جلائے جاتے ہیں مجھ کو رلائے جاتے ہیں۔ نجم کاکوی

جلائے جاتے ہیں مجھ کو رلائے جاتے ہیں
ستم تو یہ ہے کہ وہ مسکرائے جاتے ہیں

فسانۂ غم ہستی سنائیں کیا ہمدرد
بنائے جاتے ہیں ہم اور مٹائے جاتے ہیں

پلائی ہے ہمیں ساقی نے اس قدر شب بھر
خمار آنکھوں میں ڈگمگائے جاتے ہیں

کوئی سنے نہ سنے داستانِ دل اپنی
ہم اپنے آپ کو ہر دم سنائے جاتے ہیں

سنا رہا ہوں جو اے نجمؔ ماجرائے فراق
نگہ وہ نیچی کئے مسکرائے جاتے ہیں

اِدھر یہ شوق کے ان کو ہی اک نظر دیکھو
اُدھر حجاب سے وہ منہ چھپائے جاتے ہیں


نجم کاکوی
 
Top