی نظر ان پرپڑی تووہ چیخ مار کر بے ہوش ہوگیا کیونکہ وہ میک اپ کے بغیر تھیں، اللہ اللہ کیسے کیسے خوبصورت لوگوں کو کیسا کیسا وقت دیکھنا پڑتا ہے۔ میں تو ایک گناہگار انسان ہوں، پتہ نہیں اللہ کو میری کون سی بات پسند آگئی کہ جنت میں بھیج دیا، میں بہت خوش ہوں جنت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ یہاں میری ملاقات اپنے مرشد اقبال سے ہوتی رہتی ہے مگر میں انہیں یہاں بھی بہت گہری سوچ میں گم پاتا ہوں مجھے قائداعظم کی زیارت کا بھی بہت شوق تھا ۔ میں جب پہلی دفعہ یہاں ان سے ملا تو میں ان کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتا تھا مگر انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، میں بھول گیا تھا کہ انہیں ایسی باتیں پسند نہیں۔ اقبال اور قائد دونوں اکثر اکٹھے نظر آتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں فکرمند دکھائی دیتے ہیں، یہاں میری ملاقات میر، غالب، ذوق،مصحفی، مومن اور دوسرے بڑے شعراء سے بھی ہوتی رہتی ہے، ایک بڑے خوبصورت پارک میں ایک دن میں نے فیض، جوش اور عدم کو شراباً طہورا پیتے دیکھا، اسد ملتانی ادھر سے گزر رہے تھے انہوں نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیااور کہا:
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب​
اور یہاں ایک بہت دلچسپ بات تمہیں بتانے کی ہے اور وہ یہ کہ جنت میں ابھی تک میری ملاقات کسی حکمران بیورو کریٹ ، پولیس آفیسر، تاجر او ر کنٹریکٹر سے نہیں ہوئی۔ سنا ہے کہ ان طبقوں کے کچھ لوگ جنت میں موجود ہیں تاہم مجھے ان کی زیارت کا تاحال موقع نہیں مل سکا۔
البتہ ایک صوفی کی قدم بوسی کا شرف مجھے حاصل ہوا یہ بہت اللہ والے بزرگ ہیں، لوگ جنت میں ان سے سفارشیں کراتے ہیں، ایک روز ایک خاتون ان کے پاس آئیں اور کہاحضرت، میں اور میرا شوہر جنت میں میاں بیوی کے طور پر رہنا چاہتے ہیں، ہمیں حور و غلمان سے کوئی غرض نہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمارا نکاح پڑھوا دیں، اس بزرگ نے کہا ”بی بی، میں سفارش تو کر دوں مگر کوئی مولوی جنت میں آئے تو تمہارے نکاح کا کوئی بندوبست ہو“۔ یہ واقعہ مجھے راشد حسن رانا نے سنایا مگر وہ کوئی ثقہ راوی نہیں ہے چنانچہ اس مسخرے کی بات پر مجھے یقین نہیں کیونکہ مجھے حضرت اقبال نے ایک دن بتایا تھا کہ اگرچہ جنت میں ”دین ملا فی سبیل اللہ فساد“ مارکہ مولویوں کا داخلہ بند ہے مگریہاں علمائے حق بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی صحبت میں بیٹھنے کا انہیں کئی مرتبہ موقع ملا ہے۔ میں نے اقبال سے گزارش کی کہ وہ کسی روز مجھے بھی ان کی جوتیوں میں بیٹھنے کا موقع دیں، اقبال نے حامی بھر لی دیکھیں یہ آرزو کب پوری ہوتی ہے۔
جنت میں بعض بہت دلچسپ واقعات ہوتے رہتے ہیں ایک روز جنت کے مین گیٹ سے کچھ شور سا اٹھا، میں ادھر گیا تو دیکھا کہ ایک صاحب جنت میں داخلے کے لئے داروغہ جنت سے تکرار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ان کی نیکیوں کے استحقاق کے مدنظر انہیں اندر داخل ہونے دیا جائے میں نے ان صاحب کو پہچان لیا، یہ بہت بڑے ذخیرہ اندوز تھے۔ داروغہ جنت نے ان سے نیکیوں کی تفصیل پوچھی تو ان صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایک مرتبہ دس روپے کی کتابیں خریدی تھیں، اسی طرح ایک مرتبہ انہوں نے ماہ رمضان میں مبلغ تین سو روپے خرچ کرکے کچھ روزہ داروں کی روزہ کشائی کرائی تھی“۔ داروغے نے پوچھا ”اس کے علاوہ کوئی اور نیکی؟“ یہ صاحب چند منٹ تک سوچتے رہے اور پھر کہا ”بس یہی نیکیاں ہیں“ اس پر داروغہ ٴ جنت نے جیب میں سے کیلکولیٹر نکالا ان صاحب کی اللہ کی راہ میں خرچ کی ہوئی رقم کا ٹوٹل کیا، یہ چار سو دس روپے بنتے تھے، داروغہ جنت نے جیب میں سے چار سو دس روپے نکال کر ان کی ہتھیلی پر رکھے اور گردن سے پکڑ کر جہنم کی طرف دھکیل دیا۔
باتیں تو تمہیں اور بھی بہت سی بتانے کی ہیں مثلاً یہ کہ جس خاتون سے تم شادی کرنا چاہتے تھے مگر اس کے گھر والوں نے انکار کر دیا تھا، وہ بھی وفات کے بعد جنت میں پہنچ گئی ہے۔ میری طرح ایک دن وہ بھی تمہیں یاد کر رہی تھی ہو سکتا ہے کسی دن وہ بھی تمہارے خواب میں آئے، لہٰذا کالے بکروں کا ابھی سے انتظام کر لو، باقی باتیں ملاقات پر ہوں گی اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات بہت جلد ہوگی۔ تمہارا شکیل احمد


روزن دیوارسے ۔۔۔عطاالحق قاسمی
بشکریہ روزنامہ جنگ
 

محمد وارث

لائبریرین
آج تو ماشاءاللہ، جنت سے دو دو خط بیک وقت موصول ہوگئے۔ سوچ رہا ہوں کسی دن جہنم سے ایک آدھ خط آگیا تو کیا ہوگا۔;)
 

ماوراء

محفلین
ارے، یہ غالب چچا اور باقی شعراء جنت میں کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟:eek:
اور جنت کی حوریں بھی پاگل ہیں جو وصی ظفر اور شیر افگن کی صحت و سلامتی کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔ وہ کون سا جنت میں جانے لگے ہیں۔

ویسے خط زبردست ہے۔
 
Top