جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے

نوید ناظم

محفلین
تُو روشنی کا سوچ کے یوں ہی انا میں ہے
جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے

ہم مے کشوں کا علم ہے سارے جہان کو
واعظ بتا ذرا جو کہ تیری قبا میں ہے

توحید میں ہیں دونوں ہے تھوڑا سا فرق یہ
بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے

بے سمت پھر رہا ہے مگر بیٹھتا نہیں
یہ دل غبار ہے کوئی یا پھر خلا میں ہے

کوئی سفید پوش ہے بوڑھا فقیر بھی
معلوم پڑ رہا ہے جو لرزش صدا میں ہے

منت کشِ وفا بھی میں ہو سکتا ہوں نوید
پر ایک لطف ہے جو کہ اُس کی جفا میں ہے
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تمہاری چھوٹی بحر کی غزلوں میں اکثر کوئی سقم نہیں ہوتا لیکن اس درمیانی بحر، کہ یہ بھی کوئی طویل بحر نہیں، میں تقریباً ہر شعر میں روانی کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ زیادہ تر حروف کے اسقاط کی وجہ سے۔ ذرا خود ہی روائز کر کے دیکھیں
 

نوید ناظم

محفلین
ویسے تمہاری چھوٹی بحر کی غزلوں میں اکثر کوئی سقم نہیں ہوتا لیکن اس درمیانی بحر، کہ یہ بھی کوئی طویل بحر نہیں، میں تقریباً ہر شعر میں روانی کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ زیادہ تر حروف کے اسقاط کی وجہ سے۔ ذرا خود ہی روائز کر کے دیکھیں
بہت شکریہ سر، اب دیکھیے گا تبدیلیاں تو کی ہیں۔

تُو روشنی کا سوچ کے یوں ہی انا میں ہے
جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے

ہم مے کشوں کا علم ہے سارے جہان کو
اب شیخ بھی بتائیں جو ان کی قبا میں ہے

توحید میں تو ہم بھی تری طرح کے ہیں پر
بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے

بے سمت پھر رہا ہے مگر بیٹھتا نہیں
یہ دل کوئی غبار ہے یا پھر خلا میں ہے

کوئی سفید پوش ہے بوڑھا فقیر بھی
معلوم پڑ رہا ہے جو لرزش صدا میں ہے

بس اس لیے ہُوا نہ میں منت کشِ وفا
مجھ کو نوید لطف بھی اُس کی جفا میں ہے
 

فاخر رضا

محفلین
توحید میں تو ہم بھی تری طرح کے ہیں پر
بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے
اسے اور دیکھ لیں باقی تو سب اچھے ہوگئے
اس شعر کی بیماری بھی دور کردیں، یہ نہیں معلوم کہ کیا ہے. بس کچھ اور گریسنگ کی ضرورت ہے شاید پھر رواں ہوجائے گا
 

الف عین

لائبریرین
تُو روشنی کا سوچ کے یوں ہی انا میں ہے
جلتا ہوا چراغ تو اب بھی ہوا میں ہے
... واضح اب بھی نہیں ہوا

ہم مے کشوں کا علم ہے سارے جہان کو
اب شیخ بھی بتائیں جو ان کی قبا میں ہے
... شاید پہلا مصرع یوں ہو تو واضح ہو جائے
ہم مے کشوں کے پاس ہے کیا سب کو علم ہے

توحید میں تو ہم بھی تری طرح کے ہیں پر
بت پر یقیں ہمیں جو تمھارا خدا میں ہے
.... پر اچھا نہیں لگتا، شتر گربہ بھی ہے ۔ یوں کہو
توحید میں تمہاری طرح ہم بھی ہیں مگر
بت پر یقیں ہمیں ہے، تمھارا خدا میں ہے

بے سمت پھر رہا ہے مگر بیٹھتا نہیں
یہ دل کوئی غبار ہے یا پھر خلا میں ہے
.... درست

کوئی سفید پوش ہے بوڑھا فقیر بھی
معلوم پڑ رہا ہے جو لرزش صدا میں ہے
... عجز بیان ہے یہ بات واضح نہیں ہو رہی کہ اس کی صدا میں جو لرزش ہے، اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے

بس اس لیے ہُوا نہ میں منت کشِ وفا
مجھ کو نوید لطف بھی اُس کی جفا میں ہے
... دوسرا مصرع کمزور ہے 'مجھ کو لطف ہے' کیا نثر ہوئی؟
 
Top