جماعۃ الدعوہ پر پابندی

ایٹمی بٹن اور بنیاد پرست و جنونی ہاتھ
کالم از وسعت اللہ خان۔بی بی سی اردو

پاکستان میں تو خیر ایسی اقلیت ہمیشہ سے رہی ہے جو دہلی کے لال قلعے سے لے کر وائٹ ہاؤس تک سبز ہلالی پرچم لہرانا چاہتی ہے۔ چونکہ یہ اقلیت اپنے مقاصد بیلٹ کی بجائے بلٹ سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لہذا اس کی باتوں کو اکثریت ہمیشہ اس وقت نظرانداز کردیتی ہے جب ووٹ ڈالنے کا وقت آتا ہے۔
مگر جب جنگجویانہ فرقہ پرستی و نسل پرستی کی باتیں ان لوگوں کے منہ سے نکلتی ہیں جو رائے عامہ کے ایک بڑے حصے پر اپنی ذیلی سیاسی تنظیموں کے ذریعے اثر انداز ہونے اور برسرِ اقتدار آنےکی طاقت رکھتے ہیں تو پھر تشویش کی پٹاری کھل جاتی ہے۔

ایسی ہی ایک تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی ماں راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس ہے۔ جس کے سربراہ یا سرسنگھ چالک کے ایس سدرشن سے ممبئی دھشت گردی کے پس منظر میں یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان کو سیدھے راستے پر لانے کی پرامن کوششیں ناکام ہوگئیں تو پھر ایٹمی جنگ آخری راستہ ہے۔گو اس جنگ میں بہت لوگ مارے جائیں گے لیکن اس جنگ کے بعد ایک ایسا اچھا سنسار جنم لےگا جو شیطینیت اور دہشت گردی سے پاک ہوگا۔

آر ایس ایس کے ستتر سالہ سربراہ نو برس کی عمر میں اس تنظیم سے وابستہ ہوئے۔اور ان کی ایک خوبی سب ہی مانتے ہیں کہ وہ آر ایس ایس کے بانیوں ہیڈگوار، ڈاکٹر مونجے، ساورکر اور گولوالکر کی طرح کھری بات کہنے کے لیے مشہور ہیں۔

آر ایس ایس کے بانی ہٹلر کے نازی فلسفے کو ہندوستان میں نسلی سوال کے حل کے لیے موزوں سمجھتے تھے اور اس فلسفے پر عمل درآمد مسولینی کی فاشسسٹ تنظیم سازی کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ جب مارچ انیس سو اکتیس میں ڈاکٹر مونجے کی روم میں مسولینی سے ملاقات ہوئی تو بقول ڈاکٹر مونجے مسولینی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان میں بھی اسی طرح سے کام کریں۔

آر ایس ایس کے ایک اور بانی ساورکر نے اکتوبر انیس سو اڑتیس میں کہا کہ قوم کسی علاقے میں رہنے والی اکثریت کو کہتے ہیں۔ پھر بھلا یہودی جرمنی میں کیا کر رہے ہیں۔
انیس سو انتالیس میں آر ایس ایس کے ایک اور بانی گولوالکر کی کتاب ’وی آر آور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ‘ شائع ہوئی۔اس میں ایک جگہ کہا گیا کہ غیرملکی عناصر کے لیے صرف دو راستے ہیں۔ یا تو وہ اکثریتی قوم میں ضم ہوکر اس کی ثقافت اپنا لیں یا اکثریتی گروہ کے رحم و کرم پر اس وقت تک رہتے رہیں جب تک انہیں برداشت کیا جا رہا ہے۔ اقلیتی مسئلے اور ریاست کے اندر ریاست کے سرطان کا یہی ایک منطقی اور معقول حل ہے۔
آر ایس ایس کے دوسرے تنظیمی سربراہ گولوالکر کے ان خیالات کے ٹھیک باسٹھ برس بعد آر ایس ایس کے موجودہ اور پانچویں سربراہ سدرشن نے اکتوبر دو ہزار ایک میں آگرہ میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ ایل کے اڈوانی کی موجودگی میں پچھتر ہزار کار سیوکوں سے خطاب کیا۔ موضوع تھا غیرملکی مشنریز، بنیاد پرست قوتیں اور آئی ایس آئی۔

