جب پاکستان معاشی ہٹ مین کے حوالہ کر دیا گیا

جاسم محمد

محفلین
آج کل ملکی معیشت پر زور وشور سے بحث جاری ہے۔ اپوزیشن تو ایک طرف ، سیاسی تجزیہ نگار اور ٹی وی اینکرز بھی اقتصادیات کے ماہرین بنے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عوام تک اصل حقائق پہنچائیں جائیں۔
کسی بھی اُبھرتی ہوئی معیشت میں برآمداد ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ پچھلے 30، 40 سالوں میں قومی معیشت کے اس اہم ترین سیکٹر کو مسلسل اگنور کیا گیا ہے۔ صنعتی پیداوار اور برآمداد بڑھانےکی بجائے ہر آنے والی حکومت نے درآمداد پر ملکی معیشت کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ جو کہ اقتصادیات کے زریں اصولوں کے عین خلاف ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہتری کی بجائے مزید بدحالی کی طرف لیتی چلی گئی۔
مثال کے طور پر مشرقی پاکستان نے آزادی کے بعد درآمداد پر مبنی معیشت کی بجائے مقامی صنعتیں اور برآمداد بڑھانے کی طرف توجہ دی ۔ جس کا دیر است نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے برصغیر میں سب سے زیادہ شرح نمود بنگلہ دیش کی ہے:
https%3A%2F%2Fs3-ap-northeast-1.amazonaws.com%2Fpsh-ex-ftnikkei-3937bb4%2Fimages%2F_aliases%2Farticleimage%2F2%2F4%2F3%2F1%2F18501342-1-eng-GB%2F20181220%20Bangladesh%20GDP%20growth_1.png

gdp_10.jpg


آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں بنگلہ دیش کی شرح برآمداد مثبت رہی ہے ، جس کا مطلب ان کی بر آمداد مسلسل بڑھ رہی ہیں:


دوسری جانب پاکستان میں اسی عرصہ میں شرح برآمداد منفی رہی ہے، یعنی برآمداد بڑھنے کی بجائے پہلے سے بھی کم ہو گئی ہیں:


اوپر سرکاری اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پچھلے 5 سالوں میں پاکستان کی برآمداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود شرح نمود 5 فیصد سے اوپر رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب ذیل کے چارٹس میں موجود ہے:
3-1532027175.jpg


یعنی پچھلی حکومت نے یہ شرح نمود ملک و قوم پر بیرونی قرضے چڑھا کر اور درآمداد غیرمعمولی طور پر بڑھا کر حاصل کی ہے۔

نئی حکومت نے آتے ساتھ ہی جب اس مسلسل بڑھتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی روک تھام کیلئے درآمداد میں کمی شروع کی تو اس سے ملکی معیشت کی شرح نمود براہ راست متاثر ہوئی ہے ۔ چونکہ ملک میں معاشی ترقی برآمداد کی بجائے درآمداد پر استوار کی گئی تھی۔ یوں اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر گرتے ساتھ ہی ہر طرف مہنگائی کاطوفان آیا کھڑا ہے۔
اگر نئی حکومت چاہتی تو پچھلی حکومت کی پالیسیوں پر چلتے ہوئے مزید بیرونی قرضے لے کر سابقہ شرح نمود جاری رکھ سکتی تھی۔ جس سے نہ روپے کی قدر گرتی اور نہ مزید مہنگائی ہوتی۔ مگر پھر 5 سال بعد بیرونی قرضہ ڈبل ہوجاتا۔ اور آئندہ آنے والی حکومتیں اس سے کہیں زیادہ معاشی مسائل کا شکار ہوتیں جن سے آج تحریک انصاف حکومت گزر رہی ہے۔

اس مستقل اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے نئی حکومت دو کام کر سکتی ہے:
  1. پچھلی حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے ڈھیر سارے مزید قرضے چڑھالے۔ جس سے وقتی (5 سال) کیلئے عوام کو مہنگائی سے ریلیف مل جائے گا
    یا
  2. کچھ سال لگاتار عوام کی گالیاں اور احتجاج برداشت کرے۔ محنت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر ملک کا اقتصادی و معاشی ڈھانچہ اتنا مضبوط کر دے کہ آئندہ بیرونی قرضوں کے چنگل سے ملک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزاد ہو جائے۔ اور یوں مسلسل درآمداد پر انحصار کی بجائے برآمداد کرنے والا ملک بن کر ابھرے۔
فی الحال حکومت دوسری آپشن پر چل رہی ہے۔ البتہ اگر عوام اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر بے صبری کا مظاہرہ کیا تو پچھلی حکومتوں کی طرح پہلی آپشن پر جانا پڑے گا۔ جس کی وجہ سے5 سال (2023) کے بعد بیرونی قرضہ حالیہ 99 ارب ڈالر سے بڑھ کر 170ارب ڈالر ہو جائے گا۔ اور تب عوام اسی طرح اگلی حکومت کو گالیاں دے رہی ہوگی جیسا کہ 2013 میں ن لیگ کو دی تھیں ۔ اورآجکل 2019 میں تحریک انصاف کو دے رہی ہے :)
D3-EB-DZW0-AAWPKI.jpg


