الف نظامی
لائبریرین
پچھلے تین دنوں سے مسلم لیگ ن کے حامی اور ہمدردایک منظم مہم کے تحت دو باتیں زور شور سے کہہ رہے ہیں۔ایک یہ کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ مبہم اور غیر واضح ہے ، دوسرا یہ کہ اس میں ایسا کچھ نہیں، جومسلم لیگ ن کے خلاف جائے۔ باقاعدہ لائن لے کر ہر جگہ یہ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا .... ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے۔ مقصد غالباً یہ ہے کہ اس کمیشن رپورٹ کی اس قدر بھد اڑائی جائے کہ اسے کوئی سنجیدہ بحث کا موضوع ہی نہ بنا سکے اور یوں ن لیگ کو پہنچنے والے سیاسی نقصان میں کچھ کمی ہوسکے۔
اس اخبارنویس نے ایک زمانے میں قانون کی ڈگری حاصل کی تھی، جس پر اب کچھ زیادہ فخر محسوس اس لئے نہیں ہوتا کہ پچھلے دو عشروں میں ان قانونی کتب کی دھندلی سی یاد ہی ذہن میں محفوظ ہے۔صحافت کی تیز اور بے ڈھنگی چال نے وہ سب بھلا دیا۔ اس بات کا مگر میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر جسٹس باقر نجفی کی ٹریبونل رپورٹ کو سمجھنے کے لئے قانون میں مہارت رکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ سب کچھ اتنا صاف اور واضح ہے کہ فکری دیانت رکھنے والا ہر شخص اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے گا۔ روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز نے رپورٹ کے ترجمے کا اہتمام کیا تھااور دو دن پہلے یعنی بدھ کی اشاعت میں ڈیڑھ صفحات پر یہ رپورٹ شائع کی گئی، دلچسپی رکھنے والے صاحبان نیٹ پر اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق پنجاب حکومت اور خاص طور سے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا ثنااللہ کے موقف کے پرخچے اڑا دیتی ہیں۔ درحقیقت یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نجفی ٹریبونل رپورٹ نے انہیں واضح الفاظ میں جھوٹا قرار دیا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے بارے میں پنجاب حکومت کا موقف تین چار نکات پر مشتمل تھا۔
آئیے اب جسٹس باقر نجفی ٹریبونل رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں کہ انہوں نے ان نکات کے حوالے سے کیا نتائج اخذ کئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ پنجاب حکومت نے(اپنے بلند بانگ دعووں کے برعکس) دانستہ طور پر اس ٹریبونل کو نہایت محدود مینڈیٹ دیا تاکہ وہ اصل ذمہ داروں کا تعین نہ کر سکے ۔
جسٹس علی باقر نجفی نے رپورٹ میں لکھا ہے:
” ٹریبونل کے کام کی شرائط درج ذیل ہیں۔ ان حقائق اور حالات کا پتہ لگانا اور انکوائری کرنا جو کہ ماڈل ٹاون میں منہاج القرآن اکیڈمی اور سیکریٹریٹ کے واقعہ کی وجہ بنے۔“
یہ نکتہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ یہ ٹریبونل صرف ان حقائق اور حالات کی طرف اشارہ کر سکتا تھا جن کی وجہ سے سانحہ ماڈل رونما ہوا۔ ٹریبونل یا فاضل جج صاحب اگر چاہتے ، تب بھی وہ اپنی رپورٹ میں باقاعدہ نام لے کر یہ نہیں لکھ سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص اس سانحے کا ذمہ دار ہے ۔
یہ اور بات کہ جناب جسٹس باقرنجی نے کمال جرات اور دلیری سے اس قدر محدود مینڈیٹ کے باوجود وہ تمام حقائق اکٹھے کر لئے ، جو حکومت چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ہمارا دعویٰ ہے کہ میٹرک کی سطح کے کسی شخص کے لئے بھی اس رپورٹ (اس کا ترجمہ) دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔ اگر ہائیکورٹ حکم نہ دیتی تو شائد وہ کبھی رپورٹ عام نہ کرتے۔
ٹریبونل نے پہلے نکتے کے حوالے سے مختلف مثالوں کے ساتھ یہ بتادیا کہ اس المناک واقعے کے حقائق چھپانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی ۔ پولیس افسروں اور اہلکاروں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ۔ رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:
”ٹریبونل اس امر سے بخوبی آگاہ تھا کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کی طرف سے دانستہ خفیہ رکھا جا رہا ہے یا خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ، جس پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس کو احکامات ملے ، خواہ کھلے عام میں یا خفیہ طور پر ، اسے بہرطور اپنا ہدف حاصل کرنا ہے ، اس کے لئے خواہ پاکستان کے غیرمسلح شہریوںکی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔چناچہ ٹریبونل یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پولیس کی جانب سے اس قانون شکنی کا مقصد صرف حقائق کو دفن کرنا ہے ، جس سے اس کی غنڈہ گردی کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہے۔“
آگے جا کر رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ٹریبونل کوتحقیق اور تفتیش کا حق ہوتا تو اصل راز زیادہ کھل کر سامنے آ جاتا۔
رپورٹ کے مطابق:
”ٹریبونل یہ کہنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ حکومت کا یہ عمل بھی بدنیتی کا مظہر ہے کہ اس نے پنجاب ٹریبونل آرڈی ننس 1959کے تحت اس ٹریبونل کو یہ اختیارنہیں دیا گیا کہ وہ اپنے سامنے آنے والے کسی معاملے کی تحقیق کر سکے، جسے یہ ٹریبونل حقائق جاننے کی کوشش میں ایک رکاوٹ سمجھتا ہے۔ تمام تر حقائق وحالات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت کی حقیقی نتائج تک پہنچنے کی کوئی نیت بھی نہیں ہے۔“
ایک اور جگہ لکھا ہے :
”17-6-14 اور صبح ساڑھے دس سے بارہ بجے تک کا وقت نہایت اہم ہیں، کیونکہ اس وقت آئی جی پنجاب نے پنجاب پولیس کی کمان نہیں سنبھالی تھی اور اس دوران ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے حلف لینا تھا۔ اگر اس ٹریبونل کو تفتیش کرنے کا بھی اختیار دیا جاتا تو وہ مزید چھپے ہوئے حقائق کو منظرعام پر لا سکتا تھا۔“
وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحے کے بعد دعویٰ کیا کہ وہ اس سے لاعلم تھے اور علم ہونے پر انہوں نے پولیس آپریشن روکنے کا حکم دیا تھا۔ ٹریبونل کو اپنی تحقیق میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ رپورٹ کے مطابق:
”تمام حقائق اور حالات کو ساتھ رکھ کر دیکھنے سے یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ کارروائی میں ملوث نہ ہونے کا آرڈر جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ وزیراعلیٰ کا موقف بعد میں سوچا گیا دفاعی موقف تھا جو (واقعے کے بعدہونے والی)پریس کانفرنس میں قوم کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ “
مسلم لیگ ن کے حامی ممکن ہے اس فائنڈنگ کو بھی کافی نہ سمجھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹربیونل نے میاں شہباز شریف کے دعوے کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔
پنجاب حکومت کے تیسرے دعوے کے حوالے سے ٹریبونل نے صاف لکھ دیاکہ:
”اس وقت کے وزیرقانون کی چیئرمین شپ میں دہشت انگیز ہلاکتوں پر منتج ہونے والے آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا ، جس سے باآسانی بچا جا سکتا تھا۔ “
آگے جا کر لکھا:
”خونی غسل کے واقعات اور واقعات سے واضح طور پر عیاں ہے کہ پولیس افسروں نے قتل عام میں فعال کردار ادا کیا۔“
ٹریبونل نے رپورٹ میں مزید کھل کر لکھا:
”موقعہ واردات پر موجود لوگوں پر پولیس نے جس طرح گولیاں چلائیں اور انہیں مارا پیٹا، اس سے ناقابل تردید طور پر عیاں ہوتا ہے کہ پولیس نے ٹھیک وہی کچھ کیا، جس کے لئے اسے وہاں بھیجا گیا تھا۔ پولیس اور تمام متعلقین نے کسی استثنا کے بغیر ، ہر خوف سے آزاد ہو کر شیطانی افعال انجام دئیے ۔ جن کے نتیجے میں ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ مذکورہ بالا حقائق اور حالات کو مد نظر رکھ کر یہ رپورٹ پڑھنے والا باآسانی منہاج القرآن والے افسوسناک واقعے کی ذمہ داری کا تعین کر سکتا ہے۔“
یہ ہے جسٹس علی باقر نجفی ٹریبونل رپورٹ۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری کن پر عائد ہونی چاہیے؟
افسوس تو یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون جیسے خونی واقعے کے تین سال بعد تک وہی صوبائی حکومت موجود ہے
وہی صوبائی وزیرمونچھوں کو تاو دیتا ہوامسندپر براجمان ہے
انہی پولیس افسروں کو نوازا گیا اور اس اہم ترین ٹریبونل رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے روکا گیا۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس لہو رنگ سانحہ کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے؟ حقیقی احتساب
