جدّت یا رجعت ؟ از قلم شیخ محمد بن راشد المکتوم

نکتہ ور

محفلین
اس مضمون میں گرچہ حکومتوں اور کمپنیوں پر بات کی گئی ہے لیکن ترقی کے متلاشی انفرادی طور بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

جدّت یا رجعت ؟
جدت پسند حکومتیں ٹیلنٹ کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں،مؤثر انداز میں کام کرتی ہیں اور اپنے نظاموں اور خدمات کو بہتر بنانے کا عمل مسلسل جاری رکھتی ہیں۔وہ اپنے شہریوں کو اس انداز میں بااختیار بناتی ہیں کہ وہ اپنی اجتماعی توانائیوں کو بروئے کار لائیں۔

کمپنیاں بھی لوگوں کی طرح بوڑھی ہوجاتی ہیں۔وہ چھوٹے پیمانے پر اپنی زندگی شروع کرتی ہیں،اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتی ہیں،نوجوانوں کی توانائی اور نئے نئے آئیڈیاز سے انھیں جِلا ملتی ہے۔وہ مقابلہ کرتی ہیں،ان میں توسیع ہوتی ہے،وہ ترقی کے جوبن پر ہوتی ہیں۔ان میں سے چند ایک استثناء کے ساتھ زیادہ تر روبہ زوال ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔یہی بات حکومتوں پر بھی صادق آتی ہے۔وہ بھی نوجوانوں کی امیدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ خود ہی مطمئن ہوں۔

اس بات کو مدنظر رکھیں تو سنہ 1955ء میں معرض وجود میں آنے والی 500 کمپنیوں میں سے اس وقت صرف گیارہ موجود ہیں جبکہ ان کمپنیوں کے دنیا کی بہترین 500 کمپنیوں میں شمار رہنے کے عرصے کی مدت 75 سال سے کم ہوکر 15 سال رہ گئی ہے۔تیز رفتار تبدیلی کے اس دور میں جو کمپنیاں پیچھے رہ جاتی ہیں،وہ بالکل غیر متعلق ہوجاتی ہیں۔جن ممالک کی حکومتیں بوڑھی ہوجاتی ہیں،انھیں بھی ان ازکار رفتہ کمپنیوں ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ان کے لیے انتخاب بالکل سادہ ہے:جدت پسند بنیں یا غیرمتعلق بن جائیں۔

قومی مسابقت کی دوڑ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مارکیٹ میں کمپنیوں کے درمیان اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے دوڑ ہوتی ہے۔گلوبل دنیا میں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری ،ٹیلنٹ ،ترقی اور مواقع کے لیے مقابلہ ہوتا ہے جو ممالک اس دوڑ میں آگے بڑھتے ہیں،ان کا سب سے بڑا انعام انسانی ترقی ،خوش حالی اور اپنے لوگوں کی خوشیاں ہیں۔

کمپنیوں کی طرح زوال کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے حکومتوں کو حقیقی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ وہ ان گیارہ کمپنیوں کی طرح کیسے بن سکتی ہیں جو گذشتہ عشروں کے دوران اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں اور ان کا شمار اب بھی بہتر پانچ سو کمپنیوں میں ہورہا ہے۔کمپنیوں کی زندگی سے حکومتوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور انھیں یہ علم ہونا چاہیے کہ توانا اور جوان رہنے کا راز مسلسل ایجادات ،مواقع سے فائدہ اٹھانا اور فعال انداز میں کام کرنے میں مضمر ہے۔کاروباری کمپنیاں اسی انداز میں کام کرتی ہیں۔وہ آج کی دنیا کو اپنے ساتھ چلا رہی ہیں اور مستقبل کی بھی بُنت کاری کررہی ہیں۔

کارپوریشنوں کے احیاء ،تہذیبوں کے ارتقاء اور انسانی ترقی کا راز بہت سادہ سا ہے اور وہ ہے جدت پسندی۔مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے جب حکومتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ انھیں حکمرانی کے لیے استثناء حاصل ہے اور انھیں جدت پسندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔حکومت میں ایجادکاری کوئی دانشورانہ تعیّش نہیں ہے۔یہ ایسا موضوع بھی نہیں ہے کہ اس کو سیمی نارز اور پینل گفتگوؤں تک محدود کردیا جائے یا یہ صرف انتظامی اصلاحات کا معاملہ ہے بلکہ یہ انسانی بقاء اور ترقی کا فارمولا ،مسلسل ترقی کے لیے ایندھن اور ایک قوم کی ترقی کا خاکہ ہے۔

