جلوئہ جانانہ

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
خدا جانے کہاں سے جلوئہ جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے

ہم اتنا بھی نہ سمجھے عقل کھوئی دل گنوا بیٹھے
کہ حسن و عشق کی دنیا کہاں سے ہے کہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالم ہے
نہیں معلوم میرے دل کی ویرانی کہاں تک ہے

نیاز و راز کی روداد حسن و عشق کا قصہ
یہ جو کچھ بھی ہے سب ان کی ہماری داستاں تک ہے

خیالِ یار نے تو آتے ہی گم کر دیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

سنا ہے ہم نے صوفیوں سے اکثر خانقاہوں میں
یہ بے رنگیں بیانی بیدم رنگیں بیاں تک ہے
بیدم شاہ وارثی
 

سید زبیر

محفلین
خیالِ یار نے تو آتے ہی گم کر دیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے
عمدہ کلام اور خوبصورت انتخاب
 
Top