جنتی پھول

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’ایمانِ کامل‘‘…’’ایمانِ دائم‘‘ اور ثابت قدمی عطا فرمائے!
اس وقت کئی اِیمان افروز مناظر میری آنکھوں کو روشن اور نم کر رہے ہیں…لیجئے آپ بھی اس کیفیت میں شریک ہو جائیے…

اے بیعت کرنے والو!
اسلامی لشکر پر کفار نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ…باوجود کثرت کے مسلمانوں کے پاؤں اُکھڑ گئے…دشمن کے چار ہزار تیر اَنداز موسلا دھار بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے…یہ اسلامی لشکر کے راستے میں چھپے بیٹھے تھے،انہوں نے اچانک بیس ہزار تلواروں سے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا…بارہ ہزار افراد کا اِسلامی لشکر ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو گیا…میدان میں مسلمانوں کے سپہ سالار اکیلے رہ گئے، ان کے اردگرد صرف دس بارہ پروانے دیوانے مجاہدین تھے…وہ اپنے محبوب قائد اور سپہ سالار کو تیروں اور تلواروں کی بارش سے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے…سپہ سالار پوری استقامات کے ساتھ ہزاروں کفار کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے اور اپنے لشکر اور مجاہدین کو دوبارہ جمع اور منظم ہونے کے لئے پکار رہے تھے…اچانک ایک بلند قامت پُر نور بابا جی تلوار لے کر سپہ سالار کے گھوڑے کے قریب کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی بلند آواز سے پکارا

یا معشر الانصار، یا اصحاب السمرۃ
اے گروہِ انصار! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!

سبحان اللہ ! آواز بلند تھی،جذبے سے لبریز اور خوشبو سے معمور تھی…انصار کے لفظ میں وعدۂ نصرت کی یاد دہانی تھی…اور کیکر کے درخت ’’السمرۃ‘‘ کے لفظ میں ’’بیعت‘‘ نبھانے کی تلقین تھی…دو تین بار یہ آواز گونجی تو خوف کے بادل چھٹ گئے، اِنتشار کا سیلاب تھم گیا…اور دیوانے مجاہدین بجلی کی تیزی سے واپس پلٹے…اپنے سپہ سالار کے گرد جمع ہوئے اور دشمن پر ایسا جاندار حملہ کیا کہ شکست فتح میں تبدیل ہو گئی…اور مسلمان غالب ہو گئے…

یہ غزوہ حنین کا واقعہ ہے…مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت آقا مدنی ﷺ تھے… اور ایمان کو زندہ کرنے والی آواز لگانے والے ’’بابا جی‘‘ … حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ تھے …حضرت آقا مدنی ﷺ کے ’’چچا جی‘‘…سلام ہو…حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ پر اور ان کی مسلمان آل پر…

یا نصر اللّٰہ!
یہ ایک اور منظر ہے…پہلے منظر سے کسی قدر ملتا جلتا…یہاں بھی میدان جہاد ہے اور کفار کا لشکر…مسلمانوں کے لشکر سے بہت بڑا ہے…جنگ پڑی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے…یہاں بھی ایک بابا جی لمبی سی لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے …ان کی عمر اسّی سال کے قریب تھی… ایک آنکھ سے معذور تھے…ان کی یہ آنکھ ایک غزوے میں شہید ہو گئی تھی… وہ میدان کے کنارے پر کھڑے تھے…اور پکار پکار کر مسلمانوں کو ثابت قدمی اور جنت کی یاد دلا رہے تھے…کبھی وہ اپنا رخ آسمان کی طرف کرتے اور پکارتے…

یا نصر اللّٰہ اقترب
اے اللہ کی مدد…قریب آ جا، قریب آ جا

اور کبھی اپنی لاٹھی سے ان مسلمانوں کو مار مار کر میدان کی طرف دھکیلتے جو پسپائی کو دوڑ رہے تھے…اس دوران وہ بابا جی خود بھی تلوار تھام کر جنگ میں شامل ہوتے رہے…یہ اسلام کا اہم معرکہ جنگِ یرموک تھا…اور بابا جی کا نام… حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ…قریش کے نامور اور متفقہ سردار…

فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے…رسول کریم ﷺ کے ساتھ دو غزوات میں شرکت فرمائی …غزوہ طائف میں تیر لگا تو آنکھ ضائع ہو گئی … حضرت آقا مدنی ﷺ نے اختیار دیا… آپ چاہیں تو دعاء کر دوں،اللہ تعالیٰ آنکھ واپس عطاء فرما دے…یا آپ صبر کریں تو اس کے بدلے جنت ملے گی…فرمایا: جنت چاہیے،آنکھ نہیں…سلام ہو…امی جی اُم حبیبہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا پر …ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ پر…ان کے بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر…

قرآنی منظر
آپ نے قرآن مجید میں اس جہادی لشکر کا قصہ پڑھا ہو گا…جس کے امیر حضرت طالوت رضی اللہ عنہ تھے…اور اس لشکر کے ایک سپاہی حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام تھے…جب یہ لشکر امتحانات کی چھلنیوں سے گذر کر بہت تھوڑی تعداد میں رہ گیا تو اس کا سامنا جالوت کے اس لشکر سے ہوا جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا…تب مایوسی کی سرد لہر ان الفاظ میں دوڑا دی گئی…

لا طاقۃ لنا الیوم بجالوت وجنودہ
آج ہمارے بس میں ہی نہیں کہ ہم جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کر سکیں…مایوسی کے الفاظ…ہڈیوں کا گودا جما دیتے ہیں…مایوسی کے کلمات جذبوں کی آگ کو بجھا دیتے ہیں…مایوسی کی باتیں…انسانوں کے جسم کی قوت سلب کر دیتی ہیں…اور مایوسی کے جملے ہر طرف بزدلی کی بدبو اور ناکامی کا اندھیرا پھیلا دیتے ہیں…ایسے میں اچانک کسی اللہ والے نے ایک آواز لگائی…اس اللہ والے کے ساتھ چند اور اللہ والوں نے بھی اپنی آواز شامل کر دی…

کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ
ارے…فتح و غلبے کا مالک… اللہ تعالیٰ ہے، وہ جب چاہتا ہے مٹھی بھر افراد کو بڑے بڑے لشکروں پر غالب کر دیتا ہے…

بس اس ایک جملے نے…جذبات کو قوت دے دی…نظر کو زمین سے اُٹھا کر آسمان کی طرف پھیر دیا…اور امید کی خوشبو ہر سو مہکنے لگی…اس خوشبو میں ڈوب کر جب ایمان والوں نے حملہ کیا تو جالوت کا لشکر…جھاگ کی طرح پھٹ گیا اور بکھر گیا…

دو طبقے
قرآن مجید میں ’’جہاد‘‘ کو پڑھ لیجیے…ماضی کے جہادی واقعات پر نظر ڈال لیجیے آپ کو اسلامی لشکر میں دو طبقے ضرور نظر آئیں گے…

