شاہد شاہنواز
لائبریرین
جسے اپنا ہم نے سمجھ لیا وہی اپنا بن کے رہا نہیں
اسے کیسے ہم بھی پکارتے کہ گلے سے نکلی صدا نہیں
اسے جیسے رنگ میں دیکھئے وہ فریب اپنی نظر کا ہے
ہے خیال اپنے دماغ کا، وہ بھلا نہیں وہ برا نہیں
غمِ دل سنائیں تو ہم کسے ؟ کوئی ہے نہیں جو یہ سب سنے
اسے کیا کہیں جو قریب تھا، اسے کیا کہیں جو رہا نہیں
اسے اس قدر بھی نہ سوچئے کہ ہر اک قصور اسی کا ہو
یہی ذہن میں ہی رہے کہ وہ ،تو خیال اس کے سوا نہیں
وہ پرانی بات نہیں رہی، یہاں بس دوا سے علاج ہے
وہ مریض کیا کہ مرض نہیں، وہ طبیب کیا کہ شفا نہیں
یہاں کچھ خوشی نہیں، غم نہیں، جسے کوئی پورا سمجھ سکے
یہاں عشق ہے تو نظر نہیں، یہاں حسن ہے تو ادا نہیں
یہاں اس سبب سے بھی درد ہے، یہاں جو بھی رنگ ہے، زر د ہے
یہاں جو بھی ہے سو وہ جھوٹ ہے، یہاں کچھ بھی صدق و صفا نہیں
یہاں لوگ نکلے جو پیار کو، تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا
سبھی ہاتھ خنجروں سے بھر گئے، کسی دل سے نکلی دعا نہیں
برائے توجہ ۔۔۔ جناب الف عین صاحب
اسے کیسے ہم بھی پکارتے کہ گلے سے نکلی صدا نہیں
اسے جیسے رنگ میں دیکھئے وہ فریب اپنی نظر کا ہے
ہے خیال اپنے دماغ کا، وہ بھلا نہیں وہ برا نہیں
غمِ دل سنائیں تو ہم کسے ؟ کوئی ہے نہیں جو یہ سب سنے
اسے کیا کہیں جو قریب تھا، اسے کیا کہیں جو رہا نہیں
اسے اس قدر بھی نہ سوچئے کہ ہر اک قصور اسی کا ہو
یہی ذہن میں ہی رہے کہ وہ ،تو خیال اس کے سوا نہیں
وہ پرانی بات نہیں رہی، یہاں بس دوا سے علاج ہے
وہ مریض کیا کہ مرض نہیں، وہ طبیب کیا کہ شفا نہیں
یہاں کچھ خوشی نہیں، غم نہیں، جسے کوئی پورا سمجھ سکے
یہاں عشق ہے تو نظر نہیں، یہاں حسن ہے تو ادا نہیں
یہاں اس سبب سے بھی درد ہے، یہاں جو بھی رنگ ہے، زر د ہے
یہاں جو بھی ہے سو وہ جھوٹ ہے، یہاں کچھ بھی صدق و صفا نہیں
یہاں لوگ نکلے جو پیار کو، تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا
سبھی ہاتھ خنجروں سے بھر گئے، کسی دل سے نکلی دعا نہیں
برائے توجہ ۔۔۔ جناب الف عین صاحب