جشن فتح ۔ قوم میں ٹیم سپرٹ کی بنیاد بن سکتا ہے

راجہ صاحب

محفلین
پاکستان ورلڈ ٹونٹی 20کرکٹ ٹورنامنٹ میں سری لنکا کو 8وکٹوں سے شکست دیکر عالمی چیمپیئن بن گیا۔ پاکستانی ٹیم نے 139رنز کا مطلوبہ ہدف 18.4اوور میں پورا کرلیا شاہد آفریدی میچ پر چھائے رہے انہوں نے بیٹنگ کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہوئے 40گیندوں پر 54رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے انہیں مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔فاتح پاکستانی ٹیم نے ٹرافی اٹھا کر گراؤنڈ کا چکر لگایا تو پاکستانی ٹیم کی کامیابی پراسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پاکستان نے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کو شکست دی تھی جو پچھلے کئی سال سے دنیا کی نمبر ون ٹیم چلی آرہی ہے اور اس ٹورنامنٹ میں بھی وہ پاکستان کے مقابل آنے سے پہلے سارے میچوں میں ناقابل شکست رہی تھی۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان لاہور کے افسوسناک واقعہ کے بعد یہ پہلامیچ تھا ۔ شاہد آفریدی کے وننگ اسٹروک پر پاکستانی ٹیم خدائے بزرگ کے آگے سجدہ ریز ہوگئی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ کامیابی اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ 1992ء میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ورلڈ ٹونٹی 20کرکٹ ٹورنامنٹ تک پاکستان کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ جس پر کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والے حلقے اور کھلاڑیوں میں بڑی مایوسی پائی جاتی تھی لیکن اس کامیابی نے اس مایوسی کو بے پناہ خوشی مسرت اور امیدوں میں بدل دیا ہے اور پاکستانی ٹیم کے کپتان یونس خاں کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ٹیم نے قوم کو ایک تحفہ دیا ہے۔ اس کامیابی پر ملک کی سیاسی، مذہبی اور عوامی حلقوں کے علاوہ کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں نے بے پناہ مسرت کا اظہار کیا ہے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ، چاروں صوبائی گورنرز، الطاف حسین، رحمن ملک او ر متعدد رہنماؤں اور سیاستدانوں نے ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے شاندار فتح قرار دیا اور کہا کہ ٹیم نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ قوم کی دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیں۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس کامیابی پر ٹیم کو مبارکباد پیش کی اور بے نظیر بھٹو کی 56ویں سالگرہ پر اس کامیابی کو ایک یادگار لمحہ قرار دیا۔ صدر زرداری نے آفریدی اور یونس خاں کے لئے 10,10لاکھ اور ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں کے لئے 5,5لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا جبکہ وزیر اعظم نے ٹیم کو عشایئے میں شرکت کی بھی دعوت دی۔ اس کامیابی پر ملک بھر میں زبردست خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فتح کا جشن منایا گیا۔ رات گئے لوگ سڑکوں اور گلی کوچوں میں نکل آئے، مٹھائیاں تقسیم کیں اور زبردست آتش بازی کے مظاہرے ہوئے۔پورے ملک کی سڑکیں، شاہراہیں اور گلی کوچے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتے رہے۔ اس کامیابی پر سوات، مردان، پشاور اور دوسرے شہروں میں متاثرین کے کیمپوں میں بھی زبردست جشن منایا گیا۔ کیمپ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے۔ نوجوانوں نے بھنگڑے ڈالے او ربزرگ شہریوں کی طرف سے بھی جشن فتح میں بے پناہ مسرت کا اظہار کیا گیا۔ میچ شروع ہونے پر لوگ گھروں کے اندر اور بازاروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے اور کمسن بچوں کے ساتھ جوان، مرد، عورتیں اور بوڑھے خاص طور پر بزرگ پاکستان کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہے جبکہ لندن کے علاوہ برطانیہ کے دوسرے شہروں اور یو اے ای میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں نے ٹیم کی کامیابی پر بھنگڑے ڈالے، مٹھائیاں تقسیم کیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔
1992ء کی فتح کے بعد پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی تھیں اور قومی سطح پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا تھا اس پر طرہ یہ کہ قوم پر مسائل اور چیلنجز کے بوجھ نے اس مایوسی میں زبردست اضافہ کیا ملک سیاسی اور اقتصادی مسائل کے علاوہ امن و امان کی دگرگوں صورتحال، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے ان حالات میں نہ صرف ملک سے سرمائے کا فرار تیز تر ہوگیا ہے بلکہ غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کار بھی دوسرے ممالک کا رخ کرر ہے ہیں۔ سرمایہ کاری عملاًانجماد کا شکار ہے، گیس و بجلی کے بحران کے باعث ہزاروں صنعتی، تجارتی، کاروباری ادارے بند ہوئے، لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سوات، دیر، مالا کنڈ اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے شہادت کے واقعات معمول بن کر رہ گئے ہیں ہر روز کسی نہ کسی شہر میں کوئی المناک سانحہ رونما ہوتا اور عوام کو سراپا الم بنا دیتا ہے ۔ایسے المناک اور رنج و غم سے بھرپورحالات میں پاکستانی ٹیم کی شاندار کامیابی کی نوید نے پورے ملک کی سوگوار فضا کو امید افزاء حوصلہ پرور اور خوشگوار فضا میں بدل دیا۔ ہر عمر اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے مردوں، خواتین، بچوں ،بوڑھوں، نوجوانوں اور بزرگ افراد نے کسی نسلی، علاقائی، گروہی، لسانی اور مذہبی تفریق و امتیاز اور وابستگی سے بالاتر ہو کر ملک گیر سطح پر فتح کا جشن منایا اور اپنے جوش و جذبہ سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک حقیقی مسرت سے سرشار قوم ہیں اور اگر خوشی و مسرت کی خبریں ملیں تو قوم کا ہر فرد بلا امتیاز نہ صرف اس خوشی میں شامل ہو کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو ان مسرت آمیز لمحات میں شریک دیکھنا چاہتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے المناک واقعات کے باوجود اس پُرمسرت موقع پر کہیں بھی کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا اور عوام نے بھی فتح کا جشن مناتے ہوئے ایسے تمام تحفظات اور خدشات کو پس پشت ڈال کر فتح کے جشن میں بھرپور حصہ لیا اور ثابت کر دیا کہ انہیں دہشت گردی کا کوئی خوف نہیں اور وہ اپنے دلی جذبات کے اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ اس شاندار کامیابی اور اس پر پوری قوم کے امید افزاء ردعمل اور بے پناہ خوشی و مسرت کے اظہار نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اگر قومی سطح پر ہم اپنے اندر ٹیم سپرٹ کو فروغ دے کراتحاد و یکجہتی کی بنیاد پر ہر قسم کی نسلی، علاقائی اور گروہی عصبیت سے ہٹ کر باہمی افہام و تفہیم ،ایک دوسرے کے احترام اور وسیع تر قومی و ملکی مفادات کے پیش نظر فکری و نظریاتی اختلافات کو ان کی حدود کے اندر رکھنے کی پالیسی اختیار کریں تو بلاشبہ انفرادی اور اجتماعی کامیابیاں ہمارا مقدر بن سکتی ہیں۔ اس طرح نہ صرف اتحادویک جہتی کے جذبے کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ قومی سطح پر نظم و ضبط کی بدولت ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی منزل کی طرف یقینی کامیابی کے ساتھ پیش رفت کو ممکن بنا سکیں گے۔ اس جشن فتح کے حوالے سے تمام حلقوں نے صرف اور صرف پاکستان کو پیش نظر رکھا۔ کوئی فرقہ واریت اور کوئی تفریق و امتیاز اس جشن کی راہ میں حائل نظر نہیں آیا۔ پوری قوم بالخصوص ملک بھر کی سیاسی و مذہبی قوتوں کے لئے کرکٹ ٹیم کی یہ کامیابی ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ قوتیں بھی اسی جذبے کا مظاہر ہ کریں تو نہ صرف یہ کہ قوم کے حواسوں پر چھائی ہوئی مایوسی ختم ہوگی بلکہ مملکت خداداد کے بنیادی تقاضوں اور اغراض و مقاصد کی طرف کامیاب پیش رفت کو بھی ممکن بنا کر عوام کی مایوسیوں اور محرومیوں کو ختم کرکے انہیں آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے مستفیض کیاجاسکے گا۔ قوم ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہے لہٰذا حکمرانوں کوبھی اسی جذبہ قربانی اوریکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔



ماخذ :۔ روزنامہ جنگ
 
Top