یہ تمام حقائق جاننے کے بعد آپ یقینا سوچ رہے ہیں کہ اس میں معاشی ہٹ مین کو ہے؟ تو جناب اس کا جواب ہے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب۔ جنہوں نے روپے کی قدر مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے چکر میں ملکی برآمداد کا ستیاناس کر دیا۔ اور یوں اپنے دور حکومت کے اختتام تک ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اسحاق ڈار کی ناکام معاشی پالیسیوں پردنیا ئے اقتصادیات کے چوٹی کے ماہر ڈاکٹر عاطف میاں کا پوسٹ مارٹم ملاحظہ فرمائیں:
H0yXw4Q.png


کل ایک انٹرویو میں اسحاق ڈارفرماتے ہیں کہ نئی حکومت ان کو 'کنٹریکٹ' پر رکھ لے۔ یوں وہ ڈالر کی قیمت 120 روپے تک لیں آئیں گے۔ یعنی اب بیماری کا علاج بھی اسی حکیم سے کرائیں جن کی دوا سے معیشت بیمار ہوئی تھی :)

خیر اب جو ملک و قوم کا نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ اب آگے کا سوچیں۔ کیا انہیں ماضی کی طرح مہنگائی اور معاشی مندی سے فوری ریلیف چاہئے؟ یا وہ بنگلہ دیش کی طرح ایک مضبوط صنعتی اور برآمداد میں مسلسل ترقی کرنے والا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس کا فیصلہ قوم ، سیاسی اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑتے ہیں۔
 

ابوعبید

محفلین
آپ نے آٹھ ماہ میں پوسٹ مارٹم تو کر ہی لیا ہے ۔ اب بقول آپ کے موت کی وجہ بھی آپ کو پتہ چل چکی ہے ۔ اب اس میت کو دفنا دیں اور جو زندہ ہیں ان کے مرنے سے پہلے ان کے علاج کا بندوبست کریں ۔
فی الحال تو آپ میت کو دفنانے کی بجائے اس پہ بیٹھے بَین کرتے جا رہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب اس میت کو دفنا دیں اور جو زندہ ہیں ان کے مرنے سے پہلے ان کے علاج کا بندوبست کریں ۔
علاج کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ زندہ رہنے کیلئے اپوزیشن کا بھرپور ساتھ دے اور معاشی ہٹ مین کو دوبارہ وزیر خزانہ لگانے کیلئے حکومت مخالف تحریک چلائے۔

اسحاق ڈار کو کنٹریکٹ پر وزیر خزانہ رکھا جائے: ن لیگ کی قرارداد جمع
Last Updated On 04 April,2019 02:33 pm
485428_35011092.jpg

لاہور: (دنیا نیوز) مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی میں دلچسپ قرارداد جمع کرا دی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنا وزیر خزانہ اسد عمر کے بس کے بات نہیں، اسحاق ڈار کو کنٹریکٹ پر وزیر خزانہ رکھا جائے۔

قرارداد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی رکن حنا پرویز بٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ پاکستان کو حالیہ معاشی بحران سے نکالنا وزیر خزانہ اسد عمر کے بس کی بات نہیں رہی، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کو لکھ کر دے دیا ہے کہ ڈالر 169 روپے تک لے جایا جائے گا، حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل عوام پر مہنگائی مسلط کر دی ہے، پہلی مرتبہ ڈالر 142اور سونا 72 ہزار فی تولہ ہوا ہے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کنٹریکٹ پر رکھا جائے، اسحاق ڈار حکومت کو یہ آفر کرچکے ہیں، اگر پاکستان کی معاشی صورتحال یہی رہی تو 2021ء تک ملکی قرض 35948 ارب تک پہنچ جائے گا۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ اس سے بہتر ہے کہ حکومت اسحاق ڈار کی آفر کو فی الفور قبول کرے، حکومت کے پاس اسحاق ڈار کے معاشی تجربات سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ہے، اسحاق ڈار ( ن) لیگ کی دور حکومت میں ڈالر کو 111 روپے سے 98 روپے تک لائے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سب سے پہلے کچھ بنیادی باتیں سمجھ لیں۔
ایک شخص اپنے محلے کی دکانوں سے آٹا، دال، چاول، گوشت وغیرہ خرید کر اپنے گھر کے باہر ریڑھی لگا کر کھانا بیچتا ہے اور اپنی روزی کماتا ہے۔ اپنے اخرجات کے حساب سے اسے ایک آئٹم پچاس روپے میں پڑتا ہے اور وہ اسے سو روپے میں بیچ کر پچاس روپے منافع کماتا ہے۔

چونکہ وہ اپنا مال اپنے محلے کی پرچون، سبزی اور گوشت کی دکانوں سے خریدتا ہے، اس لئے اس کے ساتھ ساتھ ان دکانداروں کا بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا مال بکتا ہے، جس سے ان کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

