جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور محب وطن بلوچ

جب سے بلوچستان کے حالات خراب ہوئے اسی وقت سے بنگلہ دیش کو میڈیا میں بہت ڈسکس کیا جا رہا ہے اور ایک پلینگ کے تحت اس ملک کی نام نہاد ترقی کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
میرا خیال تھا کہ بنگلہ دیش کی ترقی کے راگ الاپنے کا مقصد بلوچ عوام کو یہ بات باور کرانا تھا کہ تمھاری ترقی کا راز پاکستان سے علیحدگی میں ہے۔ جس طر ح بنگالی مسلمان پاکستان سے جدا ہو کر ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اسی طرح اگر بلوچ قوم بھی الگ ہو جائے تو بہت خوشحال ہو سکتی ہے۔
اب حالیہ ایام میں پاکستان سے محبت کے جرم میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو جس انداز میں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عالم کفر اب محب وطن بلوچ عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر تم نے اسلام اور پاکستان کی محبت دل سے نہ نکالی اور شر پسند عناصر کے عزائم کے سامنے مزاحمت کی تو مستقبل میں تمھارے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے گا ، جیسا سلوک بنگلہ دیش کے اسلام و پاکستان کے محبین سے کیا جا رہا ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے تمام مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے۔
 
لیکن جس تنظیم کے بندوں کو پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے۔ وہ تنظیم تو قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ آپ ان کی وکالت کر رہے ہیں۔ لیکن ممکن ہے یہ ان کا مؤقف ہی نہ ہو جو آپ نے اختیار کیا
 
عبد الرزاق بھائی، آپ نے بھی وہی بات کی ہے جو اعتراض برائے اعتراض جڑنے والے احباب کیا کرتے ہیں۔ بھائی، قیامِ پاکستان کے مخالفین کس تنظیم اور جماعت میں نہیں تھے، لیکن پاکستان کے قیام کے بعد مخالف تنظیموں میں سے بیشتر نے پاکستان کو قبول کیا، پاکستان کو اپنا مسکن بنایا اور پاکستان کے لیے قربانیاں بھی دیں۔ ایسے اختلاف کو 65 سال بعد تک گھسیٹتے رہنا کہاں کا انصاف ہے۔ 1971ء کی جنگ میں جماعتِ اسلامی کا جو کردار رہا اور جس طرح اس نے بنگلا دیش میں پاکستان توڑنے والوں کا مقابلہ کیا، وہ کسی کا مؤقف یا نقطہ نظر نہیں، حقیقت ہے۔
ہاں، واضح رہے کہ میں اس جنگ میں جماعت کے کردار کا دفاع نہیں کر رہا۔
 
لیکن جس تنظیم کے بندوں کو پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے۔ وہ تنظیم تو قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ آپ ان کی وکالت کر رہے ہیں۔ لیکن ممکن ہے یہ ان کا مؤقف ہی نہ ہو جو آپ نے اختیار کیا


میرے خیال میں یہ لوگ تقسیم ہند کے حوالے سے مختلف خیال رکھتے تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے نا صر ف اس ملک کو قبول کیا، اس سے محبت بھی کی۔ اس کی مثال یوں کہ مسجد بنانے کے حوالےسے مقام اور طریق کار پر اختلاف کیا جا سکتا ، لیکن جب مسجد بن جائے تو اس کا احترام ہر مسلمان کرتا ہے۔
پاکستان بھی ایک ایسا ہی مبارک پروجیکٹ تھا ، جس سے اختلاف ضرور کیا گیا مگر قیام پاکستان کے بعد سب مسلمانوں نے اس کو قبول کر لیا۔ جماعت اسلامی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہے جنہوں نے پاکستان کو دل و جان سے قبول کیا۔
 
میرے خیال میں یہ لوگ تقسیم ہند کے حوالے سے مختلف خیال رکھتے تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے نا صر ف اس ملک کو قبول کیا، اس سے محبت بھی کی۔ اس کی مثال یوں کہ مسجد بنانے کے حوالےسے مقام اور طریق کار پر اختلاف کیا جا سکتا ، لیکن جب مسجد بن جائے تو اس کا احترام ہر مسلمان کرتا ہے۔
پاکستان بھی ایک ایسا ہی مبارک پروجیکٹ تھا ، جس سے اختلاف ضرور کیا گیا مگر قیام پاکستان کے بعد سب مسلمانوں نے اس کو قبول کر لیا۔ جماعت اسلامی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہے جنہوں نے پاکستان کو دل و جان سے قبول کیا۔
پھر محفل والے میرا مراسلہ حذف بہت جلد کردیتے ہیں۔ آج تک پاکستان کے دشمن "طالبان" کو کون پروان چڑھا رہا ہے؟ ان کے لئے برین واش کرکے کالجز سے طلباء کو کون گمرا کر رہا ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
لیکن جس تنظیم کے بندوں کو پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے۔ وہ تنظیم تو قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ آپ ان کی وکالت کر رہے ہیں۔ لیکن ممکن ہے یہ ان کا مؤقف ہی نہ ہو جو آپ نے اختیار کیا
انہوں نے پاکستان کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تقسیم کی مخالفت کی تھی ۔ اور منطقی طورپر وہ بات بلکل صحیح تھی ۔ برصغیر میں مسلمان دو حصوں میں منقسم ہوئے ۔ پھر تین حصوں میں ( بنگلہ دیش ) ۔ اور اب پاکستان میں علاقائی اور طبقاتی جنگ جاری ہے ۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کی کتب اور بیانات کا ایمانداری سے مطالعہ کرنا چاہیئے کہ ان کی آئیڈلوجی کیا تھی ۔
 