سدرشن نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اٹھانوے فیصد مسلمانوں کی رگوں میں رام اور کرشن کا خون ہے۔ پھر وہ خود کو بابر جیسے حملہ آور سے کیوں جوڑے ہوئے ہیں کہ جس کا مزار بھی افغانستان میں خستہ حالی کا شکار ہے۔ بھارت میں صرف دو اقلیتیں ہیں یہودی اور پارسی کہ جن کے اباؤ اجداد باہر سے آئے ہیں۔ عیسائی اور مسلمان تو یہیں کے ہیں وہ خود کو اقلیت کیوں سمجھتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اکثریت سے جڑنے کے لیے اپنی کتابوں کی ازسرِ نو تشریح کریں اور جہاں تک سکھوں کا تعلق ہے تو وہ تو ہندوؤں کی ہی ایک شاخ ہیں۔

اس خطبے کے دو ماہ بعد سدرشن جی نے کہا کہ مسلمانوں کو بھارت سے نکال دیا جائے یا پاکستان میں دھکیل دیا جائے تاکہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈہ مکمل ہوسکے۔ دسمبر سن دو ہزار چھ میں سدھرشن جی نے پیش کش کی کہ مسلمانوں کے لیے آر ایس ایس کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اگر وہ خود کو ہندو کہلوانا پسند کریں۔

یہ وہی سدھرشن جی ہیں جنہوں نے بابری مسجد کے انہدام کی تحقیقات کرنے والے لبراہان کمیشن کے روبرو بیان دیا تھا کہ بابری مسجد کا ڈھانچہ دراصل ان تین بموں کے پھٹنے سے گرا جو ایک مسلمان انیس احمد گہلوٹ نے وہاں نصب کیے تھے۔اس بیان پر مرحوم انیس گہلوٹ کے بیٹے اسلم جاوید نے سدرشن جی کے خلاف پچاس کروڑ روپے ہتکِ عزت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
جس طرح یہ بات ایک بھیانک خواب ہے کہ پاکستان میں ایٹمی بٹن پر کسی بنیاد پرست جنونی کا ہاتھ ہو۔ اسی طرح یہ بات کتنی خطرناک ہے کہ بھارت کے ایٹمی بٹن پر سدھرشن جی یا ان کے کسی پیروکار کا ہاتھ ہو۔
تو کیا امریکہ اپنی دہشت گردی کی فہرست پر نظرِ ثانی کرنا پسند کرے گا ؟؟ ہلو۔۔۔ایکسکیوز می ۔۔۔بھارت میں پانچ ماہ بعد الیکشن ہونے والے ہیں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2008/12/081214_baat_se_baat_sen.shtml
 
بی بی سی رپورٹ
’پابندی غریبوں پر سراسر ظلم ہے‘
کراچی میں خواتین اور بچوں نے سنیچر کو جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا اور کہا کہ اس پابندی کے بعد سینکڑوں گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔
مظاہرہ کراچی پریس کلب کے سامنے کیا گیا جہاں خواتین اور بچے بینرز اور پوسٹرز اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے تھے جس میں جماعت الدعوۃ پر پابندی کی مذمت کی گئی تھی۔

نائلہ کے دس بھائی بہن اور بوڑھے ماں باپ ہیں اور وہ پسماندہ علاقے ریڑھی گوٹھ کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’اس تنظیم کے لوگ بہت اچھے ہیں وہ ہمیں مہینے کا راشن دیتے ہیں، روز مرہ خرچ کے لیے رقم دیتے ہیں جبکہ ہم میں سے اگر کوئی بیمار پڑتا ہے تو وہ ان کی ڈسپنسری جاتا ہے جہاں مفت علاج کی سہولیات ہیں۔‘

