جب 1 روپیہ 100 ڈالر کے برابر تھا

جب 1 روپیہ 100 ڈالر کے برابر تھا -سید عاصم محمود
495x278x8605_25878747.jpg.pagespeed.ic.VPXAjY30Qm.jpg

سید عاصم محمود
ان دلچسپ و ڈرامائی تاریخی واقعات کا بیان جو مغربی معیشت کو بالادست بنا گئے *********چند ہفتے قبل جب ایک ڈالر کی قیمت سو روپے سے کم ہوئی،تو حکومت ِ وقت خوشی سے جھوم اٹھی۔ پاکستانی کرنسی کی قدر بڑھانے کو اپنا زبردست کارنامہ قرار دیا گیا۔ یہ عالم ِمسّرت دیکھ کرمحض چار سو برس قبل کا مسلم ہندوستان یاد آ گیا۔تب ہمارا’’ 1 روپیہ‘‘(تنکا)’’50 برطانوی پونڈ‘‘ کے برابر تھا۔ گویا اس وقت صرف ایک روپیہ ’’سو امریکی ڈالروں‘‘ سے زیادہ قدروقیمت رکھتا ۔تب مغلیہ سلطنت دنیا کی سپر پاورز میں شامل تھی۔مستقبل کی سپرپاور،برطانیہ کا سفیرمسلم حکمرانوںکی منتیںکرتا پھرتا تھا کہ انھیں ہندوستان کا تجارتی ویزہ دے دیا جائے۔اور آج…انقلابات ہیں زمانے کے!سوال یہ ہے کہ ہمارا روپیہ زوال پذیر کیوں ہوا؟جواب کی بنیادیں ہماری معاشی تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔دراصل زمانہ قدیم سے ہندوستان عالمی تجارت و کاروبار کا اہم حصّہ رہا ہے۔اس تجارت کا آغاز تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے ہوا۔تب چین و ہندوستان اور مشرقی ایشیا سے بحری و ارضی راستوں کے ذریعے کپڑا،مسالے،خوشبویات،قیمتی پتھر، لوہا، اناج وغیرہ یورپ جانے لگا۔ دور قدیم کا پہلا مشہور تجارتی راستہ ’’بخور راستہ‘‘ (Incense Route)کہلایا۔اس راستے کی تجارت ہندوستانی اور عرب تاجروں کے ہاتھوں ہی میں تھی۔ہندوستانی تاجر اپنے ملک اورچین و مشرقی ایشیا کامال اپنی بندرگاہوں تک لاتے۔ان میں کیرالہ کی بندرگاہیں،بھڑوچ(ہندوستانی گجرات)اور بھنبھور(سندھ)کو نمایاں مقام حاصل تھا۔یونانی و رومی بھنبھور کو ’’باربریکم‘‘ (Barbaricum)کہتے تھے۔خیال ہے کہ محمد بن قاسم جس سندھی بندرگاہ (دیبل) پہ اترے،وہ بھی بھنبھور ہی تھی۔ ہندوستانی بندرگاہوں سے عموماً عرب سوداگر سامان ِتجارت بذریعہ بحری جہاز مشرق وسطی لے جاتے۔جب ایک اور مشہور تجارتی راستے ’’شاہراہ ریشم‘‘نے جنم لیا،تو عربستان جانے والے تین سمندری راستے وجود میں آئے۔اول وہ یمن کی بندرگاہوں قانا(Cana)اور عدن پہنچتے اور وہاں مال اتارتے۔اُدھر سے اندرون عرب کے تاجر اونٹوں پہ سامان لادتے اور نجران،مدینہ منورہ،خیبر اور بطرا کے راستے بحیرہ روم پہ واقع بندرگاہوں تک پہنچاتے تاکہ وہ آگے یورپ تک جا سکے۔مکہ مکرمہ کے قریش اسی تجارت سے وابستہ تھے۔اور نبی کریمﷺ نے بھی نوجوانی میں اسے اختیار فرمایا۔ دوم بعض تاجر خلیج فارس سے ہوتے ابلہ جا پہنچتے جو تب اپولوگس (Apologus)کہلاتا تھا۔یہ بصرہ کے نزدیک دریائے فرات پر واقع ایک بندرگاہ ہے۔وہاں سے ایشیائی مال دمشق،حلب وغیرہ سے ہوتے بحیرہ یورپ کی بندرگاہ، صور(Tyre)جا پہنچتا۔