جسے اپنا ہم نے سمجھ لیا وہی اپنا بن کے رہا نہیں

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جسے اپنا ہم نے سمجھ لیا وہی اپنا بن کے رہا نہیں
اسے کیسے ہم بھی پکارتے کہ گلے سے نکلی صدا نہیں

اسے جیسے رنگ میں دیکھئے وہ فریب اپنی نظر کا ہے
ہے خیال اپنے دماغ کا، وہ بھلا نہیں وہ برا نہیں

غمِ دل سنائیں تو ہم کسے ؟ کوئی ہے نہیں جو یہ سب سنے
اسے کیا کہیں جو قریب تھا، اسے کیا کہیں جو رہا نہیں

اسے اس قدر بھی نہ سوچئے کہ ہر اک قصور اسی کا ہو
یہی ذہن میں ہی رہے کہ وہ ،تو خیال اس کے سوا نہیں

وہ پرانی بات نہیں رہی، یہاں بس دوا سے علاج ہے
وہ مریض کیا کہ مرض نہیں، وہ طبیب کیا کہ شفا نہیں

یہاں کچھ خوشی نہیں، غم نہیں، جسے کوئی پورا سمجھ سکے
یہاں عشق ہے تو نظر نہیں، یہاں حسن ہے تو ادا نہیں

یہاں اس سبب سے بھی درد ہے، یہاں جو بھی رنگ ہے، زر د ہے
یہاں جو بھی ہے سو وہ جھوٹ ہے، یہاں کچھ بھی صدق و صفا نہیں

یہاں لوگ نکلے جو پیار کو، تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا
سبھی ہاتھ خنجروں سے بھر گئے، کسی دل سے نکلی دعا نہیں


برائے توجہ ۔۔۔ جناب الف عین صاحب
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، میں ابھی آسی بھائی کے ٹیگ والی غزل میں پہنچ گیا۔ مجھے یہاں آنا تھا!!!ویسے میری ذاتی رائے۔
اس غزل میں مکمل خیال کی وضاحت نہیں ہو رہی ہے اکثر اشعار میں۔
یہاں لوگ نکلے جو پیار کو، تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا
سبھی ہاتھ خنجروں سے بھر گئے، کسی دل سے نکلی دعا نہیں
پہلے مصرع میں تو شاید ‘بھی‘ ا اضافہ ٹائپو ہو گا۔ لیکن دوسرے مصرع میں ’خنجروں‘ محض ’خجروں‘ یا ’خنروں‘ تقطیع ہو رہا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اوہو، میں ابھی آسی بھائی کے ٹیگ والی غزل میں پہنچ گیا۔ مجھے یہاں آنا تھا!!!ویسے میری ذاتی رائے۔
اس غزل میں مکمل خیال کی وضاحت نہیں ہو رہی ہے اکثر اشعار میں۔

پہلے مصرع میں تو شاید ‘بھی‘ ا اضافہ ٹائپو ہو گا۔ لیکن دوسرے مصرع میں ’خنجروں‘ محض ’خجروں‘ یا ’خنروں‘ تقطیع ہو رہا ہے۔
خنجر۔۔۔ واقعی پورا نہ آسکا ۔۔۔ یوں دیکھئے ۔۔۔
یہاں لوگ نکلے جو پیار کو، تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا
چلے کر کے باتیں بری بری، کسی دل سے نکلی دعا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ ٹائپو اب بھی چلی آئی ہے۔
عروض کے اعتبار سے درست ہو گیا ہے دوسرا مصرع لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے کچھ کسر رہ گئی ہے
 
Top