راحت اندوری جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے - راحت اندوری

جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے
پتے پتے نے ہواؤں سے شکایت کی ہے

یوں لگا جیسے کوئی عطر فضا میں گھل جائے
جب کسی بچے نے قران کی تلاوت کی ہے

جائے نمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر
رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے

سر اٹھائے تھیں بہت سرخ ہوا میں پھر بھی
ہم نے پلکوں کے چراغوں کی حفاظت کی ہے

مجھے طوفان حوادث سے ڈرانے والو
حادثوں نے تو میرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے

آج اک دانۂ گندم کے بھی حقدار نہیں
ہم نے صدیوں انہیں کھیتوں پہ حکومت کی ہے

یہ ضروری تھا کہ ہم دیکھتے قلعوں کے جلال
عمر بھر ہم نے مزاروں کی زیارت کی ہے

راحت اندوری
 
Top