سوم راستہ یہ تھا کہ تاجر بحیرہ احمر سے ہوتے سیدھامصر پہنچتے۔آج جس مقام پہ نہر سوئز واقع ہے،وہ اس پہ سفر کرتے اور بحیرہ روم پہنچ جاتے۔ بخور راستے کے مانند شاہراہ ریشم بھی مختلف ارضی و بحری راہوں پہ مشتمل تھی۔اس کا آغاز چینی شہروں سے ہوتا۔کاشغر شہر سے اس کی دو شاخیں پھوٹتیں۔ایک وسطی ایشیا سے ہوتا ایران و عراق کی طرف نکل جاتا۔دوسرا ہندوستان کا رخ کرتا۔سوداگر کاشغر سے نکلتے تو عموماً دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے بھنبھور آ پہنچتے۔ٹیکسلا اور بو کفالوس(پھالیہ)زمانہ قدیم میں اس ارضی راہ کے اہم مقام تھے۔(بوکفالوس اسکندر اعظم کے چہیتے گھوڑے کا نام تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ پھالیہ، گجرات یا بھیرہ میں وہ مر گیا۔اسی کے یاد میں پھر یونانی سپہ سالار نے بوکفالوس نامی شہر بسایا)درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہندوستان عالمی تجارت و کاروبار کا بڑا مرکز تھا۔چناں چہ ملک میں ہزارہا لوگ صنعت و تجارت سے منسلک تھے۔ہندوستان میں عام طور پہ خوشحالی تھی۔جنگ و جدل کے باوجود لوگ بڑھ چڑھ کر ملکی ترقی میں حصہ لیتے۔چاندی و طلائی ہندوستانی سّکوں کی دنیا بھر میں قدر تھی۔اس ترقی کو پہلا نقصان اس وقت پہنچا جب ہندوستان عالمی تجارتی راستوں کا حصہ نہ رہا۔ 1260ء کی بات ہے،جب ایک یورپی سوداگر نے ایشیائی تاجروں کی سپرمیسی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔مافیو پولو (1230ء۔1309ء ) وینس (اٹلی)کا رہائشی تھا۔نوجوانی میں وہ اپنے بھائی،نکولو کے ساتھ استنبول آ کر قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے لگا۔ ایک دن اسے خیال آیا،کیوں نہ خود ایشیا جا کر سامانِ تجارت خریدا جائے۔اس طریق کار کا فائدہ یہ تھا کہ اسے پھر درمیان میں آنے والے بیوپاریوں کا کمیشن نہ دینا پڑتا اور یوں زیادہ منافع ہوتا۔یہ سوچ یقیناً ایک نئے معاشی نظام کی بنیاد تھی…یہ کہ یورپی سوداگر ایشیائی صنعت کاروں،پیدا کاروں یا ہول سیل ڈیلروں سے براہ راست مصنوعات خریدیں اور یوں راہ میں آنے والے ممالک کو ’’بائی پاس‘‘کر ڈالیں۔ سو اپنی سوچ پہ عمل کرتے ہوئے دونوں بھائیوں نے سب سے پہلے چین جانے کا فیصلہ کیا۔پہلا سفر (1261ء۔1270ء)زیادہ کامیاب نہ رہا۔مگر دوسرے سفر (1271ء۔ 1295ء)نے انھیں اتنا امیر کبیر بنا ڈالا کہ انھیں پھر تجارت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس سفر میں نکولو کا نوجوان بیٹا،مارکو پولو بھی ہمراہ تھا۔بعد ازاں مارکو نے ایک سفرنامہ لکھا اور اپنے اسفار کو یادگار بنا دیا۔ مافیو پولو (Maffeo Polo)کے سفر بہت کٹھن اور دشوار گذار تھے،تاہم انھوں نے یورپی تاجروں سے لے کر حکومتوں تک کو یہ راہ ضرو ر دکھا دی کہ وہ اگر خود پیداکاروں سے رابطہ کریں ،تو انھیں سستا مال میسر آئے گا۔