جمہوری حکومت کے پانچ سال۔۔۔۔چینی، نکتہ چینی۔۔۔۔فضل ربی راہی

پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال کامیابی سے پورے کر لیے ہیں لیکن اس کی قیمت ملک و قوم نے کراچی میں مزید بداَمنی، کوئٹہ میں مزید لاشوں، وزیرستان میں ڈرون حملوں میں مرنے والے بے گناہ بچو ں اور خواتین اور خیبر پختون خوا کے طول و عرض میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی صورت میں ادا کی۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے عوام نے ایک طویل سزا مسلسل بے انتہا مہنگائی، مزید غربت، بے روزگاری، بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ، بدعنوانی، معاشی بد حالی اور ریاستی اداروں کی شکست و ریخت کی صورت میں بھگتی۔ یہی نہیں بلکہ جمہوری حکومت کے پانچ سالہ دور میں روپے کی قیمت روزانہ کے حساب سے گرتی رہی اور معاشی ماہرین کے مطابق سابقہ حکومت کے ابتدائی عرصہ میں بیرونی قرضوں کی مالیت سات ہزار ارب روپے تھی جو جمہوریت کی رخصتی کے وقت بڑھ کر پندرہ ہزار ارب روپے ہوچکی ہے۔ جمہوری حکومت کے آخری دنوں میں مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق ترقیاتی کاموں کے نام پر اربوں روپے نکلوائے گئے اور اپنے ممبرانِ اسمبلی کو دئیے گئے تاکہ وہ قوم کا یہ پیسہ آئندہ کے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرسکیں۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اپنے آخری اجلاس میں وزیر اعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لیے تاحیات مراعات کا جو بل پاس کیا ہے، اس کا سارا بوجھ قومی خزانہ ہی برداشت کرے گا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ جمہوری دور میں آئین، قانون اور عدلیہ کا جو مذاق اڑایا گیا، پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا یہ مقولہ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ بالکل سچ ثابت ہوا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں عوام سے جمہوریت کے نام پر بہترین انتقام لیا گیا۔
اس سب کے باوجود سابق حکومت کے زعماء اپنی کامیابیوں کا دعویٰ کرتے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں پھر سے کامیابی کے متمنی ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے ملک کے سیاست دان عوام کو اتنا بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں۔ جن لوگوں کو عوام نے اپنی قسمت کے فیصلوں کا اختیار دیا تھا، انھوں نے تو عوام سے جینے کی خواہش ہی چھین لی ہے۔ سابق وزیراعظم نگران حکومت میں احتساب کے خوف سے اپنے پورے خاندان سمیت دوبئی سدھار چکے ہیں۔ سرکاری سکیورٹی کے بغیر وہ خود کو اپنے ملک میں غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اور یہی حال پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دوسرے بڑے رہنماؤں کا بھی ہے۔ حکومت ختم ہونے کے بعد کچھ اراکینِ اسمبلی اور وزراء بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں اور مستقبل کا سیاسی منظرنامہ واضح ہونے کے بعد بہت سے سامان باندھے تیار بیٹھے ہیں۔ جنھیں قوم کی رہنمائی کا زعم ہے، وہ اگر خود محافظوں کے حصار کے بغیر اس ملک میں نہیں رہ سکتے تو وہ ملک و قوم کے تحفظ کا گراں قدر فریضہ کیسے ادا کرسکتے ہیں۔ اہل وطن کو آئندہ عام انتخابات میں اپنا قیمتی ووٹ استعمال کرتے ہوئے سابقہ حکومت اور اس کی حلیف جماعتوں کی بدعنوانیوں اور بیڈ گورننس کو ضرور یاد رکھنا چاہئے۔