ماڈل کالونی، ملیر سے آئی مسز عبداللہ نے کہا کہ جماعت الدعوۃ پر پابندی سے سینکڑوں گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے اور ان پر پابندی دراصل ’غریبوں پر سراسر ظلم ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ جماعت دہشت گرد ہرگز نہیں ہوسکتی جو سینکڑوں گھروں کی کفالت کررہی ہو اور جس کے کراچی جیسے شہر میں آٹھ طبی مراکز ہوں جہاں غریبوں کو مفت علاج کی سہولیات پہنچائی جاتی ہوں۔

شمیم اورنگی ٹاؤن سے آئی تھیں، انہوں نے بتایا کہ اس جماعت پر پابندی سے غریبوں کو امداد ملنا بند ہوجائے گی۔ حکومت سمیت کوئی بھی ان متاثرین کی دادرسی نہیں کرے گا۔

ان کے بقول اس جماعت پر پابندی سے سب سے زیادہ نقصان ان غریب لوگوں کا ہوگا جو ان کی امداد پر گذارہ کررہے تھے اور اس پابندی سے غریبوں کو تنہا کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جماعت الدعوۃ کے دفاتر پر نہیں بلکہ ’ہمارے راشن کو تالا لگا دیا ہے‘۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/12/081213_dawa_karachi.shtml
 

نبیل

تکنیکی معاون
بھولے بادشاہو ! پاکستان میں 2/4 ہی تو لوگ ہیں جو دم ہلانے کا کام نہیں کرتے ، بدقسمتی مرکز طیبہ والوں کی کہ وہ بھی ان میں شامل ہیں ۔۔اصل میں نو گیارہ کا "سانحہ" ہی اتنا شدید ہے کہ ہم بیچارے سارے دنیا سے مار کھائے ہوئے بھوکے ننگے بھکاریوں کی سوچ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔۔ اب راوی والے بابا کا ذکر آپ نے چھیڑ دیا حضور تو سنیے کہ وہاں تو سیدنا علی اور ان کے بیٹے تک گھوڑوں پر سوار ہندوستانی آرمی کو ناکوں چنے چبواتے رہے ، (اب قادری پادری بھی شور مچائیں گے کہ گستاخیاں کرتے ہیں) ۔۔ جب کہ بعض حلقوں کے مطابق اس بہادری کا شاخسانہ مرحومہ کے نغمات ہیں ۔۔
اورگوریلا جنگ چوہے بلی کی ہی جنگ ہوتی ہے ۔۔ اور اس کے موجد بھی ہمارے سلف ہی ہیں ۔۔ اگر بات لشکر طیبہ کی کی جائے تو ان کا وہ خانہ کافی عرصہ ہوا بند ہو چکا ، اب ان کی پہچان ایک رفاعی ادارے کی ہے ۔۔ جس کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی وہ جا کر راولا کوٹ کا مشاہدہ کر لے کہ ان لوگوں نے کام کیا تھا ناکہ قبر نما گھروں پر "جئے الطاف" لکھ کر آ گئے تھے ۔۔
نوٹ :::: مشاہدے کے لیے تخت طاؤس سے اترنا ضروری ہے ;)
وسلام


نوگیارہ کے سانحے نے واقعی پوری قوم کو ذہنی معذور بنا کر رکھ دیا ہے جو اسامہ اور زرقاوی جیسے درندہ صفتوں کو مجاہد سمجھ بیٹھے ہیں۔ کوئی نہ مانے تو اور بات ہے لیکن کیا لشکر طیبہ کیا نفاذ فقہ جعفریہ والے، سبھی دم ہلانے والے کتوں میں شامل ہیں۔ کوئی سعودی حکومت کے سامنے دم ہلا رہا ہے تو کوئی ایران کے سامنے۔
نوٹ: مشاہدے کے لیے تخت طاؤس سے اترنا ہی نہیں، آنکھوں سے تعصب کے پردے ہٹانے بھی ضروری ہیں۔
 