بعد ازاں بدلتے سیاسی و مذہبی حالات نے بھی انھیں اسی سمت مائل کر دیا۔ ہوا یہ کہ 1453ء میں مسلمانوں نے استنبول فتح کر لیا۔سو عالمی تجارت کا بنیادی راستہ ان کے قبضے میں آ گیا۔اب یورپی طاقتیں شد و مد سے ایشیائی مصنوعات کی رسائی کے نئے بحری راستے تلاش کرنے لگیں۔اس دوران اسپین میں مسلمان شکست کھا گئے۔چناں چہ یورپی طاقتیں مذہبی جوش و جذبے سے بھی عالم اسلام کی عالمی حکمرانی ختم کرنے کے درپے ہو گئیں۔ یورپی مہم جوئوں کی کھوج نے پھر دنیا ہی تلپٹ کر ڈالی۔ یورپی طاقتوں نے انڈونیشیا سے لے کر ارجنٹائن اور امریکا تک پہنچے والے بحری راستے ہی تلاش نہیں کیے بلکہ بہت سے غیر مسلم و کمزور اسلامی ملکوں کو اپنا غلام بھی بنا لیا۔انہی ممالک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر یورپ دولتمند و خوشحال ہونا شروع ہوا۔زائد سرمائے نے خصوصاً وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو زبردست ترقی دی۔ٹیکنالوجی کے بطن سے جدید اسلحے نے جنم لیا اور یوں یورپی طاقتوں کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اسلامی سپرپاورز (خصوصاً ترک عثمانی و مغلیہ سلطنتوں )کو ختم کر سکیں۔ سو سولہویں صدی میں جیسے ہی نئے بحری راستے دریافت ہوئے،ہندوستان کی معیشت میں ضعف آنے لگا۔اسی دوران ملک خانہ جنگیوں کا بھی نشانہ بن گیا۔ہندوستانی اسلامی روپے کی قدر پہ کاری وار انگریزوں نے کیا۔ اٹھارہویں صدی میں جیسے ہی برطانوی ہندوستان پہ قابض ہوئے،ہندوستانی روپے کی قدر گھٹنے لگی۔1900ء میں’’ پندرہ روپے‘‘ ایک برطانوی پونڈ کے برابر تھے۔آج ان کی شرح تبادلہ’’ 163پاکستانی روپے‘‘ پہ پہنچ چکی۔ غرض سولہویںسے اٹھارہویں صدی کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک جغرافیائی یا معاشی طور پہ یورپ کے زیردست آ گئے۔بدقستی سے مسلمانوں نے سائنسی و علمی میدان میں مقابلہ نہیں کیا بلکہ نقلچی بننے کو ترجیع دی۔ان کے تخلیقی سوتے خشک ہوئے،تو ان میں اخلاقی برائیاں بھی در آئیں۔اُدھر یورپی نہ صرف مادی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ترقی کر گئے۔سو ان میں میں کئی اخلاقی خامیاں مثلاً جھوٹ،بے ایمانی،فرائض سے غفلت،بد انتظامی وغیرہ کم ملتی ہیں۔ قران پاک میں امرِ ربّی آیا ہے کہ علم رکھنے والا اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔سو جب تک مسلمان سائنسی،تکنیکی،تہذیبی اور ثقافتی طور پہ مغرب کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے نہیں اتارتے،مغربی طاقتیں خصوصاً معاشی میدان میں ان پہ حکمرانی کرتی رہیں گی۔ ٭…٭…٭
 

arifkarim

معطل
جب 1 روپیہ 100 ڈالر کے برابر تھا -سید عاصم محمود
