جدید اشعار

جاسمن

لائبریرین
میں بھی اپنے آخری لیچکر میں افسردہ رہا..
ڈیسک پہ سر رکھ کر وہ بھی دیر تک روتی رہی..
 

جاسمن

لائبریرین
جو لغت کو توڑ مروڑ دے جو غزل کو نثر سے جوڑ دے
میں وہ بد مذاق سخن نہیں وہ جدیدیا کوئی اور ہے
خالد عرفان
 

جاسمن

لائبریرین
بھوک تخلیق کا ٹیلنٹ بڑھا دیتی ہے
پیٹ خالی ہو تو ہم شعر نیا کہتے ہیں
خالد عرفان
 

جاسمن

لائبریرین
دفتر میں ذہن گھر نگہ راستے میں پاؤں
جینے کی کاوشوں میں بدن ہاتھ سے گیا
غضنفر
 

جاسمن

لائبریرین
یہ ٹی سی ایس ہی کیا ہے کسی نے میرے لیئے
یہ پھول خواب سے بہہ کر ادھر نہیں آیا

فیضان ہاشمی
 

جاسمن

لائبریرین
نیند اک دوسری دنیا میں جگاتی ہے مجھے
ہر الارَم پہ میرا خواب بدل جاتا ہے

فیضان ہاشمی
 

جاسمن

لائبریرین
یاد ماضی میں کھوگئی ہو کیا
تم بھی مجھ جیسی ہوگئی ہو کیا
آج مس کال تک نہیں آئی
منتظر ہوں میں! سوگئی ہو کیا
نعیم فراز
 

سیما علی

لائبریرین
تم کو کیا یاد کبھی آتا ہے
شام کو چائے پیا کرتے تھے
تھا کبھی ذائقہ زندہ اپنا
ایک ایک گھونٹ جیا کرتے تھے
سلیم احمد
 

مومن فرحین

لائبریرین
ایک تاریخ مسلسل پہ تو ہر ماہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے
اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسی لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
 

جاسمن

لائبریرین
یہی تیرے غم کا کِتھارسس، یونہی چشمِ نم سے ٹپک کے پڑھ
یونہی رات رات غزل میں رو، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ

جو اکائی میں نہیں ذہن کی اسے سوچنے کا کمال کر
یہ شعور نامۂ خاک سن، یہ درود لوحِ فلک کے پڑھ

یہی رتجگوں کی امانتیں ہیں بیاضِ جاں میں رکھی ہوئی
جو لکھے نہیں ہیں نصیب میں وہ ملن پلک سے پلک کے پڑھ

مرے کینوس پہ شفق بھری نہ لکیریں کھینچ ملال کی
کوئی نظم قوسِ قزح کی لکھ کوئی رنگ ونگ دھنک کے پڑھ

ترے نرم سر کا خرام ہو مری روح کے کسی راگ میں
مجھے انگ انگ میں گنگنا، مرا لمس لمس لہک کے پڑھ

یہ بجھا دے بلب امید کے، یہ بہشتِ دیدِ سعید کے
ابھی آسمان کے بورڈ پر وہی زخم اپنی کسک کے پڑھ

او ڈرائیور مرے دیس کے او جہاں نما مری سمت کے
یہ پہنچ گئے ہیں کہاں پہ ہم، ذرا سنگ میل سڑک کے پڑھ

کوئی پرفیوم خرید لا، کوئی پہن گجرا کلائی میں
نئے موسموں کا مشاعرہ کسی مشکبو میں مہک کے پڑھ

ہے کتابِ جاں کا ربن کھلا کسی واڈکا بھری شام میں
یہی افتتاحیہ رات ہے ذرا لڑکھڑا کے، بہک کے پڑھ

یہ ہے ایک رات کا ناولٹ، یہ ہے ایک شام کی سرگزشت
یہ فسانہ تیرے کرم کا ہے، اسے اتنا بھی نہ اٹک کے پڑھ

کئی فاختاؤں کی ہڈیاں تُو گلے میں اپنے پہن کے جا
وہ جو عہد نامۂ امن تھا اسے بزم شب میں کھنک کے پڑھ

منصور آفاق
 

جاسمن

لائبریرین
طلب بھی پاتی ہے ترتیب ٹیلی ویژ ن سے
جہاں کو دیکھ کے ہم بھی جدید ہوتے ہیں
منصور آفاق
 
Top