(۱) مُثَبِّتِینْ

(۲) مُثَبِّطِینْ

دوسرے لفظ کا مطلب پہلے سمجھ لیجئے … ’’مثبطین‘‘ وہ لوگ جو مایوسی پھیلاتے ہیں… جذبوں کو سرد کرتے ہیں…خود بھی بھاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھگاتے ہیں…ان کو ’’مخذلین‘‘ بھی کہا جاتا ہے…بزدلی،مایوسی ،بددلی،بد اطمینانی پھیلانے والے…مسلمانوں کو رسوائی اور شکست کے راستے پر ڈالنے والے … جمے ہوئے قدموں اور دلوں کو اُکھاڑنے والے …دراصل ’’جہاد‘‘ بہت اونچے مقام والی عبادت ہے…یہ اسلام کا اہم فریضہ ہے…یہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہترین وسیلہ ہے…یہ تمام اعمال سے افضل عمل ہے…یہ مسلمانوں کو عزت اور غلبہ دلانے والا عمل ہے…یہ اسلام کو قوت اور غلبہ دلانے والا عمل ہے…یہ گناہوں کو مٹا کر جنت میں جلد لے جانے والا عمل ہے…جب کوئی مسلمان اس عمل میں لگ جاتا ہے تو شیطان…اس مسلمان کا نام اپنے دشمنوں کی سب سے اہم فہرست میں لکھ دیتا ہے…ایسے آدمی کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان اپنے خاص اور ماہر شاگردوں کو متعین کرتا ہے…اور چھ طرف سے اس مجاہد پر حملہ آور ہوتا ہے…وہ جہادی لشکروں اور جماعتوں میں … ایسے افراد چھوڑ دیتا ہے جو ہر وقت مایوسی،بد دلی اور پریشانی پھیلاتے رہتے ہیں…بے اطمینانی جب کسی دل میں آ جاتی ہے تو پھر…ایسے دل کا جہاد پر جمے رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ … جہاد تو اللہ تعالیٰ کو دل دینے،جان دینے،مال دینے … اور سب کچھ دینے کا نام ہے…ایک بے اطمینان شخص کس طرح سے قربانی دے سکتا ہے؟…آپ غزوہ احد سے شروع ہو جائیں اور آج کے ’’شرعی جہاد‘‘ تک کی تاریخ پڑھ لیں…ہر اسلامی لشکر کے ساتھ مثبطین اور مخذلین کا یہ ٹولہ ساتھ ساتھ بندھا نظر آتا ہے…غزوۂ احد میں یہ ٹولہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کے ساتھ نکلا…پھر راستے میں تین سو افراد رُوٹھ کر ٹوٹ کر بھاگ گئے…آپ خود سوچیں کہ جب کسی لشکر کا پورا ایک تہائی حصہ ٹوٹ جائے تو…اس سے کس قدر مایوسی پھیلتی ہے…آج کل کے دور میں تو ایسا ایک جھٹکا کسی بھی جماعت یا لشکر کو مکمل ختم کرنے کے لئے کافی ہے…مگر وہ لشکر بڑا عظیم تھا… انہوں نے ان تین سو کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا…ہمارا بھاگنے والوں سے کیا تعلق؟ہم نے اپنا ہاتھ حضرت آقا مدنی ﷺ کے ہاتھ مبارک میں دیا ہے…وہ جب لشکر میں موجود تو پھر ہمارے بھاگنے کا کیا جواز؟…تین سو ’’مخذلین‘‘ بھاگ گئے…مگر چند ایک اسلامی لشکر میں موجود رہے کہ آگے چل کر جب لڑائی شروع ہو گی تو اس وقت مایوسی اور بد دلی پھیلائیں گے…انہوں نے اپنا کام آگے چل کر کیا …آپ نے واقعہ اُحد میں پڑھا ہو گا…مگر الحمد للہ ان کی بھی ایک نہ چلی…یہ تو ہوئی مثبطین کے لفظ کی تشریح…اب دوسرے لفظ کا مطلب سمجھیں…