پھر ایک دن بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور وہاں کھل جاتا ہے، جو کہ ملک گیر سطح پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ان کی سپلائی، آپریشنز اور مارجنز، کسی بھی چھوٹے دکاندار سے بہتر ہوتے ہیں۔ وہ ڈیپارٹمنل سٹور اپنی اشیا پانچ سے دس فیصد کم قیمتوں پر بیچنا شروع کردیتا ہے۔

آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر ہوگا؟
درست سمجھے، وہ ریڑھی والا شخص اپنے محلے کے پرانے دکانداروں کو چھوڑ کر اس ڈیپارٹمنٹل سٹور سے خریدنا شروع کردے گا۔ نہ صرف ریڑھی والا، بلکہ محلے کے دوسرے لوگ بھی یہی کریں گے۔

نتیجہ؟ وہ چھوٹے دکاندار بشمول پرچون، سبزی اور گوشت کی دکانوں کی سیل آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جائے گی ۔ ۔ ۔ ان کے مارجنز پہلے ہی کم تھے، جب سیل کم ہوگئی تو وہ ایک ایک کرکے اپنی دکانیں بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

اب اسی صورتحال کو تھوڑا مزید آگے لے جائیں۔ اسی ڈیپارٹمنٹل سٹور کے ساتھ سٹور نے اپنا ایک کیفے ٹیریا بھی شروع کرلیا جہاں کسٹمرز کو اچھے ماحول میں نسبتاً سستے داموں کھانا ملنا شروع ہوگیا۔ اب وہ شخص جو گھر میں کھانا پکا کر ریڑھی پر بیچا کرتا تھا، اس کی بکری بھی کم ہونا شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ وہ بھی تینوں چھوٹے دکانداروں کی طرح بیروزگار ہوگیا۔

یہی کچھ پاکستان کی معیشت کے ساتھ سابقہ ادوار میں کیا گیا۔

کسی بھی ملک کی معیشت کی بنیاد اس کی آمدن ہوتی ہے اور آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ایکسپورٹس ہیں۔ اگر آپ کے ملک میں لوکل انڈسٹری کام کررہی ہے جس کی اشیا غیرممالک کو فروخت ہوتی ہیں تو آپ کا ملک کماؤ پوت ہے۔ یہ اشیا مقامی صنعتکار جب بیرون ملک ایکسپورٹ کرتا ہے تو ایکسپورٹ کی پیمنٹ ڈالرز میں ہوتی ہے، یہ ڈالرز حکومت کے زرمبادلہ میں جاتے ہیں اور ان کے مساوی روپے صنعتکار کو مل جاتے ہیں۔ یوں صنعتکار کو اپنی پراڈکٹس کا اچھا منافع مل جاتا ہے، اور حکومت کے پاس ڈالرز آجاتے ہیں۔

چونکہ پاکستان میں تیل سے لے کر ہیوی مشینری تک، امپورٹ کرنا پڑتا ہے، اور جب حکومت یا مقامی صنعتکار کوئی شے امپورٹ کرتے ہیں تو اس کی ادائیگی بھی ڈالرز میں ہوتی ہے۔ صنعتکار تو اس کی ادائیگی روپوں میں کرتا ہے لیکن حکومت ان روپوں کے بدلے اپنے فارن ایسچینج میں موجود ڈالرز سے اس ملک کو ادائیگی کرتی ہے جہاں سے امپورٹ کی گئی۔ جب امپورٹس زیادہ اور ایکسپورٹس کم ہوں تو اسے تجاری خسارہ کہتے ہیں، کیونکہ حکومت کو ڈالرز حاصل کرنے کیلئے قرضہ لینا پڑتا ہے، پھر اس قرضے کی قسطیں ادا کرنے کیلئے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے اور یوں بھنور میں دھنسنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

سابقہ ادوار میں پاکستان کے ساتھ یہی زیادتی کی گئی کہ ایکسپورٹس کم کرکے امپورٹ بڑھا دی گئیں جس سے تجاری خسارہ بڑھنا شروع ہوگیا۔

اسحاق ڈار کے بعد جب ن لیگ نے مفتاح کو وزیرخزانہ بنایا تو اس کا بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ اسحاق ڈار نے روپے کی قیمت کو مصنوعی طور پر 105 پر رکھنے کیلئے چوبیس ارب ڈالرز قرضہ لیا جس سے معیشت تباہ ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ مفتاح اسماعیل کے چھ ماہ میں روپے کی قیمت 105 سے بڑھ کر 125 کے قریب آگئی۔

اسحاق ڈار نے جو کاروائی ڈالی، وہ کچھ یوں تھی:

پاکستان میں اگر ایک نائلون کی چپل مقامی طور پر تیار ہو کر صنعتکار کو 80 روپے میں پڑتی تھی تو یہی چپل چائنہ سے امپورٹ کرنے کے بعد ڈیوٹی وغیرہ ادا کرنے کے بعد بھی 60 روپے میں پڑتی تھی۔ ایسے میں کون پاگل ہوگا جو چپل تیار کرنے کی انڈسٹری چلاتا رہے، جبکہ اسے پتہ ہے کہ وہی آئٹم بآسانی امپورٹ کرکے اس سے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔

چنانچہ ایک ایک کرکے پاکستان میں لوکل انڈسٹری بند ہوتی گئی اور پوری معیشت چائنہ سے امپورٹ کردہ اشیا کے چنگل میں پھنستی گئی۔ بچوں کے ہوزری کے کپڑے جو کبھی کراچی اور گوجرانوالہ فیصل آباد میں تیار ہوا کرتے تھے، اب سب کے سب چائنہ سے امپورٹ ہونے لگے، میک اپ کا سامان، الیکٹرونکس، حتی کہ لہسن اور اناج تک چائنہ سے آنا شروع ہوگیا۔

اس امپورٹ کا نقصان یہ ہوا کہ مقامی انڈسٹری تباہ گئی اور امپورٹس بے تحاشہ بڑھ گئیں جس سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا اور یوں پاکستان قرضے لینے پر مجبور ہوتا گیا۔

امپورٹ کے اس خطرناک رحجان کا خاتمہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب امپورٹڈ اشیا کی قیمتوں کو مقامی اشیا کی قیمتوں کے برابر یا پھر مہنگا کیا جاسکے تاکہ مقامی صنعتکار کو لوکل انڈسٹری لگانے میں منافع نظر آئے اور پاکستان میں صنعتکاری کا رحجان شروع ہوسکے۔ اس سے ملازمتیں بھی بڑھتی ہیں اور ایکسپورٹ انکم کے چانسز بھی بڑھتے ہیں۔

اس حوالے سے اسد عمر نے کیا کیا؟

اسد عمر نے روپے کی قیمت بڑھا دی جس سے فوری طور پرچائنہ سے امپورٹ ہونے والی اشیا مہنگی ہوگئیں۔ پہلے اگر ایک چپل امپورٹ کرنے کے بعد 60 روپے میں دستیاب تھی تو اب شاید وہ 80 روپے میں ملنے لگی۔ اس سے امپورٹرز کا نقصان ہونا شروع ہوگیا لیکن مقامی صنعتکار کو سگنلز ملنا شروع ہوگئے کہ اگر وہ یہی پراڈکٹ مقامی طور پر 78 روپے میں تیار کرلیں تو انہیں امپورٹرز کے مقابلے میں فائدہ ہوگا۔ معیشت ہمیشہ انہی سگنلز پر چلتی ہے ۔ ۔ ۔

اگر آپ کو کچھ اشیا مہنگی نظر آرہی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔ یہ صورتحال دو سال تک رہے گی، پھر جب امپورٹ کرنے کا جنون ختم ہونا شروع ہوگا اور مقامی صنعت پھلنا پھولنا شروع ہوگی تو انشا اللہ تجارتی خسارہ بھی کم ہوجائے گا، ڈالرز پر انحصار بھی کم ہوجائے، مقامی طور پر روزگار بھی جنریٹ ہوگا اور ایکسپورٹ ہونا بھی شروع ہوجائے گی۔

یہ وہ امپیکٹ ہے جو آپ کو راتوں رات نظر نہیں آسکتا۔ یہی وہ ستر سالہ تباہی تھی کہ جسے ٹھیک کرنے کیلئے ویت نام، ترکی اور چین جیسے ممالک کو کئی دہائیاں لگیں لیکن پھر وہ ترقی کرنا شروع ہوگئے ۔ ۔ پاکستان میں یہ صورتحال انشا اللہ اگلے دو سے تین سال میں بہتر ہونا شروع ہوجائے گی ۔ ۔ ۔ اور پھر انشا اللہ بہتری کی جانب ہی بڑھے گی۔

اس وقت مہنگائی کا شور مچانے والے تین قسم کے طبقات ہیں:
ایک وہ کہ جنہیں نظر آرہا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے دور رس نتائج برامد ہوں گے جس سے ان کی سیاست مستقل بنیادوں پر ختم ہوجائے گی،
دوسرے وہ جاہل کہ جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں، وہ صرف اسلئے شور مچار رہے ہیں کہ ان کے آقاؤں کی چیخیں نکل رہی ہیں،
تیسرے وہ کم علم عوام کہ جنہیں ان باتوں کی سمجھ نہیں۔ اور میری اس پوسٹ کے مخاطب بھی وہی عوام ہیں،

کیونکہ پہلے دو طبقات کو میں اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں ۔ ۔

اللہ تعالی اسد عمر اور عمران خان کو پاکستان کیلئے بہتر پالیسیز بنانے کا اجر دے ۔ آمین!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی معیشت کا عرشہ اور کیبن
06/04/2019 وسعت اللہ خان



ویسے تو مہنگائی کے اعتبار سے ہر رمضان ہی پاکستانی روزہ داروں پر بھاری ہوتا ہے مگر یہ رمضان کچھ زیادہ ہی بھاری ہو سکتا ہے۔ ایک ماہ پہلے ہی پھلوں سبزیوں اور خشک راشن کی قیمت میں اوسطاً تیس سے چالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ رمضان میں اسے دگنا فرض کر لیں اور پھر دیکھیں کہ صبر و ضبط اور تزکیہِ نفس کے کون کون سے نئے پہلو آزماتے ہیں۔

