اقتباسات جس پہ بیداری تصدق ، وہ مجھے نیند ملی۔۔۔ ہر قدم روشنی۔۔۔سفرنامہ ، خورشید ناظر۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
دسمبر 1978 کی بات ہے جب میں ضلع بہاول نگر کے ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر پر ایک معمولی آفیسر کے طور پر کام کرتا تھا۔ چھوٹا شہر، چھوٹی سوسائٹی، چھوٹی باتیں۔۔۔ تنہا رہتا تھا، اس لئے مطالعہ کرنے، شاعری کرنے اور تنقیدی مضامین لکھنے کا عمل ہمیشہ رات گئے شروع کرتا اور جب تک نیند کی دیوی تھپکی دے کر سلا نہ دیتی ، یہ کام جاری رہتے۔۔۔ کلب سے رات گئے واپس آیا، ٹیلی ویزن آن کیا تو کوئی صاحب نعت رسول مقبول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھ رہے تھے۔ کلام اور ان کے پڑھنے کا انداز دونوں ایسے دل پزیر کہ بے ساختہ آنکھوں میں آنسو مچلنے لگے۔ نعت ختم ہوئی ، میں نے قلم اٹھایا اور زندگی کی پہلی نعت کہنے لگا۔ شعر کہتا اور زاروقطار روتا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میرے دل سے سیاہیوں کی پرتیں آہستہ آہستہ اترتی جا رہی ہیں۔ نجانے کب میں نیند کی وادی میں جا پہنچا۔۔۔ اور یہ وہی نیند ہے جس پر میری لاکھوں بیداریاں قربان۔۔۔ اس نیند نے مجھے میری زندگی کے عظیم ترین لمحے عطا کیے۔ ایسے لمحے جن پر میں ، میری اولاد ، میرا گھر سب قربان۔۔۔ کاش یوں ہوتا کہ میں اس نیند سے کبھی بیدار نہ ہوتا کیونکہ اس کے عطا کیے ہوئے ایک لمحے پر میں اپنی لاکھوں زندگیاں قربان کردوں تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں۔ مجھے زندگی میں ان گنت کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں جن پر رشک کیا جا سکتا ہے، ایسی خوشیاں ملی ہیں جن کا سُرور زندگی کے آخری سانس تک مسرور کر سکتا ہے۔ لیکن اس نیند کا احسان ، اس کی لذت ، اس کا سرور ، اس کی مستی ، اس کی خوشبو ، اس کا احساس اور اس کا خیال ایسا ہے کہ ذہن میں آتے ہی نجانے آنکھوں میں کہاں سے پانی کی بوندیں نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر ان لمحات پُر غرور کے سمندر میں اس عاجزی کےساتھ اترنے لگتا ہوں کہ میں جتنا جھکتا جاتا ہوں میرا قد اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرا سر آسمان سے ٹکرانے لگا ہے۔۔۔
اس نیند نے مجھے ایک خواب بخشا۔۔۔ میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں ایک نہایت باوقار شخص تشریف فرما ہیں۔ چہرہ نورانی اور ریش مبارک سفید ہے۔ کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ میں ان کےسامنے نہایت ادب سے سر جھکائے بیٹھا ہوں۔ وہ اس کتاب کو پڑھتے ہیں اور مجھے اس کا مفہوم سمجھاتے ہیں۔۔۔ یک لخت وہ کتاب کو بند کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھڑے ہوتے ہی مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں۔" تعظیم ، نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے ہیں"۔۔۔ ماحول معطر ہو جاتا ہے۔ میں فوراً کھڑا ہو جاتا ہوں، مڑ کر دیکھتا ہوں ، میرے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید لباس میں ملبوس انتہائی وقار کے ساتھ چلتے ہوئے ہمارے بالکل قریب تشریف لا چکے ہیں۔ میری گردن اس جلوہء بے مثال ، اس حسن بے بدل ، اس انسان کامل کے ادب میں خود بخود جھک جاتی ہے اور گردن کے جھکتے ہی میری نیند مجھے اس بیداری کے عالم میں لا پھینکتی ہے جس کا ایک ایک پل اب پھیکا ، بے مزہ اور حقیر ہو کر رہ گیا ہے۔۔۔ نیند سے بیدار ہو کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہوں ، درود تاج پڑھتا ہوں، روتا ہوں ، پھر درود پڑھتا ہوں اور اسی عالم میں کچھ وقت گزرتا ہے کہ مسجدوں سے اذان فجر کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔۔۔ وہ چند لمحے میری زندگی کا سرمایہ ہیں جن کی لذت اور خوشبو مجھ سے ایک لمحے کو بھی جدا نہیں ہو سکی۔ اور یقین ہے کہ میں میدان حشر میں اسی لذت اور خوشبو کی دولت بے بہا کے ساتھ جاؤں گا۔۔۔
آج جب میں ان بے مثال لمحات ، اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مجھ پر کیے جانے والے احسانات کا جائزہ لیتا ہوں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ مجھ تاریکی میں ڈوبے ہوئے نادان انسان پر روشنی کے ان گنت دریچے کیوں کھول دیئے گئے، گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے مجھ حقیر انسان کو اس قدر سرفراز کیوں کیا گیا، مجھ بے عمل شخص کا وہ کون سا عمل ہے جس نے مجھے خوشبوؤں کے اس سمندر کا حق دار بنا دیا جس کی قیمت کائنات میں موجود سبھی اثاثے نہیں چکا سکتے۔ سالہا سال کے غور و فکر کے بعد بھی جب میں خود میں کسی خوبی کی تلاش میں ناکام ہو جاتا ہوں تو اللہ کی کریمی اور آقائے اُمّی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا پر میرا ایمان اور پختہ ہو جاتا ہے۔۔۔
"ہر قدم روشنی" از محترم خورشید ناظر صاحب۔۔۔
(یہ سفرنامہ حج پڑھنے لائق ہے)
 

نور وجدان

لائبریرین
جزاک اللہ ،
یہ اتنی پیاری کتاب ہے کہ اس کی ابتدا کردی پڑھنے کو گوکہ بہت سست قاری ہوں ، شکریہ شئیر کرنے کا
 
Top