پھر محفل والے میرا مراسلہ حذف بہت جلد کردیتے ہیں۔ آج تک پاکستان کے دشمن "طالبان" کو کون پروان چڑھا رہا ہے؟ ان کے لئے برین واش کرکے کالجز سے طلباء کو کون گمرا کر رہا ہے؟

جو بھی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ یہ جماعت اسلامی نہیں کر رہی۔
 
انہوں نے پاکستان کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تقسیم کی مخالفت کی تھی ۔ اور منطقی طورپر وہ بات بلکل صحیح تھی ۔ برصغیر میں مسلمان دو حصوں میں منقسم ہوئے ۔ پھر تین حصوں میں ( بنگلہ دیش ) ۔ اور اب پاکستان میں علاقائی اور طبقاتی جنگ جاری ہے ۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کی کتب اور بیانات کا ایمانداری سے مطالعہ کرنا چاہیئے کہ ان کی آئیڈلوجی کیا تھی ۔
یہ تو آپ کا مؤقف اس وقت ہے۔ ان کا یہ مؤقف نہ اُس وقت تھا نہ اب ہے۔ آپ وکالت کررہے ہیں۔ مؤکل کا حال جانے بغیر
 
جو بھی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ یہ جماعت اسلامی نہیں کر رہی۔

پیر ‘ 12رمضان المبارک ‘ 1434ھ ‘ 22 جولائی کا
سرے راہے
http://www.nawaiwaqt.com.pk/ser-rahey/22-Jul-2013/224947
خیر سے جماعت اسلامی جو خود کو طالبان کا ”پشت بان“ کہتی رہی ہے وہ بھی اقتدار کے سنگھاسن پرانکے ہمراہ براجمان ہے مل کر آگے بڑھیں
طالبان سے مذاکرات ضروری ہیں : وزیر اعلیٰ خیبر پی کے !
تحریک انصاف کے رہنما اور صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب نے جس ”نیک خواہش“ کا اظہار کیا ہے اس پر انہیں داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ اس وقت تو صوبہ سرحد سب سے زیادہ طالبان کی ”مہربانیوں“ کا شکار ہے جہاں آئے روز دھماکے اور حملے کر کے یہ ”سرکش عناصر“ اپنی موجودگی اور طاقت کا احساس دلاتے ہیں ....
نعرے ہجوم گولیاں لاشے لہو تڑپ
گھر سے نکل کر دیکھ بڑی چہل پہل ہے
اس صورتحال میں پرویز خٹک صاحب شروعات کریں اور طالبان سے بات چیت کیلئے آگے بڑھیں انہیں کس نے روکا ہے، انہیں کس بات کا ڈر ہے۔ خیر سے جماعت اسلامی جو خود کو طالبان کا ”پشت بان“ کہتی رہی ہے وہ بھی اقتدار کے سنگھاسن پرانکے ہمراہ براجمان ہے مل کر آگے بڑھیں اور اگر مولانا سمیع الحق صاحب کو بھی ساتھ ملا لیں توسونے پہ سہاگا ہوگا شاید یہ ملاپ ”قران السعدین“ ثابت ہو اور صوبے کو ظالمانہ کارروائیوں سے نجات مل سکے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ا ب ان سرکشوں کو خون کے ساتھ مال و دولت کا چسکا بھی لگ گیا اور گزشتہ روز ہی انہوں نے سابق سینٹر حاجی دلاور خان مہمند سے 50 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا، ان کے گھر پر پہلے ہی 4 دھماکے ہو چکے ہیں جن میں ان کاایک بیٹا بھی مارا گیا اور پوتا بھی اغوا ہو چکا ہے۔ یہ تو ان عناصر کے کارناموں کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے ورنہ حقائق جمع کئے جائیں تو ”کہے صنم بھی ہری ہری“ والی حالت ہوگی اور وزیر اعلیٰ خود اسلحہ اٹھا کر ان کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے نظر آئیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ظالموں سے انہی کی زبان میں بات کی جائے جو وہ سمجھتے ہوں۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ تو آپ کا مؤقف اس وقت ہے۔ ان کا یہ مؤقف نہ اُس وقت تھا نہ اب ہے۔ آپ وکالت کررہے ہیں۔ مؤکل کا حال جانے بغیر
محترم قادری صاحب ۔۔۔۔ میں نے اس حوالے سے اُن لیڈروں کے بیانات اور کتب کا مطالعہ کیا ہے ۔ تب معلوم ہوا کہ ان کا موقف کیا تھا ۔ اس لیئے میں نے عرض کیا کہ ایمانداری سے پہلے ان کے خطابات اور کتب کا مطالعہ کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ انہوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی یا مسلمانوں کی تقسیم کی ۔( ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے )
ایک عرصہ تک میں بھی ان کو مخالفِ پاکستان گردانتا تھا کیونکہ میں نے بھی صرف مطالعہِ پاکستان پڑھا ہوا تھا ۔
اس کے علاوہ جسونت سنگھ کی بھی کتاب پڑھیں ۔ جس پر انہیں انڈیا میں بے انتہا تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ خود قائدِ اعظم بھی نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں ۔ مگر نہرو سے آخری میٹنگ کے بعد باہر آنے کے بعد انہوں نے تاسف سے یہی کہا تھا کہ " اب پاکستان بنانا ناگزیر ہوگیا ہے ۔ "
میں یہ وکالت نہیں تاریخی حقائق بیان کر رہا ہوں کہ یہ کبھی چھپتے نہیں ۔
 
آخری تدوین:
Top