پاکستان کی موجودہ دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی پست ذہنی سطح کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کئی روز کی باہمی مشاورت کے باوجود نگران وزیراعظم پر بھی متفق نہیں ہوسکیں۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لامحدود مسائل اور مشکلات پر کوئی اتفاق رائے قائم کرسکیں گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز پر مارشل لاء ہمیشہ سیاست دانوں کی نااہلی، خود غرضی اور اقتدار پر حریصانہ نظر رکھنے کی وجہ سے مسلط ہوتا رہا ہے۔ اگر سیاست دانوں میں سیاسی بلوغت ہوتی، وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے اور ملک و قوم کے مفاد کی خاطر اتفاق رائے کی خوبیوں سے متصف ہوتے تو آج عسکری قیادت نہ صرف ان کے تابع ہوتی بلکہ ملک ترقی اور خوشحالی کی منزلوں کی جانب گامزن ہوتا۔ ان دونوں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں میں ایسے طالع آزما، خود غرض اور جاہ پسند لوگ موجود ہیں جن کی نظروں میں ملک و قوم کے مفاد کے مقابلہ میں اپنے ذاتی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سوچ جمہوری روایات کو پروان چڑھانے سے زیادہ اپنے سیاسی اور انتخابی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسے لوگوں سے ملک و قوم کے مسائل حل کرنے اور انھیں ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کی امید رکھنا عبث ہے۔
یہ اَمر نہایت خوش آئند ہے کہ اب قومی سطح پر تحریک انصاف کی صورت میں تیسری سیاسی قوت کا ظہور ہوچکا ہے۔ عمران خان نے جس طرح نچلی سطح پر جمہوری طریقے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اُمیدوار منتخب کرانے کی روایت قائم کی ہے، آگے چل کریہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی فروغ پائے گی۔ تحریک انصاف کے مینارِ پاکستان کے دامن میں کئے گئے جلسہ میں لاکھوں لوگوں نے جس جوش و خروش سے شرکت کی، اس نے ثابت کیا کہ آئندہ عام انتخابات میں اگر تحریک انصاف نے حکومت نہ بھی بنائی تو کم سے کم اسمبلیوں میں اتنی اکثریت توضرور حاصل کرپائے گی جو آنے والی حکومت کو من مانی نہیں کرنے دے گی۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے غیور پختون عمران خان کے ساتھ دل و جان سے کھڑے ہیں اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس صوبے میں تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو عمران خان خیبرپختون خوا کو امن و امان اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے ایک ماڈل صوبہ میں ڈھال سکتے ہیں اور پھر آنے والے عام انتخابات میں اسے قومی سطح پر سیاسی کامیابی کا زینہ بناسکتے ہیں۔
اس وقت ہمیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل سے باہر نکالے، اسے امریکہ کا غلام نہیں بلکہ ایک باوقار دوست بنائے۔ ملک کی دَم توڑتی معیشت میں جان ڈال سکے۔ ٹیکس چوری کا رجحان ختم کرسکے۔ قوم کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائے اور اعلیٰ و ادنیٰ سطح پر بدعنوانی کے کلچر کا خاتمہ کرے۔ اب ہمیں مزید روایتی طرزِ حکمرانی کی ضرورت نہیں جس میں ہمہ وقت اپنی حکومت کو قائم رکھنے اور اپنے حلیفوں کو خوش و راضی رکھنے کے لیے امن و امان اور ملکی معیشت کو تباہ کیا جائے۔ قومی خزانہ لوٹنے کے بعد معمول کے اخراجات پورا کرنے کے لیے مسلسل نوٹ چھاپنے کا عمل جاری رکھا جائے اور اتنے بیرونی قرضے لیے جائیں جن کا سود ادا کرنے کے لیے ملک و قوم کو سیاسی اور معاشی طور پر عالمی طاقتوں اور سرمایہ داروں کے پاس گروی رکھا جائے۔ اب ہمیں اہل اور ایمان دار قیادت کی ضرورت ہے جو جرأت مندانہ اور انقلابی فیصلے کرکے ملک و قوم کو مزید تباہی و بربادی سے بچاسکے۔ دوسروں کی دریوزہ گری کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرکے ترقی و خوشحالی کی راہیں کھول سکے اور عالمی سطح پر ملک و قوم کا وقار بحال کرسکے۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top