بلکل ٹھیک کہا طالوت ۔۔۔
حافظ سیعد کی یاد کو تو پتہ نہیں‌مگر ایوب ، یححٰی، ضیا اور مشرف بے تحاشا یاد ائیں‌گے اور اتے رہتے ہیں۔ کئی صحافی جوتے لےکر پریس کانفرس میں‌گھوم رہے ہیں‌مگر بش کے برخلاف یہ لوگ قابو نہیں‌ارہے۔
 

جوش

محفلین
اقوام متحدہ کی جماعت الدعوہ کی پابندی کی قرارداد پر روزنامہ جنگ سے اقتیباس

س صورت حال میں امریکہ ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کو کس طرح نظر انداز کر سکتا تھا اس
لئے اس نے اپنی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کو بھارت کے ہنگامی دورے پر روانہ کر دیا جہاں سے واپسی پر وہ 4 دسمبر کو اچانک اسلام آباد وارد ہوئیں اور صدر زرداری سے ایک اہم ملاقات میں دوٹوک انداز میں دہشت گردی کے خلاف نئی دہلی سے مکمل، شفاف اور عملی تعاون کی خواہش کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اپنے دوست ملک چین سے سلامتی کونسل کی دہشت گردی کے خلاف قرارداد پر کئی ماہ سے لگایا گیا ٹیکنیکل ہولڈ ختم کرنے کے لئے کہے تاکہ اس قرارداد کے پاس ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس امریکی مطالبے کی پذیرائی اس رنگ میں ہوئی کہ ایوان صدر سے چین کو فوراً یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی خاطر لگایا گیا ”ٹیکنیکل ہولڈ“ ہٹا لے، سو چین نے اگلے ہی روز یعنی 5 دسمبر کو اپنے سفارتکاروں کو یہ ہدایت کر دی کہ وہ اس پابندی کو جاری و ساری رکھنے کے سلسلے میں کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ 6 اور 7 دسمبر کو اقوام متحدہ میں ہفتہ وار تعطیل تھی اور پھر پاکستان کے سفارتی مشن کو 7دسمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے حقوق انسانی کے ایوارڈ کی وصولی کی تیاریاں بھی کرنی تھیں اس لئے وہ ادھر جت گیا اور سلامتی کونسل کی کمیٹی کے سیکرٹریٹ کا عملہ اس قرارداد کو بغیر کسی ادنیٰ رکاوٹ کے پاس کرانے کے لئے متحرک رہا اور چونکہ اب کسی بھی رکن ملک کو اس پر کوئی اعتراض نہیں رہا تھا اس لئے اسے متفقہ فیصلے کے طور پر جاری کر دیا گیا۔ لیکن یہ بات بہرحال بہت حیرت انگیز ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین سے ٹیکنیکل ہولڈ ہٹا لینے کی جو درخواست کی گئی اس کا نہ تو وزارت خارجہ کو کوئی علم ہوا اور نہ ہی نیو یارک میں پاکستانی مشن کو اس کی کوئی خبر ہو سکی اور سب کچھ مبینہ طور پر امریکہ اور ایوان صدر کے درمیان بالا بالا ہی طے کر لیا گیا۔ جنگ نے اس سلسلے میں حقائق سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ایک حکومتی ذریعے سے یہ وضاحت چاہی کہ کیا چین سے یہ استفسار کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے چین سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی اور وہ اس بارے میں پوچھ کر کوئی جواب دیں گے۔


اس ملک کو کسی بیرونی دشمن کی کیا ضرورت ہے، جیالا پارٹی کافی ہے اس کو تباہ کرنے کے لیے، اس سب ہونے کے بعد بھی جیالا فوج کو برا بھلا کہتا ہے جو سیاست دانوں کو جوتے لگا کر باہر کر دیتی ہے۔
 
Top