جلیبی، امرتی ،سموسے، کچوری غزل نمبر 154 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
کچھ دن پہلے الیاس سوئیٹس اینڈ بیکرز کے سامنے سے گزر ہوا تو وہاں ایک بورڈ پر نظر گئی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا (جلیبی امرتی سموسے کچوری) دل نے سوچا یہ تو ایک شعر بن سکتا ہے،بس پھر ذہنی کاروائی چلتی رہی اور یہ غزل سامنے آئی۔ پیشِ خدمت ہے۔
کِسی اور سے دِل لگانا او چھوری!
مُحبت نہیں ہے مُجھے تُم سے سوری

مُجھے شہر کی لڑکیوں سے غرض کیا
مرا دِل لُبھاتی ہے گاؤں کی گوری

بھری بزم میں میرا دِل لے گئے تُم
بُری بات ہے یہ دِلوں کی بھی چوری

فِدا عِشق میں تیرے ایسے ہیں جاناں
ہے چندا کی اُلفت میں جیسے چکوری

تری دِید کی مُجھ کو عادت ہے ایسے
بِکھاری کے ہاتھوں میں جیسے کٹوری

لگاتے ہیں وہ دیر آنے میں اِتنی
ملُاقات چاہے یہ دِل جِتنا فوری

کہیں ٹُوٹ جائے نہ لفظوں کی زد سے
ہے نازُک بہت یہ مُحبت کی ڈوری

کبھی آؤ گھر پر تو تُم کو کِھلائیں
جلیبی، امرتی ،سموسے، کچوری

دِلاسے سے مِٹتی نہیں بُھوکِ مُفلس
دِلادو اِسے ایک آٹے کی بوری

کہاں ہو مسیحا! غریبوں کے، آؤ
امیروں کی پھر مُنتظر ہے تِجوری

مرا ذہن تسکین پاتا ہے
شارؔق
مُجھے یاد آتی ہے جب ماں کی لوری
 

الف عین

لائبریرین
اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں، جس طرح ہو گئی ہے، بس یوں ہی اسے الگ رکھ دو۔ اصلاح کی کوشش کرنا بھی فضول ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جلیبی کا ذکر کھینچ لایا۔۔۔ بچ گئی ہوں تو بھجوا دیجئیے۔

باقی ردیف ، قافیہ، مضمون تو اساتذہ ہی بتائیں گے۔
 
Top