جعفر منصور کا لاجواب ہونا

ابو جعفر منصور کے حاجب ربیع کا بیان ہے خلیفہ جعفر کو اطلاع ملی کے ایک شخص کے پاس بنو امیہ کے مال محفوظ ہے اور وہ چپ چاپ انہیں احتیاط کے ساتھ رکھے ہوئے ہے- خلیفہ نے مجھ سے کہا کے اسے میرے سامنے حاضر کرو- میں اسے لے کر خلیفہ کے حضور پہنچا- منصور نے کہا؛ ہمیں معلوم ہوا کہ تمھارے پاس بنو امیہ کے اموال ہیں- اگر یہ سچ ہے تو ہمارے سامنے وہ سب پیش کرو- وہ بولا ؛ اے امیرالمئومنین ! کیا آپ ان کے وارث ہیں؟
منصور نے کہا؛ نہیں
بنو امیہ کے وہ لوگ جن کی امانتیں میرے پاس رکھی ہوئی ہیں؛ کیا آپ کے لیئے وصیت کر گئے ہیں؟ اس نے پوچھا
منصور نے کہا؛ ایسا بھی نہیں ہوا-
وہ بولا ؛ پھر آپ مجھ سے کیوں طلب کرتے ہیں؟
مجھ نے کچھ دیر سر جھکائے رکھا پھر اس نے سر اٹھایا اور جواب دیا؛ بنوں امیہ ظالم تھے، یہ دولت اور ثروت انہوں نے ظلم کر کے حاصل کی- میں مسلمانوں کا وکیل ہوں لہزا میں چاہتا ہون کہ یہ مال لے کر بیت لمال میں داخل کر دوں-
وہ بولا؛ یا امیرلمئومنین سب سے پہلے تو اس کا ثبوت دیجئے کے میرے پاس بنوں امیہ کا جو مال ہے وہ غصب اور ظلم سے حاصل کیا گیا ہے اس میں خیانت کا دخل ہے مسلمانوں سے زبردستی حاصل کیا گیا ہے، آخر بنوں امیہ کے پاس مسلمانوں کے مال کے علاوہ خود ان کا زاتی مال بھی تو کچھ تھا-
منصور نے پھر سر جھکا لیا پھر اس نے سر اٹھایا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا؛ اے ربیع اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
پھر منصور اس آدمی کی طرف ملتفت ہوا اور متبسم ہو کر کہنے لگا؛ کوئی ضرورت ہو تو بتاو میں پوری کر دوں۔
کہنے لگا ؛ “جی ایک ضرورت ہے- آپ سرکاری ڈاک کے ذریعے میرا ایک خط شام میں میرے متعلقین کو پہنچا دیں تاکہ وہ میری طرف سے مطمئن ہو جائیں، اس کی تکمیل کے بعد دوسری بات عرض کروں گا۔“
وہ بولا۔۔ “ میں آُپ کے کرم کا واسطہ دے کر کہتا ہوں ، اس شخص کو میرے سامنے بلائیے جس نے میری چغلی آپ سے کھائی ۔ خدا کی قسم میرے پاس بنو امیہ کی کوئی چیز نہیں ہے ، نہ دولت نہ امانت نہ مجھے یہ علم ہے کہ ایسی چیزیں کسی دوسرے شخص کے پاس ہیں۔ میں نے آپ سے اس بارے میں ابھی جو گفتگو کی محض اخلاص کے جذبے سے کی کہ آپ سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو ناروا ہو“۔
امیر المومنین کے حکم پر اس شخص کو سامنے لایا گیا۔ جب اس نے چغل خور کو دیکھا تو کہا۔
“ یہ میرا غلام ہے جو میرے تین ہزار دینار لے کر بھاگ کھڑا ہوا تھا۔“
منصور نے جب یہ سنا تو غلام پر سختی کی اور کہا۔
“سچ سچ بتا، کیا معاملہ ہے ؟“
غلام نے آخر اقرار کر لیا کہ واقعی تین ہزار دینار لے کر اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔
منصور نے غلام کے آقا سے کہا۔ “ اب تم اسے معاف کر دو۔ “
وہ بولا۔ “ یا امیر المومنین! میں نے اس کا جرم معاف کیا۔ اس کی خطا بخش دی۔ اپنے مطالبے سے دستبردار ہوگیا اور مزید تین ہزار دینار اسے دیتا ہوں۔ “
منصور نے پوچھا۔ “ یہ کرم کیوں ؟“
وہ بولا “ آپ کی سفارش کے صدقے میں “
یہ کہا اور چلا گیا۔ اس کے بعد منصور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا تھا، کہتا تھا۔
‘ ربیع اس آدمی کا سا کوئی آدمی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ‘
 
Top