ہر برس مہنگائی میں اضافے کے لیے نئے حیلے سامنے آتے ہیں۔ اس برس کا بہانہ ہے ڈالر اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ۔ مگر بھنڈی اور چقندر بھی منہ مانگے دام ایسے دستیاب ہے گویا ڈالر دے کر درآمد کیے گئے ہوں اور پانی کے بجائے پٹرول سے آبیاری ہوئی ہو۔

مگر یہ آج کی معاشی تصویر کا ایک بہت چھوٹا سا پہلو ہے۔ تصویر کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو یہی لکھنا کافی ہوگا کہ معیشت کے جہاز کو بے یقینی کا سونامی اچھال رہا ہے اور قطب نما ساکن ہے۔ ایسا نہیں کہ سب اچانک سے ہوا ہے۔ سب کو بہت برس سے اندازہ تھا کہ جہاز جس طرف جا رہا ہے ادھر چٹانیں ہی چٹانیں ہیں مگر ہر کسی نے یہی سوچ کر بادبان کا رخ نہیں موڑا کہ اللہ مالک ہے۔

آج اگر کسی کو بس ہرا ہی ہرا سوجھ رہا ہے تو وہ وزیر خزانہ اسد عمر ہیں۔ ان کی معاشی کورئیو گرافی بڑے بڑے اقتصادی پنڈت دانتوں میں انگلیاں دبائے ٹکر ٹکر دیکھ رہے ہیں اور بنا پلکیں جھپکائے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے کہ رقص کا یہ کون سا بھاؤ اور نرت ہے۔ بھارت ناٹئیم، جھاؤ، کتھا کلی، بھنگڑا، مون واک، ٹوئسٹ، ڈسکو کہ سالسا۔ یا پھر ان سب کے ملغوبے سے رقص کی کوئی ایسی قسم وجود میں لائی گئی ہے کہ جو اب تک کسی نے دیکھی نہ سنی۔ آئی ایم ایف کے پاس جاؤں نہ جاؤں دھا دھن دھن دھا، چین سے اسی کی شرائط پر اور قرض اٹھا لوں کہ نہ تگڑڑ تگڑ، دھڑ دھڑ دھا دھم۔ سعودیوں اور اماراتیوں سے تیل۔ ڈھنچک ڈھنچک تڑاڑاڑاتڑ۔ غرض پاؤں گھومتے جاتے ہیں اور زمین نکلتی جاتی ہے۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ اس حکومت کی اقتصادی ٹیم میں کون کس پیج پر ہے۔ مگر یہ ضرور پتہ چل گیا ہے کہ جھوٹ، گپ گول مول گفتگو اور آسرے دلاسے ایک پیج پر جب کہ اسٹیٹ بینک ہو کہ ایشیائی ترقیاتی بینک یا ورلڈ بینک دوسرے پیج پر۔ مالیاتی اداروں کا اتفاق ہے کہ چاہے کوئی کچھ بھی قلابے ملا لے پاکستانی معیشت موجودہ اور اگلے برس معاشی نمو کے اعشاریے میں چار فیصد کا ہندسہ پار نہیں کر پائے گی۔ بلکہ ایشیا و بحرالکاہل سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اقتصادی کمیشن ( سکیپ ) نے تو کل ہی کہا ہے کہ اگلے دو برس تک پاکستانی معیشت بھارت ( ساڑھے سات فیصد ) اور بنگلہ دیش ( سات اعشاریہ تین فیصد ) تو رہے ایک طرف مالدیپ اور نیپال ( ساڑھے چھ فیصد) سے بھی ڈھائی فیصد نیچے رہے گی۔

ملک کے ایک سرکردہ ماہرِ معیشت اور سرکاری کمروں میں فیصلہ سازی کے شاہد ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنی تازہ تحقیقی رپورٹ میں پچھلے پچیس برس کی معاشی سیاست پر سیر حاصل تحقیق کی ہے۔ اس کے مطابق انیس سو نوے سے دو ہزار پندرہ کے درمیان صرف دو ہزار پانچ ایسا سال تھا جب معاشی شرحِ نمو نے نو فیصد کا ہندسہ چھوا۔ ان پچیس برسوں میں صرف دو برس ( انیس سو بانوے، دو ہزار چار ) ایسے تھے جب معیشت نے سات فیصد سالانہ نمو کا آنکڑا پار کیا۔ ورنہ تو معیشت دھکا اسٹارٹ گاڑی کی طرح ہی چلی جو ہر چند قدم پر کبھی تیز، کبھی سست اور کبھی جامد ہو جاتی ہے۔

جیسے انیس سو بانوے میں معاشی ترقی کی شرح سات اعشاریہ سات فیصد تک پہنچی تو اگلے ہی برس یہ شرح گر کے دو اعشاریہ ایک تک آ پڑی، سن چھیانوے میں معاشی بڑھوتری چھ اعشاریہ چھ فیصد مگر اگلے ہی برس صرف ایک اعشاریہ سات فیصد، دو ہزار چھ میں پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تو دو ہزار آٹھ میں صرف اعشاریہ چار فیصد۔ اس اعتبار سے پچھلے پچیس برس میں پاکستانی معیشت نے اوسطاً چار فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کی لیکن آبادی میں سالانہ ڈھائی فیصد اضافے سے چار فیصد ترقی کو مائنس کر دیا جائے تو پاکستانی معیشت عملاً پچیس برس کے دورانیے میں محض ڈیڑھ فیصد سالانہ کے حساب سے ہی آگے بڑھ پائی۔ یہ رہی سہی ترقی بھی قرضوں کے سود، دفاعی بجٹ، انتظامی اخراجات اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات نے برابر کر دی۔ عوام کے لیے کیا بچا؟ کدو۔

