حسان خان
لائبریرین
جس کے دل میں حُبِّ حیدر ہو وہ آئے سامنے
غیر کیا پائے گا جا کر مصطفیٰ کے سامنے
مرحب و عنتر سے پوچھو تیغِ حیدر کا مزہ
زورِ حق بازو میں ہو پھر کون ٹھہرے سامنے
جز علی اسلام کی تاریخ میں رکھا ہے کیا
دوسرا فتاحِ خیبر کوئی لائے سامنے
جنگِ خندق میں وہ اک ضربت علی کی الاماں
دونوں عالم کی عبادت ہیچ جس کے سامنے
ہم نے اشکوں سے غمِ سرور میں دامن بھر لیا
قدر کیا لعل و جواہر کی ہمارے سامنے
سچ بتاؤ کیا تمہارے دل پہ گذرے گی اگر
توڑ دیں دم بھانجے، بھائی، بھتیجے سامنے
آ گئے آنکھوں میں آنسو حضرتِ عباس کے
خالی کوزے لے کے جس دم آئے بچے سامنے
بولے اے عباس تیری زندگی پر حیف ہے
ساقیِ کوثر کا بیٹا اور پیاسے سامنے
لے کے مشکیزہ تسلی دے کے بچوں کو چلے
آ گئے بہرِ رضا شاہِ ہُدا کے سامنے
عرض کی پانی کسی قیمت پر لانا ہے مجھے
پیاس سے تڑپے سکینہ اور میرے سامنے
ہائے کیسا ظلم ہے پیاسے رہیں یہ نونہال
اور نہرِ علقمہ پانی سے چھلکے سامنے
شاہ نے حسرت بھری نظروں سے دیکھا بھائی کو
آ گیا منظر نہ جانے کیا نظر کے سامنے
ہائے کوئی دیکھتا عباس کی وہ بے بسی
بہہ گیا جب مشک سے پانی نظر کے سامنے
چھد گیا مشکیزہ، بازو ہو گئے دونوں قلم
تھی سکینہ منتظر خیمے کے در کے سامنے
اے مجاہد جب نہیں اشعار میں حسنِ کلام
کھولتے ہو کیوں زباں اہلِ نظر کے سامنے
(مجاہد لکھنوی)