شفیق الرحمان جدید آزاد نظم

استادِ محترم جناب الف عین نے زمرۂ اصلاحِ سخن میں آزاد نظم کے حوالے سے ایک نکتہ بیان کیا تو بے ساختہ شفیق الرحمٰن کی کتاب شگوفے میں موجود افسانے ’’یونہی‘‘ کا ایک حصہ یاد آگیا ۔۔۔ جس کا مرکزی کردار گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے میڈیکل کی پڑھائی کے سلسلے میں پاگل خانے کا دورہ کرتا ہے، تو وہاں اس کی ملاقات ایک جدید شاعر سے ہوتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے :)
لکھتے ہیں

’’۔۔۔ ایک اور صاحب ملے، جو نہایت معقول دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نہ صرف ہمارا استقبال کیا بلکہ ایک شعر بھی پڑھا۔ پھر فرمائش کی کہ کوئی اچھا سا شعر انہیں سنایا جائے۔ ایک لڑکے نے یہ شعر پڑھا ؎

ترے کوچے اس بہانے، مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا!

کیا تو وہ مسکرا رہے تھے اور کیا یکلخت غمگین ہوگئے۔ بولے ’’یہ شاعری ہے؟ کیا اسے شاعری کہا جاتا ہے؟ افسوس ہے آپ لوگوں کی ذہنیت پر، اور ملک کی حالت پر۔ جو شاعری غدر کے زمانے تھی، وہی اب تک چلی آتی ہے۔ توبہ توبہ یہ ہم لوگ بھی کتنے قدامت پسند ہیں؟ آج کل نئے نئے ہتھیار آگئے ہیں، لیکن ہمارے ہاں وہی خنجر، نیمچہ اور کٹارا استعمال کرتے ہیں۔ نہ کہیں پستول کا ذکر ہے نہ رائفل کا۔ ایک سے ایک اچھا ساز رائج ہے ۔۔۔ وائلن، کلاریونٹ، گٹار، لیکن ہمارے شعروں سے بانسری اس بری طرح چمٹی ہے کہ اسے پنشن ہی نہیں ملتی!‘‘

ہم اس مدلل گفتگو پر حیران رہ گئے۔

’’تو کیا یہ شعر جو ابھی پڑھا گیا ہے، غلط تھا؟‘‘، کسی نے پوچھا۔

’’تعجب ہے کہ آپ لوگ اب بھی اسے شعر ہی سمجھ رہے ہیں، ذرا پھر پڑھیے‘‘

انہوں نے دوبارہ شعر سنایا۔
وہ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے ۔۔۔ ’’یہی خیال اگر اس طرح ظاہر کیا جاتا تو بہتر ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھندلی دھندلی شام کے لمحات میں
کام سے فرصت ہو جب
سائیکل لے کر کرائے کی، ترے کوچے کا رخ
سائیکل بے لیمپ اور ہر دم کرائے کا خیال!
عاشقی کی یہ روایاتِ قدیم
کہ ترے کوچے میں ہر رہگیر سے باتیں کروں
ہر جوان و پیر سے باتیں کروں
اور ٹریفک کے سپاہی کا بھی فکر
جانے کب سیٹی بجا کر آ پڑے
اور پوچھے سائیکل کا لیمپ ہے حضّت کہاں؟

آہ یہ مجبوریاں!
غیر کاروں میں پھریں
اور
ہم عشاق کو
سائیکل، وہ بھی کرائے کی ملے
ہائے رے ظالم سماج!
یاد آتا ہے ہمیں
دھندلی دھندلی شام کے لمحات میں
جانا کوچے میں ترے!
۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے کس قدر بہتر چیز ہو گئی ہے!‘‘ انہوں نے فاتحانہ انداز سے ہمیں دیکھا۔‘‘
:)
 
Top