پاکستان پچھلے ستر برس سے جن سوالوں کے جواب تلاش کر رہا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کیا ہم ترقی پذیر ملک ہیں یا سیکیورٹی اسٹیٹ؟ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ انیس سو ستتر تک پاکستان ایک ترقی پذیر ریاست کہی جاسکتی تھی۔ ایوب خان کے صنعتی انقلاب کی دہائی گزرنے کے بعد بھٹو کی سوشلسٹ حکومت میں بھی ترقیاتی اخراجات کی شرح اکیس فیصد سالانہ تھی۔ مگر انیس سو ستتر سے اٹھاسی تک کے دس سالہ ضیا دور میں ترقیاتی اخراجات کی شرح گرتے گرتے دو اعشاریہ سات فیصد تک آ گئی اور بعد کے برسوں میں بھی جانبر نہ ہو سکی۔

ستتر کے بعد سے پاکستان کے پاس جیسا کیسا جو بھی صنعتی و زرعی ڈھانچہ تھا اسے رفتہ رفتہ خودکفالت اور بچت کا ہدف حاصل کرنے کے بجائے کنزیومر ازم کے سامنے پسپا ہونا پڑا۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اب سے چالیس برس پہلے ( انیس سو اناسی تک ) بجلی کی آدھی پیداوار صنعتی شعبے میں کھپ جاتی تھی جب کہ گھریلو صارفین و بازار سترہ فیصد بجلی استعمال کرتے تھے۔ آج صنعت محض اٹھائیس فیصد بجلی استعمال کر پا رہی ہے اور گھریلو صارفین و بازار سینتالیس فیصد بجلی استعمال کر رہے ہیں۔

لیکن اگر صنعت و زراعت جیسے بنیادی شعبے دولت پیدا نہیں کر رہے تو پھر پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، ہر قصبے میں بڑے بڑے مال کیوں بن رہے ہیں، اپ اسکیل ہوٹل اور ریستوراں کیوں بھرے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے گھر مسلسل کیسے اٹھ رہے ہیں، نئی نئی کاریں کون خرید رہا ہے؟ بین الاقوامی پروازوں پر کون آ جا رہا ہے، اتنے سارے بینک کیسے نمودار ہو گئے اگر کاروبار ہی نہیں؟

اس بارے میں ڈاکٹر بنگالی کہتے ہیں کہ پچھلے پچیس برس کے دوران پاکستان کی معاشی قوت روایتی جاگیر دار اور صنعت کار کے ہاتھ سے پھسل کر اسٹاک ایکسچینج کے دلال، اجناس کے آڑھتی، ریاستی پشت پناہ یافتہ لینڈ ڈویلپرز اور زمین کے سٹے بازوں کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ دولت زراعتی و صنعتی سرمایہ کاری سے نہیں پلاٹ، حصص پر سٹے اور اجناس کی آڑھت پیدا ہو رہی ہے۔ جدید اشرافیہ میں اسٹیبلشمنٹ سے جڑے ٹھیکیدار، نوکر شاہ، جی حضور زمیندار و تاجر و صنعت کار ہیں۔ کچھ ادارے اور ان کے طفیلی نجکار و ٹھیکیدار معاشی پالیسوں پر پوری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے ثمرات نیچے تک پہنچنے سے پہلے ہی بٹ بٹا جاتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو بیرونی امداد سے جنم لینے والی پروجیکٹ بیسڈ این جی او معیشت کے دروازے سے اشرافیہ کے کلب میں داخل ہوا ہے۔ فوج کے ذیلی ادارے خود کفیل، بارسوخ اور اقتصادی بے یقینی سے فی الحال محفوظ ہیں۔

بالائی متوسط گیٹڈ کمیونٹی کے اندر کا پاکستان ایک فلاحی مملکت ہے اور گیٹ سے باہر کا پاکستان ایک خود رو متوازی معاشی مملکت ہے جو ”جہاں رہو جیسے رہو خوش رہو“ کی بنیاد پر آسمانی مدد کی امید کے سہارے چل رہا ہے۔

مگر ڈاکٹر بنگالی کے بقول اشرافیہ ہو کہ عام لوگ، دونوں ایک ہی جہاز پر سوار ہیں۔ عام لوگ عرشے پر گذارہ کر رہے ہیں اور اشرافیہ کیبنوں میں استراحت فرما اور نظارہ گیر ہے اور اپنے کیبنوں کو مضبوط بنانے کے لیے اسی جہاز کے کل پرزے جگاڑ لگا کے کام میں لا رہی ہے جن کا بے موقع استعمال پورے جہاز کی سلامتی بگاڑ سکتا ہے۔