’’مثبتین‘‘…یہ وہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں…جو اسلامی لشکر کو ہمیشہ ثابت قدمی کی طرف بلاتے رہتے ہیں…وہ خود بھی ڈٹے رہتے ہیں…اور اپنے قول اور عمل سے دوسروں کو بھی ڈٹا رہنے کی ہر وقت دعوت دیتے رہتے ہیں… دوسرے الفاظ میں ان کو ’’مُحَرِّضِینْ‘‘ بھی کہتے ہیں…اصل مثبت یعنی ثابت قدمی عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے یہ مخلص بندے اللہ تعالیٰ کے مُنادی ہوتے ہیں … یہ وہ جنتی پھول ہوتے ہیں…جن کا ایمان کبھی نہیں مرجھاتا…یہ لشکروں کو جوڑتے ہیں…ان کا رخ سیدھا رکھتے ہیں…اور عین جنگ اور آزمائش کے وقت یہ ثابت قدمی کی آوازیں لگا کر…مایوسی اور شکست کو دور بھگاتے ہیں…ہم نے اپنی زندگی میں ایسے بعض افراد دیکھے ہیں…سبحان اللہ! نور ان کے چہروں سے برستا ہے،اخلاص کی خوشبو ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے…یہ اللہ تعالیٰ کے دیوانے بندے ہر لشکر اور ہر سچی جماعت کی جان ہوتے ہیں…افغانستان میں جب امارت اسلامیہ کا سقوط ہو رہا تھا…ہر طرف غم تھا اور خون…تب ایک مجلس میں ایک ایسا دیوانہ دیکھا…وہ کھانے کے دوران بلند آواز سے قرآنی آیات پڑھتا، ثابت قدمی کے فضائل سناتا…اور وفاداری کے گیت گاتا…اس کی مجلس میں ایک منٹ کے لئے بھی…دل میں یہ خیال نہ گذرا کہ مسلمانوں پر اتنا بڑا ظلم ہو گیا ہے…اور ہمیں بظاہر ایک بڑی شکست ہوئی ہے…وہاں تو جتنی دیر موجود رہے دل…عرش کے نیچے شکر کے سجدے کرتا رہا کہ…ایمان والوں کی فتح … ایمان کی سلامتی میں ہے…آزمائش اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں پر آتی ہے…اللہ تعالیٰ راضی تو مسلمان کی جیت…اللہ تعالیٰ ناراض تو مسلمانوں کی شکست…حالات کی خرابی سے منافق…اپنا نظریہ بدلتا ہے…مسلمان تو آزمائش کی آگ میں کود کر پکا مومن بن کر نکلتا ہے …دنیا میں نفع،نقصان اور رات دن کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے…بس اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہو…اس کے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرو…اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنی پیٹھ اور بزدلی نہ دکھاؤ…

ماضی کے قصوں میں ہم یہی پڑھتے ہیں کہ …بعض پورے پورے لشکروں کو ایک بوڑھے شخص نے…ثابت قدمی کی آواز لگا کر مایوسی سے بچا لیا…اور بعض شکست کھاتے لشکروں کو …کسی چھوٹے سے بچے نے بلند آواز سے چند قرآنی آیات سنا کر…فتح کے راستے پر ڈال دیا…

جنتی پھول بنیں!
وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وفادار ہیں…وہ مسلمان جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا یقین رکھتے ہیں…وہ ہمیشہ ثابت اور مُثَبِّتْ رہتے ہیں… خود بھی ثابت قدم اور دوسروں کو بھی ثابت قدمی کی طرف بلانے والے…مگر وہ لوگ جو دنیا کے ادنیٰ اور حقیر مفادات کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں…وہ جہاد میں آ کر بھی …ثابط اورمُثَبِّطْ رہتے ہیں…خود بھی بے اطمینان اور دوسروں کو بھی مایوس کرنے والے…یہ افراد قربانی دینے سے ڈرتے ہیں… اور اگر ان پر تھوڑی سی تکلیف آ جائے تو فوراً بدک جاتے ہیں…

اس وقت اسلامی لشکروں اور …مجاہدین کو ’’مُثَبِّتینْ‘‘ کی ضرورت ہے…جو خود صابر ہوں اور صبر کی دعوت بھی دیتے ہوں…جو خود بھی مشکلات میں جمے رہتے ہوں…اور دوسروں کو بھی جمائے رکھتے ہوں…یہ لوگ بڑے مقام والے ہوتے ہیں…ایسے افراد سے اللہ تعالیٰ بہت عظیم کام لیتا ہے…اور ان کے لئے مغفرت،رحمت اور توفیق کے دروازے کھول دیتا ہے…آپ چاہیں تو اپنے ایک جملے سے پوری جماعت میں مایوسی اور بد دلی پھیلا دیں…اور اگر آپ چاہیں تو اپنے ایک جملے سے جماعت میں جذبوں کی بجلی چلا دیں…

اپنی اپنی قسمت…اپنا اپنا کام …دعاء کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ…ہم ثابت اور مُثَبِّتْ بنیں…کیونکہ یہ لوگ جنت کے پھول ہوتے ہیں…کبھی نہ مرجھانے والے…کبھی نہ مٹنے والے…

اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِی اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلیٰ الْقَوْمِ الْکَافِرِینْ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا


بحوالہ

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
 
Top