495x278x8605_25878747.jpg.pagespeed.ic.VPXAjY30Qm.jpg

سید عاصم محمود
ان دلچسپ و ڈرامائی تاریخی واقعات کا بیان جو مغربی معیشت کو بالادست بنا گئے *********چند ہفتے قبل جب ایک ڈالر کی قیمت سو روپے سے کم ہوئی،تو حکومت ِ وقت خوشی سے جھوم اٹھی۔ پاکستانی کرنسی کی قدر بڑھانے کو اپنا زبردست کارنامہ قرار دیا گیا۔ یہ عالم ِمسّرت دیکھ کرمحض چار سو برس قبل کا مسلم ہندوستان یاد آ گیا۔تب ہمارا’’ 1 روپیہ‘‘(تنکا)’’50 برطانوی پونڈ‘‘ کے برابر تھا۔ گویا اس وقت صرف ایک روپیہ ’’سو امریکی ڈالروں‘‘ سے زیادہ قدروقیمت رکھتا ۔تب مغلیہ سلطنت دنیا کی سپر پاورز میں شامل تھی۔مستقبل کی سپرپاور،برطانیہ کا سفیرمسلم حکمرانوںکی منتیںکرتا پھرتا تھا کہ انھیں ہندوستان کا تجارتی ویزہ دے دیا جائے۔اور آج…انقلابات ہیں زمانے کے!سوال یہ ہے کہ ہمارا روپیہ زوال پذیر کیوں ہوا؟جواب کی بنیادیں ہماری معاشی تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔دراصل زمانہ قدیم سے ہندوستان عالمی تجارت و کاروبار کا اہم حصّہ رہا ہے۔اس تجارت کا آغاز تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے ہوا۔تب چین و ہندوستان اور مشرقی ایشیا سے بحری و ارضی راستوں کے ذریعے کپڑا،مسالے،خوشبویات،قیمتی پتھر، لوہا، اناج وغیرہ یورپ جانے لگا۔ دور قدیم کا پہلا مشہور تجارتی راستہ ’’بخور راستہ‘‘ (Incense Route)کہلایا۔اس راستے کی تجارت ہندوستانی اور عرب تاجروں کے ہاتھوں ہی میں تھی۔ہندوستانی تاجر اپنے ملک اورچین و مشرقی ایشیا کامال اپنی بندرگاہوں تک لاتے۔ان میں کیرالہ کی بندرگاہیں،بھڑوچ(ہندوستانی گجرات)اور بھنبھور(سندھ)کو نمایاں مقام حاصل تھا۔یونانی و رومی بھنبھور کو ’’باربریکم‘‘ (Barbaricum)کہتے تھے۔خیال ہے کہ محمد بن قاسم جس سندھی بندرگاہ (دیبل) پہ اترے،وہ بھی بھنبھور ہی تھی۔ ہندوستانی بندرگاہوں سے عموماً عرب سوداگر سامان ِتجارت بذریعہ بحری جہاز مشرق وسطی لے جاتے۔جب ایک اور مشہور تجارتی راستے ’’شاہراہ ریشم‘‘نے جنم لیا،تو عربستان جانے والے تین سمندری راستے وجود میں آئے۔اول وہ یمن کی بندرگاہوں قانا(Cana)اور عدن پہنچتے اور وہاں مال اتارتے۔اُدھر سے اندرون عرب کے تاجر اونٹوں پہ سامان لادتے اور نجران،مدینہ منورہ،خیبر اور بطرا کے راستے بحیرہ روم پہ واقع بندرگاہوں تک پہنچاتے تاکہ وہ آگے یورپ تک جا سکے۔مکہ مکرمہ کے قریش اسی تجارت سے وابستہ تھے۔اور نبی کریمﷺ نے بھی نوجوانی میں اسے اختیار فرمایا۔ دوم بعض تاجر خلیج فارس سے ہوتے ابلہ جا پہنچتے جو تب اپولوگس (Apologus)کہلاتا تھا۔یہ بصرہ کے نزدیک دریائے فرات پر واقع ایک بندرگاہ ہے۔وہاں سے ایشیائی مال دمشق،حلب وغیرہ سے ہوتے بحیرہ یورپ کی بندرگاہ، صور(Tyre)جا پہنچتا۔سوم راستہ یہ تھا کہ تاجر بحیرہ احمر سے ہوتے سیدھامصر پہنچتے۔