طارق شاہ
محفلین
غزل
جلیل حسن جلیل
ادا ادا تِری موجِ شراب ہو کے رہی
نگاہِ مست سے دُنیا خراب ہو کے رہی
تِری گلی کی ہوا ، دل کو راس کیا آتی
ہُوا یہ حال، کہ مٹّی خراب ہو کے رہی
ہماری کشتئ توبہ کا ، یہ ہُوا انجام
بہار آتے ہی ، غرقِ شراب ہو کے رہی
وہ آہِ دل جسے سُن سُن کے آپ ہنستے تھے
خدنگِ ناز کا ، آخر جواب ہو کے رہی
کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا اُس کو
اُٹھی نقاب تو ، حیرت نقاب ہو کے رہی
وہ بزمِ عیش، جو رہتی تھی گرم راتوں کو
فسانہ ہوکے رہی ، ایک خواب ہو کے رہی
جلیل ! فصلِ بہاری کی دیکھیے تاثیر
گِری جو بُوند گھٹا سے، شراب ہو کے رہی
جلیل حسن جلیل مانکپوری