ایک نہ ایک دن جہاز ڈوبا تو سب ہی جائیں گے۔ مگر نہیں۔ اشرافیہ کے پاس دہری شہریت اور بیرونِ ملک اثاثے و اکاؤنٹس ہیں۔ انھیں بس اتنی مہلت چاہیے ہو گی کہ وہ ایئرپورٹ پہنچ کر فلائٹ پکڑ سکیں۔ وما علینا الا البلاغ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس بارے میں ڈاکٹر بنگالی کہتے ہیں کہ پچھلے پچیس برس کے دوران پاکستان کی معاشی قوت روایتی جاگیر دار اور صنعت کار کے ہاتھ سے پھسل کر اسٹاک ایکسچینج کے دلال، اجناس کے آڑھتی، ریاستی پشت پناہ یافتہ لینڈ ڈویلپرز اور زمین کے سٹے بازوں کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ دولت زراعتی و صنعتی سرمایہ کاری سے نہیں پلاٹ، حصص پر سٹے اور اجناس کی آڑھت پیدا ہو رہی ہے۔ جدید اشرافیہ میں اسٹیبلشمنٹ سے جڑے ٹھیکیدار، نوکر شاہ، جی حضور زمیندار و تاجر و صنعت کار ہیں۔ کچھ ادارے اور ان کے طفیلی نجکار و ٹھیکیدار معاشی پالیسوں پر پوری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے ثمرات نیچے تک پہنچنے سے پہلے ہی بٹ بٹا جاتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو بیرونی امداد سے جنم لینے والی پروجیکٹ بیسڈ این جی او معیشت کے دروازے سے اشرافیہ کے کلب میں داخل ہوا ہے۔ فوج کے ذیلی ادارے خود کفیل، بارسوخ اور اقتصادی بے یقینی سے فی الحال محفوظ ہیں۔
وسعت صاحب کے اسلوب اور محترم قیصر بنگالی کے تبصروں نے اس کالم میں جان بھر دی ہے ۔۔۔!
 

آصف اثر

معطل
اب اس متقابل صورت حال میں، جس میں ایک جانب اسد عمر کی تعریف تو دوسری جانب تنقیص کی گئی ہے، اسد عمر کو ہٹانے کے فیصلے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
 

جان

محفلین
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ٹیلنٹ کی قدر ہی نہیں پاکستان میں۔
اسد عمر نے اپنی اقتصادی مشاورتی کونسل میں ڈاکٹر عاطف میاں جیسے عالمی ماہرین معاشیات بھرتی کئے تھے۔ سب کو ایک ایک کر کے فارغ کر دیا گیا۔ ملک میں میرٹ (انصاف) کا کلچر ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ ہمیں یہود و ہنود دشمنان کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں :)
 

جان

محفلین
اسد عمر نے اپنی اقتصادی مشاورتی کونسل میں ڈاکٹر عاطف میاں جیسے عالمی ماہرین معاشیات بھرتی کئے تھے۔ سب کو ایک ایک کر کے فارغ کر دیا گیا۔ ملک میں میرٹ (انصاف) کا کلچر ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ ہمیں یہود و ہنود دشمنان کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں :)
سن کر افسوس ہوا کہ تحریک انصاف میں ہی انصاف نہیں ہے۔ لیکن یہ فائدہ جو آپ نے بتلایا ہے یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ماہرین معاشیات کے اقتصادی کونسل میں نہ ہونے کے باوجود اسد عمر نے یہ فائدہ پہنچایا ہے۔ پھر بھی افسوس کہ اقتصادی کونسل کے نہ ہوتے ہوئے بھی اسد عمر ملک کو اتنا بڑا فائدہ پہنچا گئے اور ملک نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ افسوس!
 

جاسم محمد

محفلین
پھر بھی افسوس کہ اقتصادی کونسل کے نہ ہوتے ہوئے بھی اسد عمر ملک کو اتنا بڑا فائدہ پہنچا گئے اور ملک نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ افسوس!
متفق۔ اسحاق ڈار کی پالیسیز نے جو ملکی معیشت میں بگاڑ پیدا کیا تھا۔ اسد عمر اس کا سد باب کررہے تھے۔ مگر ان پالیسیوں کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑا تھا جسے عمران خان برداشت نہ کر سکے اور فارغ کر دیا۔
چونکہ خان صاحب خود ماہر معاشیات نہیں ہیں اس لئے ان کو سمجھ نہ آ سکی کہ ملکی معیشت کو راہ راست پر لانے کیلئے کئے جانے والے ریفارمز سیاسی طور پر غیر مقبول ہوتے ہیں۔ لیکن اقتصادیاتی سائنس کے تحت درست۔ ان کو چاہیے تھا کہ ملک کے دیرپا مفاد میں عوام کا پریشر برداشت کرتے۔
مگر وہ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں زرداری دور کا وزیر خزانہ لگا دیا :)
 

