جس کی آنکھیں موتی جیسی پیاری پیاری مل گیا غزل نمبر 72 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:

جس کی آنکھیں موتی جیسی پیاری پیاری مل گیا
جن کو اپنی دھڑکنیں سونپی تھی ساری مل گیا

یاد میں رو رو کے جن کی شب گزاری مل گیا
جس نے میرے دل کو دی ہے بےقراری مل گیا

رنج وغم درد و الم سہتے ہیں فرقتِ صنم
زندگی ہے مل گئی یا بوجھ بھاری مل گیا

کہتا تھا کچھ نیند دیدو مجھ کو لاکھوں کے عوض
راستے میں ایک دولت مند بھکاری مل گیا

آہ کیسے دن تھے جب اک بوند کو ترسے تھے ہم
ہائے اب نہ پیاس ہے تو چشمہ جاری مل گیا

ہائے کیسے دل جلے ہیں عاشقانِ بد نصیب
مل سکا نہ یار شورِ آہ و زاری مل گیا

بعد مدت کے دکھا ُگل تتلیوں کے درمیاں
منتظر تھیں جن کی یہ نظریں ہماری مل گیا

تنگ ہے ویرانیء گلشن سے خود بادِ خزاں
ہے خزاں خوش موسمِ بادِ بہاری مل گیا

ایک دیوانہ سرِ صحرا وہی لیلیٰ کا قیس
کل مجھے کرتے ہوئے اختر شماری مل گیا

کانپتے تھے جن کے ناموں سے جہاں کے سورما
وقتِ مرگ ان آنکھوں میں خوف طاری مل گیا

بس یہی شارؔق ہے جھوٹی دنیا میں راہِ نجات
شُکر ہے کہ دل کو میرے ذکرِ باری مل گیا
 
آخری تدوین:
Top