حکومت میں کاروبار کی طرح ایجاد کی پہلی کلید مہارتوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔کمپنیاں مارکیٹ کی مانگ کے مطابق اپنے ملازمین کو جدید مہارتوں سے روشناس کرانے کے لیے مسلسل سرمایہ کاری کرتی رہتی ہیں۔حکومتوں کو بھی بالکل ایسے ہی کرنا چاہیے۔انھیں معیشت کے اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بہتر بناتے رہنا چاہیے،ایجادات پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور خاص طور پر اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔جو حکومتیں اپنی نئی نسلوں کو قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں ،وہ دراصل انھیں جدت پسند قوموں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔

امریکا کے محکمہ لیبر کے ایک مطالعے کے مطابق اس وقت پرائمری اسکولوں میں زیرتعلیم 65 فی صد بچے بڑھے ہوکر ایسی ملازمتیں اختیار کریں گے جو آج کوئی وجود نہیں رکھتی ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک اور مطالعے کے مطابق 47 فی صد ملازمتیں اس وقت شدید خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی کی بدولت وہ کام مشینوں کے ذریعے کیے جاسکیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں اور مستقبل میں آنے والی نسلوں کے لیے کیا تیاری کررہے ہیں؟ہم اپنے ممالک کو نہ صرف آج بلکہ آنے والےعشروں کے لیے کیسے آراستہ کرسکتے ہیں؟اس کا جواب ایجاد اور جدت پسندی میں پنہاں ہے۔ہمیں اپنے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا چاہیے۔ انھیں تجزیے اور ابلاغ کی ایسی مہارتوں سے بہرہ ور کرنے کی ضرورت ہے جو پیداواریت پر منتج ہوں۔

حکومتوں کو ایجادکاری کے انجن میں تبدیل کرنے کے لیے دوسری کلید نجی شعبے کی طرح سیال اثاثوں کی جانب سرمایہ کاری کا رُخ موڑنا اور اس میں توازن قائم کرنا ہے۔چالیس سال قبل 500 بڑی کمپنیوں کی 80 فی صد قدر ٹھوس اثاثوں پر مشتمل تھی لیکن آج یہ تناسب تبدیل ہوچکا ہے اور بڑی کمپنیوں کی 80 فی صد سے زیادہ قدر سیّال اثاثوں پر مشتمل ہے۔ان کمپنیوں کے ملازمین کا علم،مہارتیں اور انٹیلکچوئل پراپرٹی کا عکاس اور مظہر ان کی مصنوعات ہیں۔

حکومتوں کو بھی ٹھوس انفرااسٹرکچر جیسے سڑکوں اور عمارتوں پر سرمایہ کاری اور تعلیم ،تحقیق اور ترقی ایسے سیّال شعبوں میں سرمایہ کاری میں دوبارہ توازن قائم کرنا چاہیے۔

ملازمین کو بااختیار بنانا
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکا اور یورپ مشترکہ طور پر قومی خزانے سے سالانہ ڈھائی سو ارب ڈالرز تحقیق وترقی پر صرف کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی نمایاں پوزیشن برقرار رکھ سکیں۔اسی طرح سنگاپور ،ملائشیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کی تیز رفتار ترقی کی بنیادی کنجی ان کی جانب سے قومی خزانے سے اخراجات کا رُخ ٹھوس انفرااسٹرکچر سے ''نرم''انفرااسٹرکچر کی جانب موڑنے کا فیصلہ تھا۔یوں انھوں نے علم کی بنیاد پر اپنی معیشت استوار کی ہے۔برطانوی حکومت اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ ٹھوس اثاثوں کے بجائے سّیال اثاثوں پر خرچ کرنے کے لیے مختص کرتی ہے۔