آج جس مقام پہ نہر سوئز واقع ہے،وہ اس پہ سفر کرتے اور بحیرہ روم پہنچ جاتے۔ بخور راستے کے مانند شاہراہ ریشم بھی مختلف ارضی و بحری راہوں پہ مشتمل تھی۔اس کا آغاز چینی شہروں سے ہوتا۔کاشغر شہر سے اس کی دو شاخیں پھوٹتیں۔ایک وسطی ایشیا سے ہوتا ایران و عراق کی طرف نکل جاتا۔دوسرا ہندوستان کا رخ کرتا۔سوداگر کاشغر سے نکلتے تو عموماً دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے بھنبھور آ پہنچتے۔ٹیکسلا اور بو کفالوس(پھالیہ)زمانہ قدیم میں اس ارضی راہ کے اہم مقام تھے۔(بوکفالوس اسکندر اعظم کے چہیتے گھوڑے کا نام تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ پھالیہ، گجرات یا بھیرہ میں وہ مر گیا۔اسی کے یاد میں پھر یونانی سپہ سالار نے بوکفالوس نامی شہر بسایا)درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہندوستان عالمی تجارت و کاروبار کا بڑا مرکز تھا۔چناں چہ ملک میں ہزارہا لوگ صنعت و تجارت سے منسلک تھے۔ہندوستان میں عام طور پہ خوشحالی تھی۔جنگ و جدل کے باوجود لوگ بڑھ چڑھ کر ملکی ترقی میں حصہ لیتے۔چاندی و طلائی ہندوستانی سّکوں کی دنیا بھر میں قدر تھی۔اس ترقی کو پہلا نقصان اس وقت پہنچا جب ہندوستان عالمی تجارتی راستوں کا حصہ نہ رہا۔ 1260ء کی بات ہے،جب ایک یورپی سوداگر نے ایشیائی تاجروں کی سپرمیسی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔مافیو پولو (1230ء۔1309ء ) وینس (اٹلی)کا رہائشی تھا۔نوجوانی میں وہ اپنے بھائی،نکولو کے ساتھ استنبول آ کر قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے لگا۔ ایک دن اسے خیال آیا،کیوں نہ خود ایشیا جا کر سامانِ تجارت خریدا جائے۔اس طریق کار کا فائدہ یہ تھا کہ اسے پھر درمیان میں آنے والے بیوپاریوں کا کمیشن نہ دینا پڑتا اور یوں زیادہ منافع ہوتا۔یہ سوچ یقیناً ایک نئے معاشی نظام کی بنیاد تھی…یہ کہ یورپی سوداگر ایشیائی صنعت کاروں،پیدا کاروں یا ہول سیل ڈیلروں سے براہ راست مصنوعات خریدیں اور یوں راہ میں آنے والے ممالک کو ’’بائی پاس‘‘کر ڈالیں۔ سو اپنی سوچ پہ عمل کرتے ہوئے دونوں بھائیوں نے سب سے پہلے چین جانے کا فیصلہ کیا۔پہلا سفر (1261ء۔1270ء)زیادہ کامیاب نہ رہا۔مگر دوسرے سفر (1271ء۔ 1295ء)نے انھیں اتنا امیر کبیر بنا ڈالا کہ انھیں پھر تجارت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس سفر میں نکولو کا نوجوان بیٹا،مارکو پولو بھی ہمراہ تھا۔بعد ازاں مارکو نے ایک سفرنامہ لکھا اور اپنے اسفار کو یادگار بنا دیا۔ مافیو پولو (Maffeo Polo)کے سفر بہت کٹھن اور دشوار گذار تھے،تاہم انھوں نے یورپی تاجروں سے لے کر حکومتوں تک کو یہ راہ ضرو ر دکھا دی کہ وہ اگر خود پیداکاروں سے رابطہ کریں ،تو انھیں سستا مال میسر آئے گا۔