اس اخبارنویس نے ایک زمانے میں قانون کی ڈگری حاصل کی تھی، جس پر اب کچھ زیادہ فخر محسوس اس لئے نہیں ہوتا کہ پچھلے دو عشروں میں ان قانونی کتب کی دھندلی سی یاد ہی ذہن میں محفوظ ہے۔صحافت کی تیز اور بے ڈھنگی چال نے وہ سب بھلا دیا۔ اس بات کا مگر میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر جسٹس باقر نجفی کی ٹریبونل رپورٹ کو سمجھنے کے لئے قانون میں مہارت رکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ سب کچھ اتنا صاف اور واضح ہے کہ فکری دیانت رکھنے والا ہر شخص اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے گا۔ روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز نے رپورٹ کے ترجمے کا اہتمام کیا تھااور دو دن پہلے یعنی بدھ کی اشاعت میں ڈیڑھ صفحات پر یہ رپورٹ شائع کی گئی، دلچسپی رکھنے والے صاحبان نیٹ پر اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق پنجاب حکومت اور خاص طور سے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا ثنااللہ کے موقف کے پرخچے اڑا دیتی ہیں۔ درحقیقت یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نجفی ٹریبونل رپورٹ نے انہیں واضح الفاظ میں جھوٹا قرار دیا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے بارے میں پنجاب حکومت کا موقف تین چار نکات پر مشتمل تھا۔
- اس واقعے میں حکومت کی بدنیتی شامل نہیں ، اسی لئے وزیراعلیٰ نے فوری طور پرایک جج پر مشتمل ٹریبونل تشکیل دیا ، تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
- وزیراعلیٰ نے آپریشن کا حکم صادر نہیں کیا تھا، انہیں ٹی وی کی خبروں سے اس کا پتہ چلا اور انہوں نے فوری طور پرپولیس آپریشن روکنے کے احکامات جاری کر دئیے تھے۔
- انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ان کا ارادہ صرف تجاوزات ہٹانا تھا، ان پرالمنہاج سیکرٹریٹ کے گارڈز نے فائرنگ کی اور بعض پولیس اہلکاروں نے انفرادی طور پر اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی ۔ کسی پولیس افسر نے پولیس کو فائرنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
آئیے اب جسٹس باقر نجفی ٹریبونل رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں کہ انہوں نے ان نکات کے حوالے سے کیا نتائج اخذ کئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ پنجاب حکومت نے(اپنے بلند بانگ دعووں کے برعکس) دانستہ طور پر اس ٹریبونل کو نہایت محدود مینڈیٹ دیا تاکہ وہ اصل ذمہ داروں کا تعین نہ کر سکے ۔
جسٹس علی باقر نجفی نے رپورٹ میں لکھا ہے:
” ٹریبونل کے کام کی شرائط درج ذیل ہیں۔ ان حقائق اور حالات کا پتہ لگانا اور انکوائری کرنا جو کہ ماڈل ٹاون میں منہاج القرآن اکیڈمی اور سیکریٹریٹ کے واقعہ کی وجہ بنے۔“
یہ نکتہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ یہ ٹریبونل صرف ان حقائق اور حالات کی طرف اشارہ کر سکتا تھا جن کی وجہ سے سانحہ ماڈل رونما ہوا۔ ٹریبونل یا فاضل جج صاحب اگر چاہتے ، تب بھی وہ اپنی رپورٹ میں باقاعدہ نام لے کر یہ نہیں لکھ سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص اس سانحے کا ذمہ دار ہے ۔
یہ اور بات کہ جناب جسٹس باقرنجی نے کمال جرات اور دلیری سے اس قدر محدود مینڈیٹ کے باوجود وہ تمام حقائق اکٹھے کر لئے ، جو حکومت چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ہمارا دعویٰ ہے کہ میٹرک کی سطح کے کسی شخص کے لئے بھی اس رپورٹ (اس کا ترجمہ) دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔ اگر ہائیکورٹ حکم نہ دیتی تو شائد وہ کبھی رپورٹ عام نہ کرتے۔
ٹریبونل نے پہلے نکتے کے حوالے سے مختلف مثالوں کے ساتھ یہ بتادیا کہ اس المناک واقعے کے حقائق چھپانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی ۔ پولیس افسروں اور اہلکاروں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ۔ رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:
”ٹریبونل اس امر سے بخوبی آگاہ تھا کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کی طرف سے دانستہ خفیہ رکھا جا رہا ہے یا خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ، جس پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس کو احکامات ملے ، خواہ کھلے عام میں یا خفیہ طور پر ، اسے بہرطور اپنا ہدف حاصل کرنا ہے ، اس کے لئے خواہ پاکستان کے غیرمسلح شہریوںکی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔چناچہ ٹریبونل یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پولیس کی جانب سے اس قانون شکنی کا مقصد صرف حقائق کو دفن کرنا ہے ، جس سے اس کی غنڈہ گردی کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہے۔“
آگے جا کر رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ٹریبونل کوتحقیق اور تفتیش کا حق ہوتا تو اصل راز زیادہ کھل کر سامنے آ جاتا۔
رپورٹ کے مطابق:
”ٹریبونل یہ کہنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ حکومت کا یہ عمل بھی بدنیتی کا مظہر ہے کہ اس نے پنجاب ٹریبونل آرڈی ننس 1959کے تحت اس ٹریبونل کو یہ اختیارنہیں دیا گیا کہ وہ اپنے سامنے آنے والے کسی معاملے کی تحقیق کر سکے، جسے یہ ٹریبونل حقائق جاننے کی کوشش میں ایک رکاوٹ سمجھتا ہے۔ تمام تر حقائق وحالات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت کی حقیقی نتائج تک پہنچنے کی کوئی نیت بھی نہیں ہے۔“
ایک اور جگہ لکھا ہے :
”17-6-14 اور صبح ساڑھے دس سے بارہ بجے تک کا وقت نہایت اہم ہیں، کیونکہ اس وقت آئی جی پنجاب نے پنجاب پولیس کی کمان نہیں سنبھالی تھی اور اس دوران ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے حلف لینا تھا۔ اگر اس ٹریبونل کو تفتیش کرنے کا بھی اختیار دیا جاتا تو وہ مزید چھپے ہوئے حقائق کو منظرعام پر لا سکتا تھا۔“
وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحے کے بعد دعویٰ کیا کہ وہ اس سے لاعلم تھے اور علم ہونے پر انہوں نے پولیس آپریشن روکنے کا حکم دیا تھا۔ ٹریبونل کو اپنی تحقیق میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ رپورٹ کے مطابق:
”تمام حقائق اور حالات کو ساتھ رکھ کر دیکھنے سے یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ کارروائی میں ملوث نہ ہونے کا آرڈر جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ وزیراعلیٰ کا موقف بعد میں سوچا گیا دفاعی موقف تھا جو (واقعے کے بعدہونے والی)پریس کانفرنس میں قوم کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ “
مسلم لیگ ن کے حامی ممکن ہے اس فائنڈنگ کو بھی کافی نہ سمجھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹربیونل نے میاں شہباز شریف کے دعوے کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔
پنجاب حکومت کے تیسرے دعوے کے حوالے سے ٹریبونل نے صاف لکھ دیاکہ:
”اس وقت کے وزیرقانون کی چیئرمین شپ میں دہشت انگیز ہلاکتوں پر منتج ہونے والے آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا ، جس سے باآسانی بچا جا سکتا تھا۔ “
آگے جا کر لکھا:
”خونی غسل کے واقعات اور واقعات سے واضح طور پر عیاں ہے کہ پولیس افسروں نے قتل عام میں فعال کردار ادا کیا۔“
ٹریبونل نے رپورٹ میں مزید کھل کر لکھا:
”موقعہ واردات پر موجود لوگوں پر پولیس نے جس طرح گولیاں چلائیں اور انہیں مارا پیٹا، اس سے ناقابل تردید طور پر عیاں ہوتا ہے کہ پولیس نے ٹھیک وہی کچھ کیا، جس کے لئے اسے وہاں بھیجا گیا تھا۔ پولیس اور تمام متعلقین نے کسی استثنا کے بغیر ، ہر خوف سے آزاد ہو کر شیطانی افعال انجام دئیے ۔ جن کے نتیجے میں ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ مذکورہ بالا حقائق اور حالات کو مد نظر رکھ کر یہ رپورٹ پڑھنے والا باآسانی منہاج القرآن والے افسوسناک واقعے کی ذمہ داری کا تعین کر سکتا ہے۔“
یہ ہے جسٹس علی باقر نجفی ٹریبونل رپورٹ۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری کن پر عائد ہونی چاہیے؟
افسوس تو یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون جیسے خونی واقعے کے تین سال بعد تک وہی صوبائی حکومت موجود ہے
وہی صوبائی وزیرمونچھوں کو تاو دیتا ہوامسندپر براجمان ہے
انہی پولیس افسروں کو نوازا گیا اور اس اہم ترین ٹریبونل رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے روکا گیا۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس لہو رنگ سانحہ کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے؟ حقیقی احتساب