جتایا شوق میں دنیا سے اپنا پن کیسا

جتایا شوق میں دنیا سے اپنا پن کیسا
رہا ہمیش اِسی دہر میں مگن کیسا


ہزار روپ ترے کس کا ذکر ہم چھیڑیں
بدلنا بھیس ترا تھا کمال فن کیسا


ترے تھے جو وہی تیری یہ شان کہنے لگے
بنا تھا نیک مگر نکلا بد چلن کیسا


وہ دن خمار کے وہ لطف و کیف کی راتیں
اُجڑ گیا ہے ترا 'وہ' ہرا چمن کیسا


کہا تھا تُجھ سے نہ قیمت لگایا کر اپنی
بِکا ہے خاک کے بھائو ترا بدن کیسا


سفید ہو گیا آخر ترا سیاہ بدن
لباس پیارا لگے تُجھ پہ یہ کفن کیسا


رضا وہ کیا ہوئی تیری کمائی دنیا کی
"جہاں نے لوٹ لیا تیرا سارا دھن, کیسا"
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے رضا صاحب۔

مطلع میں 'ہمیش' لکھنے کی کوئی خاص وجہ تھی کیا؟ ہمیشہ میں بھی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا؟
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل تو ہے لیکن لہجہ کچھ اکھڑا اکھڑا سا ہے یا شاید مجھے ہی لگا۔ روانی کی کمی لگی مجھے۔
 
اچھی غزل ہے رضا صاحب۔

مطلع میں 'ہمیش' لکھنے کی کوئی خاص وجہ تھی کیا؟ ہمیشہ میں بھی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا؟

روانی میں تھوڑآ‌ فرق پڑنے کا خیال گزرا اس لئیے میں نے ہمیشہ کی 'ہ' گرا دی۔

رہنمائی اور تعریف کا شکریہ وارث‌ صاحب۔
 
Top