بعد ازاں بدلتے سیاسی و مذہبی حالات نے بھی انھیں اسی سمت مائل کر دیا۔ ہوا یہ کہ 1453ء میں مسلمانوں نے استنبول فتح کر لیا۔سو عالمی تجارت کا بنیادی راستہ ان کے قبضے میں آ گیا۔اب یورپی طاقتیں شد و مد سے ایشیائی مصنوعات کی رسائی کے نئے بحری راستے تلاش کرنے لگیں۔اس دوران اسپین میں مسلمان شکست کھا گئے۔چناں چہ یورپی طاقتیں مذہبی جوش و جذبے سے بھی عالم اسلام کی عالمی حکمرانی ختم کرنے کے درپے ہو گئیں۔ یورپی مہم جوئوں کی کھوج نے پھر دنیا ہی تلپٹ کر ڈالی۔ یورپی طاقتوں نے انڈونیشیا سے لے کر ارجنٹائن اور امریکا تک پہنچے والے بحری راستے ہی تلاش نہیں کیے بلکہ بہت سے غیر مسلم و کمزور اسلامی ملکوں کو اپنا غلام بھی بنا لیا۔انہی ممالک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر یورپ دولتمند و خوشحال ہونا شروع ہوا۔زائد سرمائے نے خصوصاً وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو زبردست ترقی دی۔ٹیکنالوجی کے بطن سے جدید اسلحے نے جنم لیا اور یوں یورپی طاقتوں کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اسلامی سپرپاورز (خصوصاً ترک عثمانی و مغلیہ سلطنتوں )کو ختم کر سکیں۔ سو سولہویں صدی میں جیسے ہی نئے بحری راستے دریافت ہوئے،ہندوستان کی معیشت میں ضعف آنے لگا۔اسی دوران ملک خانہ جنگیوں کا بھی نشانہ بن گیا۔ہندوستانی اسلامی روپے کی قدر پہ کاری وار انگریزوں نے کیا۔ اٹھارہویں صدی میں جیسے ہی برطانوی ہندوستان پہ قابض ہوئے،ہندوستانی روپے کی قدر گھٹنے لگی۔1900ء میں’’ پندرہ روپے‘‘ ایک برطانوی پونڈ کے برابر تھے۔آج ان کی شرح تبادلہ’’ 163پاکستانی روپے‘‘ پہ پہنچ چکی۔ غرض سولہویںسے اٹھارہویں صدی کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک جغرافیائی یا معاشی طور پہ یورپ کے زیردست آ گئے۔بدقستی سے مسلمانوں نے سائنسی و علمی میدان میں مقابلہ نہیں کیا بلکہ نقلچی بننے کو ترجیع دی۔ان کے تخلیقی سوتے خشک ہوئے،تو ان میں اخلاقی برائیاں بھی در آئیں۔اُدھر یورپی نہ صرف مادی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ترقی کر گئے۔سو ان میں میں کئی اخلاقی خامیاں مثلاً جھوٹ،بے ایمانی،فرائض سے غفلت،بد انتظامی وغیرہ کم ملتی ہیں۔ قران پاک میں امرِ ربّی آیا ہے کہ علم رکھنے والا اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔سو جب تک مسلمان سائنسی،تکنیکی،تہذیبی اور ثقافتی طور پہ مغرب کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے نہیں اتارتے،مغربی طاقتیں خصوصاً معاشی میدان میں ان پہ حکمرانی کرتی رہیں گی۔ ٭…٭…٭


ہندوستانی روپیہ تاریخی طور پر چاندی کی قیمت کے مترادف تھا۔ جب سے انگریز یہاں سے گیا ہے اسوقت سے یہاں ردی کرنسی جاری ہو رہی ہے۔ اسلئے اسکی قیمت ڈالر اور پاؤنڈ کے مقابلہ میں اتنی کم ہے۔
 
Top