جان

محفلین
جاسم صاحب کچھ سوالات کے جواب درکار ہیں۔ اسد عمر کے والد صاحب کون تھے، کیا کرتے تھے، ان کے یحیی خان اور پرویز مشرف سے کیا مراسم تھے اور حمود الرحمٰن کمیشن ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ نیز اینگرو میں اسد عمر کی کیا ریپوٹیشن تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم صاحب کچھ سوالات کے جواب درکار ہیں۔ اسد عمر کے والد صاحب کون تھے اور کیا کرتے تھے اور ان کے یحیی خان اور پرویز مشرف سے کیا مراسم تھے اور حمود الرحمٰن کمیشن ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ نیز اینگرو میں اسد عمر کی کیا ریپوٹیشن تھی؟
اسد عمر کے باپ دادا کی غلطیوں کی سزا ان کو نہیں دی جا سکتی۔ اسد عمر کو جب عمران خان پارٹی میں لے کر آئے اس وقت وہ پاکستان کے سب سے زیادہ کمانے والے چیف ایگزیکٹو تھے۔ انہوں نے اپنے ۲۷ سالہ کیریر میں جہاں اینگرو کو اتنی ترقیات سے نوازا وہیں کئی غلطیاں بھی کی ہوں گی۔ بہرحال موصوف اسحاق ڈار کے مقابلہ میں بہت بہتر اور قابل وزیر خزانہ تھے۔ جنہوں نے ملک کے خراب معاشی ڈھانچے کو درست کرنے کی کم از کم کوشش تو کی
Corporate titan: After 27 years at Engro, Asad Umar calls it a day
 

جان

محفلین
اسد عمر کے باپ دادا کی غلطیوں کی سزا ان کو نہیں دی جا سکتی۔ اسد عمر کو جب عمران خان پارٹی میں لے کر آئے اس وقت وہ پاکستان کے سب سے زیادہ کمانے والے چیف ایگزیکٹو تھے۔ انہوں نے اپنے ۲۷ سالہ کیریر میں جہاں اینگرو کو اتنی ترقیات سے نوازا وہیں کئی غلطیاں بھی کی ہوں گی۔ بہرحال موصوف اسحاق ڈار کے مقابلہ میں بہت بہتر اور قابل وزیر خزانہ تھے۔ جنہوں نے ملک کے خراب معاشی ڈھانچے کو درست کرنے کی کم از کم کوشش تو کی
Corporate titan: After 27 years at Engro, Asad Umar calls it a day
یقیناً باپ کے سہارے ہی بچے پروان چڑھتے ہیں۔ سب سوالوں کے جواب گول کرنے کا شکریہ۔ جنہیں دلچسپی ہو گی وہ خود ان کے جوابات تلاش کر لے گا۔ موصوف چیف ایگزیکٹیو کیسے بنے؟ یہی سوال پچھلے سوالات میں بھی موجود ہے کہ موصوف کی کیا ریپوٹیشن تھی۔ خیر! ہمیں کیا، سب اچھا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یقیناً باپ کے سہارے ہی بچے پروان چڑھتے ہیں۔ سب سوالوں کے جواب گول کرنے کا شکریہ۔ جنہیں دلچسپی ہو گی وہ خود ان کے جوابات تلاش کر لے گا۔ موصوف چیف ایگزیکٹیو کیسے بنے؟ یہی سوال پچھلے سوالات میں بھی موجود ہے کہ موصوف کی کیا ریپوٹیشن تھی۔ خیر! ہمیں کیا، سب اچھا ہے۔
کیسے بنے سے ہٹ کر دیکھیں تو وہ اینگرو کو دیوالیہ کرکے نہیں گئے ہیں۔ ۲۷ سالوں میں انہوں نے کمپنی کو دیوالیہ پن سے نکال کر منافع بخش کاروبار بنایا ہے۔
نیز ان کو پارٹی میں عمران خان خود لے کر آئے تھے گو کہ موصوف کو سیاست میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
 

آصف اثر

معطل
متفق۔ اسحاق ڈار کی پالیسیز نے جو ملکی معیشت میں بگاڑ پیدا کیا تھا۔ اسد عمر اس کا سد باب کررہے تھے۔ مگر ان پالیسیوں کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑا تھا جسے عمران خان برداشت نہ کر سکے اور فارغ کر دیا۔
چونکہ خان صاحب خود ماہر معاشیات نہیں ہیں اس لئے ان کو سمجھ نہ آ سکی کہ ملکی معیشت کو راہ راست پر لانے کیلئے کئے جانے والے ریفارمز سیاسی طور پر غیر مقبول ہوتے ہیں۔ لیکن اقتصادیاتی سائنس کے تحت درست۔ ان کو چاہیے تھا کہ ملک کے دیرپا مفاد میں عوام کا پریشر برداشت کرتے۔
مگر وہ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں زرداری دور کا وزیر خزانہ لگا دیا :)
اسٹیبلشمنٹ تھوڑے تھوڑے اور نرم شرائط پر عوامی قرضوں سے خوف زدہ اور اپنے جیب گرم رکھنے کے لیے بے چین تھی سو یہ تو ہونا تھا۔ عمران خان پاگل نہیں تھا جو اتنا بڑا قدم اٹھاتا اور اوپر سے مشرف دور کے حفیظ شیخ کا انتخاب۔
 
Top