جرنیلی سڑک۔۔۔۔۔۔کہاں اور کیوں؟

مضبوط چوڑے پتھروں کو جوڑکر تیار کردہ پختہ اور کشادہ ’جرنیلی سڑک‘ 558 برس گزرنے کے باوجود اب بھی بڑی شاندار دکھائی دیتی ہے۔ یہ سڑک بہترین منصوبہ ساز، بیدار مغز اور بہادر افغان سردار شیر شاہ سوری نے اپنے 5 سالہ دورِ حکومت میں بنوائی۔ 5 سال کے مختصر عرصے میں ان کے فلاحی کارناموں نے ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے روشن کردیا۔ شیر شاہ سوری نے اپنی سلطنت کے تمام گوشوں کو مربوط کرنے کے لیے تین بڑی شاہراہوں کا عظیم منصوبہ ترتیب دیا۔ ایک سڑک دارالحکومت دہلی سے راجپوتانہ کے مرکز تک، دوسری لاہور سے ملتان، تیسری بنگال سے پشاور تک بنوائی۔ آخر الذکر جرنیلی سڑک کے نام سے مشہور ہوئی۔ (موجودہ جی ٹی روڈ اسی جرنیلی سڑک کے نقشے پر بنایا گیا) ان سڑکوں پر جابجا سرائیں تھیں جن مےں مسلمانوں اور ہندوﺅں دونوں کے لیے الگ الگ مفت کھانے کا انتظام تھا۔ ہر سرائے کے ساتھ مسجد تھی، ایک دہانے والا کنواں تھا جس کی کشادہ سیڑھیوں سے مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے نیچے لے جایا جاسکتا تھا۔ سڑک کے دونوں کناروں پر سایہ دار اور پھل دار درخت کثرت سے لگائے گئے تھے۔ مسافروں کو تیز گرمی میں دھوپ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ جب جی چاہتا، سواری سے اتر کر پھل توڑکر کھاتے، اللہ کا شکر ادا کرتے اور حاکم وقت کو دعائیں دیتے۔ جگہ جگہ سڑک کے کنارے ڈاک کی چوکیاں تھیں۔ تیز رفتار گھوڑوں پر قاصد آتے اور ڈاک کے تھیلے منزل پر پہنچاتے۔ 5 برسوں میں ایسی تین سڑکیں بنوا دینا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر آج کے وہ معمار حیران ہیں جو جدید آلات اور بھرپور مطلوبہ وسائل کے باوجود اتنی کم مدت میں اس قدر وسیع و عریض تعمیراتی منصوبے کا ابتدائی خاکہ بھی مکمل نہیں کرسکتے۔ ان عوامی خدمات پر مبنی کارناموں کی وجہ سے شیر شاہ سوری کا نام تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
(حوالہ: تیرے نقشِ پا کی تلاش میں، مصنف: مولانا محمد اسماعیل ریحان)
 
Top