جسے چاہتا ہوں وہ دے دے دکھائی-----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
------------
فعولن فعولن فعولن فعولن
--------
جسے چاہتا ہوں وہ دے دے دکھائی
مقدّر میں میرے ہے کیوں یہ جدائی
---------------
محبّت اسی کی سدا میں نے چاہی
جوانی میں پکڑی تھی جس کی کلائی
--------------
وہ بچپن کی چاہت کبھی میں نہ بھولا
اسی نے محبّت مجھے تھی سکھائی
------------
رقیبوں نے مل کر جدا کر دیا ہے
لڑائی کسی نے یہ ہم میں کرائی
-------------------
زمانے کی عادت پرانی ہے یہ ہی
جہاں پیار دیکھا تو ڈالی جدائی
--------------
محبّت کے رستے میں آتے ہیں اکثر
کبھی جا نہ پائے گی ان میں ڈھٹائی
--------------
نگاہوں سے میری تو ہٹتی نہیں ہے
کسی کی جو دیکھی ہتھیلی حنائی
-------------
وہ پہلی نظر میں ہوا پیار مجھ کو
ہتھیلی پہ میں نے یہ سرسوں جمائی
---------------
مرے دوستو یہ کہانی ہے کیسی
تمہیں آج ارشد نے جو ہے سنائی
---------
 

عظیم

محفلین
جسے چاہتا ہوں وہ دے دے دکھائی
مقدّر میں میرے ہے کیوں یہ جدائی
---------------ٹھیک

محبّت اسی کی سدا میں نے چاہی
جوانی میں پکڑی تھی جس کی کلائی
--------------درست

وہ بچپن کی چاہت کبھی میں نہ بھولا
اسی نے محبّت مجھے تھی سکھائی
------------ اسی نے سے ظاہر نہیں ہے کہ کس نے۔

رقیبوں نے مل کر جدا کر دیا ہے
لڑائی کسی نے یہ ہم میں کرائی
-------------------یہ کچھ اچھا نہیں لگ رہا

زمانے کی عادت پرانی ہے یہ ہی
جہاں پیار دیکھا تو ڈالی جدائی
--------------'یہی ہے پرانی'

محبّت کے رستے میں آتے ہیں اکثر
کبھی جا نہ پائے گی ان میں ڈھٹائی
--------------واضح نہیں ہے۔ رستوں میں ڈھٹائی مراد ہے تو الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے

نگاہوں سے میری تو ہٹتی نہیں ہے
کسی کی جو دیکھی ہتھیلی حنائی
-------------'تو' بھرتی کا لگتا ہے۔ شاید 'وہ' بہتر رہے

وہ پہلی نظر میں ہوا پیار مجھ کو
ہتھیلی پہ میں نے یہ سرسوں جمائی
---------------دو لخت لگتا ہے

مرے دوستو یہ کہانی ہے کیسی
تمہیں آج ارشد نے جو ہے سنائی
---------ٹھیک مگر غزل کچھ اتنی خاص نہیں لگی۔ شاید ردیف نہ ہونے کی وجہ سے یا پچھلی غزل بہتر ہونے کی وجہ سے۔
 
الف عین
عظیم
-----------
میں اس کی محبّت بھلاؤں تو کیسے
اسی نے محبّت مجھے تھی سکھائی
------------
محبّت میں رخنہ رقیبوں نے ڈالا
تبھی ہو گئی ہے یہ ہم میں جدائی
--------------
زمانے کی عادت یہی ہے پرانی
جہاں پیار دیکھا تو ڈالی جدائی
--------------
محبّت کے رستے میں آتے ہیں اکثر
یہ عادت ہے ان کی کراؤ لڑائی
------------
نگاہوں سے میری وہ ہٹتی نہیں ہے
کسی کی جو دیکھی ہتھیلی حنائی
------------
وہ پہلی نظر میں ہوا پیار مجھ کو
نظر سے جو اُس نے نظر تھی ملائی
----------
نوٹ---استادِ محترم کی سہولت کے لئے مطلع اس طرح کر دیتا ہوں
جسے چاہتا ہوں وہ دے اب دکھائی
مقدّر میں میرے ہے کیوں یہ جدائی
---------------
 
آخری تدوین:
الف عین
عظیم
-----------
میں اس کی محبّت بھلاؤں تو کیسے
اسی نے محبّت مجھے تھی سکھائی
------------
محبّت میں رخنہ رقیبوں نے ڈالا
تبھی ہو گئی ہے یہ ہم میں جدائی
--------------
زمانے کی عادت یہی ہے پرانی
جہاں پیار دیکھا تو ڈالی جدائی
--------------
محبّت کے رستے میں آتے ہیں اکثر
یہ عادت ہے ان کی کراؤ لڑائی
------------
نگاہوں سے میری وہ ہٹتی نہیں ہے
کسی کی جو دیکھی ہتھیلی حنائی
------------
وہ پہلی نظر میں ہوا پیار مجھ کو
جظر سے جو اُس نے نظر تھی ملائی
----------
نوٹ---استادِ محترم کی سہولت کے لئے مطلع اس طرح کر دیتا ہوں
جسے چاہتا ہوں وہ دے اب دکھائی
مقدّر میں میرے ہے کیوں یہ جدائی
---------------
 

عظیم

محفلین
میں اس کی محبّت بھلاؤں تو کیسے
اسی نے محبّت مجھے تھی سکھائی
------------وہ جس نے محبت... بہتر ہو گا

محبّت میں رخنہ رقیبوں نے ڈالا
تبھی ہو گئی ہے یہ ہم میں جدائی
--------------'یہ ہم میں' کی جگہ 'ہماری' بہتر لگتا ہے

زمانے کی عادت یہی ہے پرانی
جہاں پیار دیکھا تو ڈالی جدائی
--------------پہلا مصرع مزید بہتری کے لیے
یہی ہے زمانے کی عادت پرانی
باقی ٹھیک ہے

محبّت کے رستے میں آتے ہیں اکثر
یہ عادت ہے ان کی کراؤ لڑائی
------------کون لوگ آتے ہیں یہ واضح نہیں

نگاہوں سے میری وہ ہٹتی نہیں ہے
کسی کی جو دیکھی ہتھیلی حنائی
------------پہلے کی روانی بہتر کی جا سکتی ہے
وہ میری نگاہوں سے ہٹتی نہیں ہے۔ وغیرہ
دوسرے میں 'دیکھی' کی جگہ 'دیکھوں' بہتر لگ رہا ہے

وہ پہلی نظر میں ہوا پیار مجھ کو
نظر سے جو اُس نے نظر تھی ملائی
----------پہلے میں 'وہ' کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ شاید 'تو' بہتر رہے۔

جسے چاہتا ہوں وہ دے اب دکھائی
مقدّر میں میرے ہے کیوں یہ جدائی
--------------'اب' بھرتی کا لگتا ہے۔
 
Top