آج کی زیادہ تر کامیاب کمپنیاں اپنے ہاں جدّت پسندی پر مبنی کارپوریٹ کلچر اور کام کے ماحول کے لیے معروف ہیں جس کے ذریعے ان کے ملازمین کو بااختیار بنایا گیا ہے۔جو حکومتیں ایجاد کاری کے کلچر کو پروان چڑھاتی ہیں،وہ ملک بھر میں تخلیقی کلچر کا بھی بیج بوتی ہیں۔جب اس طرح کا کلچر جڑیں پکڑتا ہے،تو اس سے لوگ اپنے آئیڈیاز کے ساتھ آگے بڑھتے ،ان کی امنگیں بلند ہوتی ہیں اور وہ اپنے بڑے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔اسی طرح جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے والے ممالک قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔

جدت پسندی کی پائیداری کے لیے کاروباروں کو زیادہ تخلیقی اور پیداواری ذہنوں کو اپنی جانب راغب کرنا اور اس عمل کو برقرار رکھنا چاہیے۔گلوبل موبیلٹی (آزادانہ نقل مکانی) کے اس دور میں ممالک کو بھی ٹیلنٹ کے لیے شانہ بشانہ آگے بڑھنا چاہیے۔عالمی شہروں کے درمیان ایک آئیڈل زندگی ،جدت پسندوں کو کام کا ماحول مہیا کرنے اور ان کی تخلیقی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مسابقت کی دوڑ چل رہی ہے تاکہ وہ زیادہ مضبوط بن سکیں۔

جدّت پسند حکومتیں یہی کچھ قومی سطح پر کرتی ہیں۔وہ ٹیلنٹ کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں،موثر طریقے سے کام کرتی ہیں اور اپنے نظاموں اور خدمات کو مسلسل اپ گریڈ کرتی رہتی ہیں۔وہ شہریوں کو اس انداز میں بااختیار بناتی ہیں کہ وہ اپنی اجتماعی توانائیوں کو بروئے کار لائیں ،اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں اور اس طرح اپنے ممالک کی ترقی اور دنیا کے منظرنامے میں آگے بڑھیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ انسانی ذہن کی قدر کرتی ہیں اور لوگوں کی اس طرح مدد کرتی ہیں کہ وہ ہمارے کرّۂ ارض کے بہتر نگہبان اور تعمیر کنندہ بن سکیں۔

حکومتوں کے لیے جدت پسندی ایک وجودی سوال ہے۔جو جدّت کو برقرار رکھ سکتی ہیں،وہی دنیا میں تبدیلی لا سکتی ہیں کیونکہ ایسی حکومتیں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی ہیں۔

(جناب شیخ محمد بن راشد المکتوم متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم اور دبئی کے حکمران ہیں)
 

x boy

محفلین
زبردست بات لکھی ہے
عرب لوگ اگر کسی بات کی ٹھان لیتے ہیں تو اس کے انجام پر ہی سانس لیتے ہیں
الحمدللہ،،،
پاکستان کی زمینوں میں قدرتی وسائل عرب کی زمینوں سے زیادہ ہے لیکن لوگ بوڑھے ہوگئے ہیں

اس لڑی میں عرب مخالف لوگوں کو ٹیگ کریں۔۔
خاص طور پر ان لوگوں کو جو یہاں کا مال کھاتے ہیں اور گالیاں بھی ان ہی لوگوں کے
لئے نکالتے ہیں
 

نکتہ ور

محفلین
زبردست بات لکھی ہے
عرب لوگ اگر کسی بات کی ٹھان لیتے ہیں تو اس کے انجام پر ہی سانس لیتے ہیں
الحمدللہ،،،
پاکستان کی زمینوں میں قدرتی وسائل عرب کی زمینوں سے زیادہ ہے لیکن لوگ بوڑھے ہوگئے ہیں

اس لڑی میں عرب مخالف لوگوں کو ٹیگ کریں۔۔
خاص طور پر ان لوگوں کو جو یہاں کا مال کھاتے ہیں اور گالیاں بھی ان ہی لوگوں کے
لئے نکالتے ہیں
اس کالم میں کسی قوم پر سیاست نہیں چمکائی گئی۔ جس بات کو زیربحث لایا گیا ہے براہ کرم اسی پر توجہ دی جیے:)
 
Top